صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس علاقے میں نکاسیئ آب کا انفرااسٹرکچر 48گھنٹوں کے دوران 217ملی میٹر بارش کے لیے بنایا گیا ہے۔ جب کہ 27اگست کو علاقائی سطح پر بعض علاقوں میں ایک گھنٹے کے دوران 130ملی میٹر اور چار گھنٹوں میں 230ملی میٹر تک بارش ہوئی۔ اس کی وجہ سے شہری علاقوں میں سیلاب آیا۔ سی بی سی اور ڈی ایچ اے کا علاقہ کراچی کے جنوبی حصے میں واقع ہے جو کہ برساتی نالوں اور دیگر آبی گزرگاہوں کا آخری سرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے پر پانی کا دباؤ بھی زیادہ ہوتا ہے جس کے باعث کئی زیر آب علاقوں سے چارپانچ دن تک پانی نہیں نکالا جاسکا۔
بدقسمتی سے ان علاقوں کا موازنہ دیگر شہر وں سے کیا گیا جس کی وجہ سے یہاں کے مکینوں کا انتظامیہ کے بارے میں تاثر بُری طرح متاثر ہوا۔ ظاہر ہے کہ ڈی ایچ اے کے رہنے والے بہتر خدمات کی توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں۔ پانی کی تقسیم کی ذمے داری سی بی سی کی ہے۔ ڈی ایچ اے کے مکینوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ پانی کی لائنیں کئی دہائیاں قبل بچھائی گئی تھیں۔ علاقے کو نوے لاکھ گیلن یومیہ پانی درکا ہے جس میں سے واٹر بورڈ صرف 40لاکھ گیلن یومیہ فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سی بی سی کو باقی طلب خود پوری کرنا پڑتی ہے۔ ایک جانب ڈی ایچ اے کے مکینوں کو کے الیکٹرک کی جانب سے مسلسل اضافی بلوں کا مسئلہ درپیش رہتا ہے، خصوصاً بارش کے دنوں میں بجلی کی معطلی اور لائنوں کی خرابی سے پیدا ہونے والے خطرات الگ ہیں۔
2007اور 2008میں ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر کامران قاضی نے ممکنہ صورت حال کی پیش بندی کرتے ہوئے بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے قابل تعریف اقدامات کیے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں برساتی پانی جمع ہونے کا مسئلہ پیش نہیں آیا۔ تاہم اب اس نظام میں کئی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نکاسی آب کی لائنوں میں رکاوٹوں اور بعض مقامات پر مرمت میں غفلت کے باعث مکینوں کو نوے سال کی تیز ترین بارش میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈی ایچ اے اور سی بی سی نے ممکنہ بارشوں کے پیش نظر مئی اور جولائی 2020 میں پیش بندی کے لیے ایک منصوبے پر کام شروع کردیا تھا۔
اس میں خیابان شمشیر اور مجاہد، خیابان سحر اور محافظ کمرشل ایونیو، ای اسٹریٹ، بی اسٹریٹ اور خیابان بحریہ سے برساتی پانی کی نکاسی کے لیے انتظامات کیے گئے۔ اسی طرح کورنگی روڈ کے ساتھ محمودآباد، جامی نالہ، ٹرانزٹ کیمپ، سن سیٹ بلووارڈ اور چوہدری خلیق الزماں روڈ، نہر خیام اور محمودآباد سمیت دیگر کھلے نالوں کی صفائی بھی کی گئی۔ اس صفائی کے لیے سی بی سی نے تقریباً 5کروڑ روپے کے اضافی اخراجات کیے اور اس کے علاوہ اضافی مشینری اور آلات کا بھی انتظام کیا۔ 150گاڑیاں اور 150پیٹرول انجن پمپ، 11کینال پمپ، 8موبائل ہائیڈرنٹ، 4ٹربائن مع 10ایچ پی موٹر اس میں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ 6پیٹر پمپس، 40سکشن پمپس، گرے واٹر باؤزرز کے لیے 10سکشن پمپس، 1500 فٹ سکشن اور ڈیلیوری پائپ اور 45سکشن باؤزر کی اضافی مشینری بھی استعمال ہوئی۔ تین ایکسی ویٹر اور 6ڈمپر کرائے پر حاصل کیے گئے۔ ڈی ایچ اے کے مکینوں کی امداد اور پانی کی جلد از جلد نکاسی کے لیے رینجرز اور پاک فوج کے اہل کاروں نے کارروائی کی۔ کراچی میں جہاں اوسطاً9سے 10دنوں میں پانی کی نکاسی ہوئی ڈی ایچ اے میں وہی کام ایک سے چار روز کے اندر کیا گیا۔ متاثرہ مکینوں کے لیے سی بی سی نے 10ریلیف کیمپ بنائے اور ریسکیو آپریشن کے دوران متاثرہ خاندانوں میں خوراک کے 500 پیکٹ تقسیم کیے گئے۔
علاقہ مکینوں نے دو بنیادی وجوہ کی بنا پر سی بی سے کے دفتر کے سامنے احتجاج کیا۔ پہلا مطالبہ یہ تھا کہ بارش کا جمع ہونے والا پانی نکالا جائے۔ دوسرا مطالبہ پانی کی فراہمی کا تھا۔ مظاہرین ان مطالبات کے لیے پُرامن احتجاج کا پورا حق رکھتے تھے اور اس کے لیے قانون ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ ڈی ایچ اے کے رہنے والوں کے اس بنیادی مسئلے کو حل کرنے کے لیے سی بی سی 44پانی کی فلٹریشن اور آر و پلانٹ کی تنصیب کرچکی ہے اور ان میں اضافے کا منصوبہ ہے۔ پینے کے پانی کی فراہمی اور نکاسی کے لیے مزید پلانٹس لگائے جارہے ہیں۔ ڈی ایچ اے COGEN اور ڈی سیلینیشن پلانٹ کی تنصیب کے منصوبے پر کام جاری ہے۔
بجلی کی فراہمی کے لیے واٹر پروف زیر زمین لائنیں بچھائی جائیں گی۔ حکومت پنجاب نے جس طرح لاہور میں زیر زمین ٹینک بنائے ہیں اسی طرزپر پانی کی نکاسی کے منصوبوں پر بھی کام ہورہا ہے۔ اس پانی کو شجر کاری کے لیے استعمال کیا جائے گا جس سے ڈی ایچ اے کو پانی کی بھی بچت ہوگی۔ حالیہ بارشوں کے بعد ڈی ایچ اے، سی بی سی اور کے الیکٹرک ہنگامی حالات کے لیے حکمت عملی پر نظر ثانی کررہے ہیں۔ ڈی سیلینیشن پلانٹ کی تنصیب کا اعلان کچھ عرصہ قبل ہی کیا گیا ہے۔ سی پی این ای کی ایگزیکیٹو کمیٹی، اسٹیشن کمانڈر کراچی اور صدر سی بی سی بریگیڈیئرعابد عسکری کے ساتھ ملاقات میں ایڈمنسٹریٹر ڈی ایچ اے بریگیڈیئر عاصم نے علاقہ مکینوں کو سہولتوں کی فراہمی اور ان کی شکایات دور کرنے کے لیے دردمندی سے تجاویز سنیں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔
اس ملاقات میں کمانڈر فائیو کور لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز کی خصوصی توجہ شاملِ حال تھی۔ کور کمانڈر کراچی کے اقدامات کا اعتراف ضروری ہے کیوں کہ ان بروقت فیصلوں کی وجہ سے شہر ایک بڑی تباہی سے محفوظ رہا۔ بحریہ سوسائٹی ڈی ایچ اے کے چالیس برس بعد قائم ہوئی اس لیے خدمات کی فراہمی میں اس اعتبار سے اُسے برتری بھی حاصل ہے۔ ملک کی سرفہرست ہاؤسنگ سوسائٹی ہونے کی وجہ سے اپنا مقام برقرار رکھنے کے لیے بلا شبہ ڈی ایچ اے کو اپنے نظام میں اصلاحات لانا ہوں گی اور سب سے پہلے اپنے موجودہ مکینوں کا دل جیتنا ہوگا۔
بحریہ ٹاؤن کے مقابلے میں مکانات اور زمین کی کئی گنا زیادہ قیمتوں کا جواز بھی اسی صورت برقرار رہے گا۔ سرمایہ کاروں اور رہائش کے خواہش مندوں کی امیدوں پر پورا اترنے کی خاطر ڈی ایچ اے کے لیے یہ بڑی آزمائش ہوگی۔ بحرانوں کے بیچ اپنی اہلیت ثابت کرکے امیدوں پر پورا اُترنا ہی تو اصل امتحان ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امورکے تجزیہ کار ہیں) (ختم شد’