|

وقتِ اشاعت :   September 17 – 2020

سندھ میں بلدیاتی اداروں کی مدت ایک ایسے وقت میں پوری ہوئی جب طوفانی بارشیں اپنی شدت کے ساتھ جاری تھیں سوسالہ ریکارڈ توڑ بارشوں نے کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں تباہی و بربادی کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو برسوں یاد رکھے جائیں گے جس وقت بلدیاتی نمائندے اپنے اختتامی ایام کو گننے میں مصروف تھے اور کب نوٹیفکیشن جاری ہوگا اس کا منتظر تھے انہی دنوں صوبے کے مختلف علاقوں میں بارشوں کا قہر نازل ہورہا تھا کراچی ، حیدرآباد ، میرپورخاص ،بدین اور سانگھڑ سمیت کئی علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی تھی اور آنے والے دنوں میں مزید تیز اور موسلادھار بارشوں کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ سندھ میں بلدیاتی اداروں کی مدت ویسے تو 28 اگست کو ختم ہوگئی تھی لیکن محرم الحرام کی چھٹیوں کے باعث 31 اگست کو باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرکے چار سال تک بلدیاتی اداروں میں رہنے والے منتخب نمائندوں کو فارغ کر دیا گیا۔
سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 جب اسمبلی سے منظور ہوا تو اس وقت اپوزیشن جماعتوں خاص طور سے ایم کیو ایم نے اس کی شدید مخالفت کی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا اس کے بعد اس ایکٹ میں کئی ترامیم کی گئیں لیکن متحدہ قومی موومنٹ کی مخالفت میں کمی نہیں آئی وہ اصل میں مشرف دور میں نافذ 2001 کے ایکٹ کے تحت انتخابات کرانے کے حامی تھے جس میں میئر کو بے پناہ اختیارات تفویض کئیے گئے تھے لیکن چونکہ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی اکثریت تھی اس لئیے ایم کیو ایم کی طرف سے پیش کی جانے والی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کی جاتی تھیں۔ 2016 میں اسی ایکٹ کے تحت بلدیاتی انتخابات ہوئے تو کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم نے میدان مار لیا باقی اضلاع میں پیپلزپارٹی کامیاب ہوئی کراچی میں میئر کے علاوہ چھ اضلاع میں سے چار اضلاع شرقی ، غربی ، وسطی اور کورنگی میں ایم کیو ایم کے چیئرمین منتخب ہوئے جبکہ ضلع جنوبی، ضلع ملیر اور ڈسٹرکٹ کونسل کراچی سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے بلدیاتی حکومتوں کے ان چار سالہ دور میں کراچی اور حیدرآباد کے میئر اختیارات اور فنڈز کی کمی کا رونا روتے روتے اپنی مدت پوری کر گئے۔
سندھ میں چار سالہ بلدیاتی اداروں کی کارکردگی پر اگر نظر دوڑائیں تو ناکامی، نااہلی ، انتظامی غفلت اور بے اعتنائی کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا نعرہ خوش کن ضرور تھا لیکن عملی طور پر اس کے نفاذ میں سیاسی اختلافات ، کرپشن ، اقربا پروری اور مفادات کا ٹکراؤ وہ بڑے عوامل تھے جو اس نظام کے فوائد عام عوام تک پہنچانے میں رکاوٹ بنے ، کراچی میں کچرا اٹھانے اور برساتی نالوں کی صفائی کے معاملات گو کہ اتنے بڑے مسائل نہیں لیکن آئے دن ان ایشوز پر میئر کراچی کے ساتھ سندھ حکومت کی بارہ سالہ کارکردگی کی عزت کا جنازہ کئی بار دھوم سے اٹھاتے قومی میڈیا میں دکھایا گیا ایسے وقت میں سابق میئر کراچی وسیم اختر اختیارات اور فنڈز کی کمی کو جواز بنا کر پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کرتے تھے ، میئر کراچی وسیم اختر کی جماعت ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں شامل ہے دو وفاقی وزارتیں بھی ان کے پاس ہیں لیکن مجال ہے وفاقی حکومت نے کبھی کراچی کے میئر کی بے بسی اور بے اختیاری کا احساس کرتے ہوئے کے ایم سی کو کبھی براہ راست مالی مدد کی ہو حالانکہ وسیم اختر کئی مرتبہ اس کا مطالبہ کر چکے تھے یہاں تک کے گزشتہ سال جب کراچی میں کچرا اٹھانے کی مہم کراچی سے تعلق رکھنے والی وفاقی وزیر علی زیدی نے شروع کی اور مخیر حضرات سے کروڑوں روپے چندہ جمع کیا تو اس وقت بھی میئر کراچی کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ حقدار تھے پیپلزپارٹی اور ایم کیو کے درمیان جاری رسہ کشی تو کسی حد سمجھ میں آتی ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہیں لیکن ایم کیو ایم تو پی ٹی آئی کی اتحادی ہے اور مرکز میں ایم کیو ایم اس مقام پر ہے اگر وہ سرک جائے تو کوئی بعید نہیں کہ پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت زمین بوس ہوجائے لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایم کیو ایم کی آخر کیا ایسی مجبوریاں ہیں جو ہ وفاقی حکومت میں رہتے ہوئے شہری علاقوں کی ترقی و تعمیر کے لئیے وفاقی حکومت سے کچھ حاصل کرنیں میں ناکام ہوئے ہیں حالانکہ یہ ایم کیو ایم کی روایات کے برعکس ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم نے کراچی کے لئیے 162 ارب روپے کا اعلان تو ضرورکیا تھا لیکن وہ اب تک اعلان ہی رہا ہے اسی طرح ایم کیو ایم کی بھر پور مطالبے کے بعد حیدرآباد یونیورسٹی کا افتتاح وزیراعظم عمران خان نے حیدرآباد جائے بغیر وزیراعظم ہاؤس میں ہی کر دیا تھا جسے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے لیکن اب تک اس یونیورسٹی کے لئیے ایک اینٹ بھی زمین پر نہیں رکھی گئی ہے ۔ ایم کیو ایم کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کو جب بھی مطالبات کی فہرست دی جاتی تھی تو اس میں کے ایم سی کو براہ راست وفاقی حکومت کی طرف سے مالی تعاون کا مطالبہ ضرور کیا جاتا تھا لیکن یہ مطالبہ بھی بلدیاتی اداروں کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوگیا۔

 

سندھ میں بلدیاتی اداروں کی ناکامی کا ذمہ دار اپوزیشن جماعتیں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کو قرار دیتی ہیں جس میں بلدیاتی نمائندوں کوذمہ داریاں سونپیں تو گئیں لیکن اختیارات اور فنڈز کی کمی کے باعث وہ بہتر کارکردگی دکھانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں کسی زمانے میں واٹر بورڈ، کے ڈی اے، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا چیئرمین سٹی میئر ہوا کرتے تھے،یہ ادارے ان کو جواب دہ ہوتے تھے لیکن پیپلزپارٹی کا یہ موقف ہے کہ بے پناہ اختیارات کا حامل میئر اپنی پارٹی پالیسیوں کے تابع ہونے کی وجہ سے ان اداروں میں غیر ضروری حد تک سیاسی بھرتیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔

شہر کے نالوں، پارکوں،قدرتی آبی گزرگاہوں اور دیگر سرکاری زمینوں پر انکروچمنٹ ان ہی طاقت ور میئر کے دور میں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو یہ خدشہ لائق تھی کہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کم از کم کراچی اور حیدرآباد میں اپنے میئر کو لانے میں کامیاب ہوگی اس لئے 2013 کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں میئر کے اختیارات کو محدود رکھا گیا اور وہ شہری ادارے جو میئر کے ماتحت تھے انھیں محکمہ بلدیات کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اپوزیشن کی اس بات میں کسی حد تک وزن تو ہے کہ بے اختیاری اور فنڈز کی کمی کے باعث بلدیاتی ادارے عوام کو ڈلیور کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

لیکن کلی طور پر بلدیاتی اداروں کی ناکامی کے وجوہات صرف یہ نہیں ہیں بلدیاتی قوانین میں جس حد تک بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات تفویض کئے گئے تھے وہ اس حد تک بھی عوام کو ریلیف نہیں پہنچا سکے۔میئر کراچی وسیم اختر نے جب سپریم کورٹ کے سامنے یہ جواز پیش کیا تو چیف جسٹس آف پاکستان نے ان کی سخت سر زنش کرتے ہوئے کہا کہ میئر کراچی کہتے ہیں کہ میرے پاس اختیارات نہیں، لوگوں نے ان کو ووٹ دیا تھا کہ کراچی کے لیے کچھ کریں گے انھوں نے سماعت کے دوران یہ سوال کیا کہ کہاں ہے میئر کراچی؟ تو میئر وسیم اختر نشست سے کھڑے ہوگئے۔

چیف جسٹس نے انھیں کہا کہ اگر اختیارات نہیں تو گھر جاؤ، کیوں میئر بنے بیٹھے ہو۔ چیف جسٹس صاحب نے بالکل درست کہا تھا کیوں کہ جب سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے تھے تو اس ایکٹ کا سب نے مطالعہ کیا تھا اگر اس کے تحت میئر سمیت بلدیاتی نمائندوں کو مکمل اختیارات نہیں دئیے گئے تھے تو اوّل الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہیے تھا دوئم الیکشن جیتنے کے بعد عوام کو ڈلیور کرنے کے بجائے چار سال تک اختیارات اور فنڈز کی کمی کا رونا کیوں روتے رہے پہلے مہینے یا پہلے سال مستعفی ہوجاتے لیکن نہیں ہوئے اپنے عہدے کو بھرپور انجوائے کیا جب عوام کو ریلیف دینے کاوقت آتا تھا تو اپنی بے اختیاری کا راگ ا لاپتے تھے۔

سندھ میں بلدیاتی اداروں کے تحلیل ہونے سے پہلے شد و مد کے ساتھ یہ باتیں شروع ہوئیں کہ کراچی میں اب بے اختیار میئر نہیں چلے گا کراچی اس ملک کا معاشی اور صنعتی شہ رگ ہے اگر کراچی چلے گا تو ملک چلے گا اس لئیے اس شہر کو ایک ایسے منتخب میئر کی ضرورت ہے جو طاقت اور اختیارات کا سر چشمہ ہو،وہ تمام ادارے جو اس وقت محکمہ بلدیات کے پاس ہیں وہ میئر کے ماتحت ہوں یہاں تک کے کراچی پولیس کا سربراہ بھی میئر کراچی کو جوابدہ ہو لیکن یہ تمام اختیارات حاصل ہونے کے باوجود میئر کراچی صرف 38 فیصد کراچی کا میئر ہوگا۔

باقی باسٹھ فیصد کراچی میں مختلف کنٹونمنٹس، ڈی ایچ اے، ریلوے، کے پی ٹی اور دیگر وفاقی اداروں کے کنٹرول میں ہیں۔حالیہ بارشوں میں کلفٹن، ڈیفینس اور دیگر علاقے ڈوبنے کے بعد کئی دن تک پانی کی نکاسی مِمکن نہ ہو سکی تو یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ یہاں کے لوگ شہر کے باقی دیگر علاقوں سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں لیکن نکاسی آپ کا کوئی موئثر انتظام نہیں ہے جبکہ پانی ٹینکرز سے خرید کر حاصل کیا جاتا ہے یہ سوال ایک تنازعہ کی شکل اختیار کرکے احتجاج اور دھرنوں کی شکل اختیار کر گیا جس کے بعد سندھ حکومت اور محکمہ بلدیات نے اپنی مشینری استعمال کرکے ان علاقوں سے پانی کی نکاسی کو یقینی بنا یا۔ بہر کیف شہر قائد کے ان مخصوص علاقوں کے انتظام و انصرام کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے دائرہ کار میں لانے کی خواہش تو کی جا سکتی ہے لیکن عوام کی اس خواہش کی تکمیل کے لئیے سویلین حکومت اور اداروں میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اس کے متعلق کوئی اقدام اٹھا سکیں۔