بلوچستان حکومت نے بلوچستان میں پولیس نفری کی کمی کو دور کرنے کے لیے آئی جی پولیس محسن حسن بٹ کو میرٹ پر پولیس کانسٹیبلان کی بھرتی کرنے کے لیے احکامات جاری کیے تو بلوچستان کے بیروزگار نوجوانوں کی محکمہ پولیس کے لیے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے سینکڑوں خالی پولیس کانسٹیبلان کی پوسٹوں پر ہزاروں بیروزگاروں نے اپلائی کیا اور اس امید سے بھوکے پیاسے علی الصبح سے لیکر رات کی تاریکی تک پولیس بھرتی کے گراؤنڈوں میں پہنچے کہ بلوچستان کی عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔21ویں صدی کا دور ہے انڑنیٹ کا دور ہے۔
ترقی یافتہ ممالک نیوزی لینڈ نے وائی فائی طریقے سے بغیر تاروں کے بجلی بنا لی ہے لیکن پاکستان میں محکمہ پولیس میں بھرتی کا انگریزوں کا دو سو صدی پرانا نظام چلا آرہا ہے دور جدید کے تضاضوں کے مطابق چھاتی قد کی ناپ کی شرط اور دوڑ کا ڈرامہ رچانے کے بجائے دور جدید کے بھرتی کا طریقہ اپنایا جائے۔ میڈیکل آفیسر امیدوار کو تندرستی سرٹیفکٹ دے، اس دوڑ کے بلیک میلنگ کرپٹ عمل میں پڑھے لکھے قابل نوجوان بھرتی سے رہ جاتے ہیں۔وزراء،اراکین اسمبلی پولیس آفیسروں کے کم تعلیم اور سفارشی افراد محکمہ پولیس میں بھرتی ہوکر پولیس کے نظام کو کرپشن بد عنوانی کی طرف راغب کرتے ہیں۔
پولیس بھرتی میں قد چھاتی میں امیدوار پاس ہونے کے لیے سفارش اور کرپشن کا سراہا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں نصیرآباد ڈویژن میں 20ہزار سے لیکر45ہزار روپے کی بازگشت رہی ہے اگر فرض کریں کسی امیدوار کا قد یا چھاتی ایک سوت یا آدھا انچ کم پڑجائے کیا وہ بندوق چلا نہیں سکے گا یا ملزم کو گرفتار نہیں کر سکے گا اس پرانے بھرتی طریقہ کار میں قابل ہوشیار فرض شناس امیدوار رہ جاتے ہیں۔دوڑ لگوانے کی بجائے محکمہ صحت کا میڈیکل آفیسر تندرستی سرٹیفکٹ دے اگر وہ معذور ہے اندھا ناکارہ ہے وہ میڈیکل رپورٹ میں ظاہر ہو جائے گا اس میں یہ فائدہ ہوگا پولیس کو پڑھے لکھے محنتی فرض شناس محافظ مل جائیں گے۔
اب آپ کو نصیرآباد ڈویژن کی پولیس بھرتیوں کی دوڑ کا آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہیں 11سمتبر کو ڈی آئی جی نصیرآباد چیئرمین بھرتی کمیٹی شہاب عظیم لہڑی کمیٹی ممبران ایس ایس پی نصیرآباد عبدالحئی عامر بلوچ ایس ایس پی جعفرآباد افتخاراحمد ڈی ایس پی ڈیرہ اللہ یار کی نگرانی میں فٹ بال اور کرکٹ اسٹیڈیم ڈیرہ مراد جمالی میں چھاتی،قد،ناپ اور دوڑ کا عمل شدید گرمی میں شروع کردیاگیا تین سو سے زائد خالی آسامیوں پر بارہ ہزار سے زائد امیدواروں نے کا غذات جمع کیئے،فی امیدوار سے 150روپے درخواست جمع کرنے کی فیس لی گئی۔
مجموعی طور 18لاکھ روپے سے زائد رقم جمع ہوئی تاکہ آنے والے امیدواروں کے بیٹھنے کے لیے سایہ پینے کے لیے ٹھنڈا پانی مہیا کیا جا سکے۔ جمع ہونے والے بارہ لاکھ روپے کے باوجود ریجن نصیرآباد کے تمام اضلاع کے لیے امیدوار اور ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکار میدان کربلا کی طرح پانی پانی کر رہے تھے۔ ایک ٹینٹ لگا کر 18لاکھ کو ٹھکانے لگانے کے لیے سر گرم رہے پولیس دوڑ میں سینکڑوں امیدواروں کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے،دوڑ روٹ غیر محفوظ تھا، گلی،محلوں، سرکاری آفیسروں کی رہائش گاہوں سے چھپے امیدوار نکل کر دوڑ میں شامل ہو کر حقداروں کی حق تلفی کر رہے تھے۔
ستم ظرفی،ظلم کی انتہا ایمبولینس میں بھی دوڑ کے امیدوار سملنگ کرتی رہی،اس عمل سے بھرتی کمیٹی بے خبر تھی لیکن محکمہ پولیس میں شامل کالی بھیڑوں کے روپ میں موجود کرپٹ عناصر نے شریف النفس ڈی آئی جی شہاب عظیم لہڑی کی میرٹ کی پالیسی پر پانی پھیر دیا۔ پورے بلوچستان میں بھرتی کے عمل کو داغدار بنا دیا گیا، جعفرآباد کی دوڑ کے روز ڈی آئی جی شہاب عظیم لہڑی ممبر ایس ایس پی عبدالحئی عامر بلوچ ایس ڈی پی او کے ہمراہ راقم الحروف موجود تھا۔ 3.45پی ایم کو دوڑ گروپ پہنچا میں نے گنتی کی تو 27امیدواروں نے دوڑ پاس کیا ڈی آئی جی صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا مستوئی بتاؤ کتنے کامیاب ہوئے۔
میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا آپ اپنے اسٹاف سے معلوم کریں۔ انچارچ طارق مری آئے بتایا سر 50کامیاب ہوئے ہیں ہم حیران ہو گئے، جب مووی کی ویڈیو چیک کی تو اس میں بھی 27 امیدوار کامیابی کی لکیر عبور کرتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔ ڈی آئی جی صاحب غصہ میں ضرور آئے لیکن بد کردار بد دیانت اسٹاف میں کسی کو بھی معطل تک نہیں کیا۔ہم صحافی حیران رہ گئے ایک دوڑ میں اتنی بے ضابطگیاں، باقی بھرتی کے عمل میں ان کے اسٹاف نے کیا گل کھلائے ہونگے حتیٰ کہ طارق مری نذیر سامت ڈی آئی جی کا پی آر او ممتاز پندرانی بھرتی کمیٹی کے ممبر بھی نہیں تھے تو کس حیثیت سے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہے تھے۔
آئی جی بلوچستان کی طرف سے نامزد بھرتی کمیٹی بے اختیار نظر آرہی تھی پولیس دوڑ میں بے ضابطگیوں کے خلاف دو مرتبہ امیدواروں نے ڈیرہ مراد جمالی میں قومی شاہراہ کو بلاک کیا،پولیس کی جانب سے میرٹ کے ستائے بیروزگاروں کے ساتھ انصاف کرنے کے بجائے پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کرکے گرفتاریاں کیں، سوشل میڈیا اور میڈیا پر پولیس دوڑ کی بے ضابطگیوں کی خبریں زینت بنی رہیں۔سیاسی سماجی شخصیات کی جانب سے آواز بلند کی گئی۔ نصیرآباد کی پولیس دوڑ میں ایک لنگڑا امیدوار بھی کامیاب ہوگیا،پولیس آفیسروں کے بھائی بیٹے رشتہ دار بغیر دوڑ کے کامیاب ہو گئے۔
آمدہ اطلاعات کے مطابق آئی جی بلوچستان محسن حسن بٹ نے ڈی آئی جیز سے ویڈیو لنک پر جواب طلب کیا لیکن اس کے باوجود خاص کر نصیرآباد ڈویژن پولیس بھرتیوں میں آئی جی پولیس بلوچستان کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ دوڑ کے دوران بے ہوش ہونے والے بے روزگاروں کی ویڈیو دیکھ کر نوٹس لیتے ہوئے بھرتی کمیٹی کو کالعدم کرتے ہوئے دیگر ڈویژن پر مشتمل ٹیم تشکیل دیتے ہوئے میرٹ کا بول بالا کرتے اگر آئی جی پولیس بلوچستان کو میرٹ کی تقدس کے لیے اپنی سیٹ کو قربان کرنا پڑتا تو بھی پیچھے نہ ہٹتے۔
جس طرح سابق ڈی آئی جی نصیرآباد منیراحمد ضیاء راو جوبلوچستان میں محکمہ پولیس میں میرٹ کے بے تاب بادشاہ تسلیم کیئے جاتے ہیں جنہوں نے وزراء اراکین کو میرٹ کو داغدار بنانے سے دور کررکھا۔آئی جی پولیس بلوچستان محسن حسن بٹ بھی بے تاب بادشاہ بن جاتے،کئی بیروزگاروں کی ماؤں بہنوں،بیویوں،بوڑھے والدین کی دعاؤں کے حقدار بن جاتے تو بلوچستان پولیس زندہ باد سے مزید زندہ باد ہو جاتی۔