|

وقتِ اشاعت :   September 18 – 2020

تربت: سرگرم سماجی کارکن، آرٹسٹ اور دزگہار میگزین کے ایڈیٹر شاہینہ شاہین بلوچ کے قتل، قاتلوں کی دو ہفتہ گزرنے کے باوجود عدم گرفتاری اور پولیس کی طرف سے اب تک کوئی پیش رفت نہ ہونے کے خلاف جسٹس فار شاہینہ شاہین کمیٹی کے زیر اہتمام تربت سول سوسائٹی اور ایچ آر سی پی کے تعاؤن سے ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کی حمایت آل پارٹیز کیچ، تحریک انصاف، کے سی ایس سمیت سیاسی و مذہبی جماعتوں نے کررکھی تھی۔

ریلی میں ہزاروں مرد و خواتین اور بچے شامل تھے جنہوں نے پلے کارڈ اور احتجاجی نعروں پر مبنی بینرز اٹھائے قاتلوں کی گرفتاری اور انصاف رسائی کے لیے شدید نعرہ بازی کی۔ ریلی کا آغاز پبلک لائبریری لاء کالج سے کیا گیا جو کالج روڈ سے ہوتا ہوا تھرمامیٹر چوک اور یہاں سے شہید فدا چوک پہنچا۔فدا شہید چوک پر جلسہ منعقد کیا گیا جہاں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کے ریجنل کوآرڈی نیٹر پروفیسر غنی پرواز نے کہا کہ شاہینہ بلوچ کا قتل عام بات نہیں۔

بلکہ خواتین امپاورمنٹ کے لیے کوشاں ایک سوچ کا قتل ہے جس کے پیچیدہ محرکات ہیں۔انہوں نے پولیس کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شاہینہ کو قتل ہوئے 13 روز گزر گئے ہیں لیکن پولیس کیس کے معاملے میں کوئی پیش رفت دکھانے میں کامیاب نہیں ہوئی، پولیس اور انتظامیہ کی سردمہری سے ان کا کردار مشکوک اور جانبدار لگتا ہے۔

اگر پولیس قاتلوں کی پشت پناہی کا الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتی تو جلد از جلد نامزد ملزمان کو گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لائے تاکہ شاہینہ شاہین کی فیملی کو انصاف مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ شاہینہ شاہین کا قتل ہر حوالے سے قابلِ مذمت ہے اس کی آڈ میں سماج کو عورتوں کی ترقی اور آگے بڑھنے کے معاملے میں پسماندہ رکھنے کی سوچ کارفرما ہے کیوں کہ شاہین شاہین کا مشن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں بلکہ عیاں ہے۔

وہ ایک بہادر اور جری عورت بن کر سماج کی پسماندگی کے خلاف لڑ رہی تھی اور پسماندہ ذہنیت کے حامل عناصر روشن خیالی اور عورتوں کی ترقی سے خائف تھے اس لیے ایک روشن چراغ کو بجھا کر سماج کو برابری کی بجائے تنزلی کی جانب لیجانے کی مذموم کوشش کی۔ آل پارٹیز کیچ کے نمائندہ خان محمد جان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آل پارٹیز شاہینہ کر قتل کی شدید مذمت کرتی اور ان کے خاندان کو انصاف فراہم کرنے کے لیے ہر پلیٹ فارم پر ان کے ساتھ ہے۔ صوبہ میں نااہل حکومت کی وجہ سے بلوچستان کے حالات میں بہتری آنے کے بجائے روز بروز ابتری آرہی ہے۔

ضلعی انتظامیہ کی نااہلی کے سبب تین مہینوں کے دوران ضلع کیچ میں تین خواتین کا قتل کیا گیا جو افسوس کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے۔پولیس آپ ے فرائض کی ادائیگی میں مکمل ناکام بن چکی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا جان و مال غیر محفوظ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہینہ کا قتل علم و فن اور آرٹ کا قتل ہے، ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ تمام سرکاری کوارٹر کا ڈیٹا لے کر غیر سرکاری رہائش پذیر لوگوں کو نکال دے۔

جسٹس فار شاہینہ شاہین کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر اور شہید شاہینہ کی چھوٹی بہن معصومہ رفیق نے کہا کہ پولیس کی نااہلی کے سبب شاہینہ شاہین کا کیس الجھتا جارہا ہے حالانکہ قاتل ایف آئی آر میں نامزد ہے اوروہ خود ہسپتال میں لاش چھوڈ کر پولیس کی موجودگی میں فرار ہوگیا اگر پولیس چاہتی تو اسے ہسپتال میں یا ہسپتال کے فورا بعد گرفتار کرسکتی تھی لیکن ایسا کرنے کے بجائے پولیس نے ملزم کو فرار کا موقع دیا اوراب تک اسے گرفتار کرنے کے بجائے بہانہ ڈھونڈ رہی ہے۔

ہمیں ڈی پی او اور پولیس پر اب کوئی اعتماد اور بھروسہ نہیں ہے ملزمان کو گرفتار کرنیکے بجائے پولیس ان کی پشت پناہی کررہی ہے۔ اگر یہ سچ نہیں تو ملزم کو پولیس کی موجودگی میں ہسپتال سے کیوں فرار ہونے دیا گیا اور اس کے بعد آج تک ان کی گرفتاری کے لیے کہیں پہ چھاپہ نہیں لگایا۔ جب ہم نے ڈی پی او کے پس جا کر ان سے اپ ڈیٹ لینے کی کی کوشش کی تو ہمیں کہا کہ وہ کوئی چڑیا نہیں کہ انہیں یوں گرفتار کیا جاسکے بلکہ ڈی پی او نے کہا کہ وہ بااثر شخص ہیں۔ اب ڈی پی او ایک ملزم کو بااثر شخص سمجھ رہا ہے تو اسے گرفتار کیا کرسکتی ہے۔

بی ایس او پجار کے زونل صدر نوید تاج اور بی ایس او کے زونل صدر کریم شمبے نے کہا کہ ایک سازش کے تحت بلوچ عورتوں کو قتل کر کے بلوچستان کی آواز دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔تین مہینوں کے دوران ملک ناز، کلثوم اور اب شاہینہ شاہین کو شہید کیا گیا اگر ملک ناز ہمت اور بہادری کے ساتھ اپنی جان پر کھیل کر قاتل کو نہ پکڑتی تو شاہینہ اور کلثوم کی طرح ان کے قاتل بھی آذاد ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ بی ایس او بلوچ کشی کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاتی رہے گی شاہینہ کو انصاف فراہم ہونے تک ہم ان کے ساتھ ہیں اگر شٹر ڈاؤن، بھوک ہڑتال اور مذید احتجاج کی ضرورت پڑی تو ہم آگے ہوں گے۔ جلسہ سے جسٹس فار شاہینہ شاہین کمیٹی کے آرگنائزر سید گلزار دوست نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے انصاف کے لیے پانچ دن بھوک ہڑتال کیا یہاں تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں یکجہتی کے لیے آئیں لیکن انتظامیہ اور پولیس نے کوئی رابطہ نہیں کیا اس سے انتظامیہ اور پولیس کی اس کیس سے عدم دل چسپی ظاہر ہوتی ہے، پولیس نے دو ہفتہ گزرنے کے بعد بھی ہمیں کیس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شاہینہ کو ایک سوچیں سمجھی منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا جس کا مقصد ایک سوچ اور آواز کو ختم کرنا رھا۔جلسہ سے شہید شاہینہ شاہین کی بہن زھرہ رفیق اور ان کے ماموں امجد رحیم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر شاہینہ کے قاتل گرفتار نہیں کیے گئے تو ہم تربت میں احتجاج کے بعد کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد جاکر احتجاج کریں گے مگر خاموش نہیں رہیں گے۔ اگر ہمیں انصاف نہیں دیا گیا تو انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ تک رسائی کی کوشش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ قتل سے پہلے شاہینہ پر کئی ہفتوں تک زہنی اور جسمانی تشدد کیا گیا انہیں شادی کے بعد ان کے شوہر نے ایک سرکاری کوارٹر میں حبس بیجا میں رکھا اور گھر سے باہر نکلنے تک نہیں دیا پھر شاہینہ کو قتل کردیا۔انہوں نے کہا کہ سب سے افسوس ناک بات ہم پر مسلط شدہ نمائندوں کی ہے جنہوں نے نا قاتلوں کی گرفتاری کے لیے پولیس کو دباؤ دیا اور نا ہمارے کیمپ آکر یکجہتی کی۔

مسلط شدہ سلیکڈڈ نمائندہ کو اپنی نوکری کا فکر لاحق ہے کہ اگر وہ اس قتل کے خلاف آواز آٹھائیں تو ان کی نوکری خطرے میں نہ پڑ جائے۔ انہوں نے کہا ایسے لوگوں کو عوام کی نمائندگی کا کوئی حق حاصل نہیں جو عوام کے مسائل سے سروکار نہیں رکھتے۔