|

وقتِ اشاعت :   September 22 – 2020

مملکت خدا داد میں وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی کا سلسلہ قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہوا اور بڑھتے بڑھتے سانحہ مشرقی پاکستان کا مؤجب بن گیا اور 1971 میں ملک دولخت ہوگیا لیکن اس کے بعد بھی چھوٹے صوبوں کے متعلق وفاق کی جارحانہ پالیسیوں میں کمی نہیں آئی۔ خدا خدا کر کے 1973 کا دستور اتفاق رائے سے منظور ہوگیا اور چھوٹے صوبوں کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ دس سال بعد آئین میں موجود کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرکے صوبوں کو خود مختاری دی جائے گی لیکن 1977 میں جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔

اور ملک میں مار شل لاء نافذ کرکے 1978 میں ایک منتخب جمہوری وزیراعظم کو ایک جھوٹے کیس میں تختہ دار پر لٹکا دیا۔ آمریت کے یہ مہیب سائے ملک میں دس سال بعد اس وقت چھٹنا شروع ہوئے جب ایک ہوائی جہاز کے حادثے میں جنرل ضیاالحق جاں بحق ہوئے۔ ضیا الحق نے اپنی آمریت کو طول دینے اور قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے بے رحمانہ طریقے سے ترامیم کرکے 1973 کے آئین کے جمہوری اور پارلیمانی چہرے کو مسخ کرکے رکھ دیا تھا۔ بعد میں آنے والی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی کنٹرولڈ جمہوری حکومتیں ضیاء آمر کی طرف سے آئین میں کی گئیں ترامیم کی زد میں آتی گئیں۔

اکتوبر 1999 میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے غیر آئینی طریقے سے نواز شریف کو ہٹا کر اقتدار پر خود قبضہ کر لیا پرویز مشرف کے دس سالہ جبر کے دور میں چھوٹے صوبوں اور وفاق کے درمیان دوریوں کی خلیج وسیع ہوتی گئی۔ بلوچستان میں ایک اور انسرجینسی کی صورتحال پیدا ہوگئی،26 اگست 2006 کو نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد حالات سنگین شکل اختیار کر گئے،ایک طرف ملکی سیاسی صورتحال ابتر شکل اختیار کرتی جارہی تھی تو دوسری طرف غیر جمہوری قوتوں کے ڈسے ہوئے دو سیاسی حریف پیپلزپارٹی اور ن لیگ قریب آتے جارہے تھے۔

شہید بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور مئی 2006 کو دونوں جماعتوں نے ایک تاریخی دستاویز پر دستخط کیے جسے میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا۔ میثاق جمہوریت میں جہاں ایک طرف مشرف حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی آئینی ترامیم، سیاسی نظام میں فوج کی حیثیت، نیشنل سکیورٹی کونسل، احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں نکات شامل تھے، وہیں آئین میں سے کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرکے صوبوں کو خودمختاری دینے کے عزم اظہار کیا گیا تھا۔ 1973 کے آئین کی منظوری کے 36 سال بعد ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے پر متفق ہوئیں۔

2007 کے انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے پر پیپلزپارٹی کو مرکز میں حکومت مل گئی، ابتدا میں ن لیگ اتحادی بن کر مرکزی حکومت میں شامل ہوئی لیکن جلد ہی اختلافات کے باعث وفاقی حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے اپوزیشن کے ساتھ مل گئی لیکن اس کے باوجود دونوں جماعتیں میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کے حوالے سے کسی حد تک سنجیدہ تھیں۔ جس کا نتیجہ 19 اپریل 2010 میں بحث و مباحثہ کے بعد پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کی صورت میں نظر آیا۔

یہ ایک تاریخ ساز لمحہ تھا ملکی پارلیمانی جمہوری نظام کی تاریخ میں 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد یہ دوسری بڑی کامیابی تھی جس کے ذریعے آئین کی 102 شقوں میں رد و بدل کر کے انھیں تبدیل کیا گیا۔ اس آئینی ترمیم کے تحت


ئ*صدر مملکت کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار بھی صدر سے لے لیا گیا۔
*ہنگامی صورتِ حال کے نفاذ کا اختیار صدر سے لے کر صوبائی اسمبلیوں کو دے دیا گیا۔
*صوبائی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے آئین کے کئی آرٹیکلز میں رد و بدل کیا گیا۔
*صوبوں اور وفاق کے درمیان موجود کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کر کے مرکز کے دائرہ کار میں آنے والے کئی قانونی اختیارات کو صوبوں کو منتقل کیا گیا۔
*اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمان کا کردار بھی شامل کیا گیا۔
*صوبوں کو فوجداری اور تعزیرات کے قوانین میں ترمیم کا اختیار دیا گیا۔
*پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم لازمی اور اس کی مفت فراہمی کی ذمہ داری ریاست پر عائد کی گئی۔
*فوجی سربراہان کی تقرری میں وزیرِ اعظم کی مشاورت ضروری قرار دی گئی۔
*وزیرِ اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے تیسری مرتبہ منتخب ہونے کی پابندی کا خاتمہ کیا گیا۔
*یہ اصول طے کیا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ آخری این ایف سی ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکے گا۔

*اس کے علاوہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق دور کی کئی سیاہ ترامیم کو لگ بھگ ختم کردیا گیا۔ جس میں 1973 کے دستور میں 90 سے زائد آرٹیکلز کا حلیہ بگاڑ دیا گیا تھا جبکہ ایک اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں کی گئی 17ویں آئینی ترمیم کے تحت ہونے والی بہت سی تبدیلیوں کو ختم کر دیا گیا۔
مختصر یہ کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے 1973 کے آئین پر مسلط کردہ صدارتی روح کو محبوس کر کے موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک پارلیمانی جمہوری روح ملکی آئین میں ڈال دیا گیا۔ پھر کیا تھا غیر جمہوری قوتوں نے اس آئینی ترمیم کو اپنے مفادات سے متصادم قرار دے کر اس کے خلاف نئی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا آغاز کردیا جو تاحال جاری ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کسی حد تک اس آئینی ترامیم کے خالق ہیں۔

اس لیے ان کے دور حکومت میں اس کے خاتمے کے مطالبات شدت سے سامنے نہیں آئے لیکن 2018 میں الیکشن کے نام پر سلیکشن کرواکر پی ٹی آئی کو اتنی نشستوں سے کامیاب کروایا گیا جس سے وہ حکومت بناتے وقت ان قوتوں کا محتاج بنی رہی اور وہی ہوا حکومت بنانے کے لئے پی ٹی آئی کو کچھ سیاسی جماعتوں کی حمایت درکار تھی جس کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے قربت رکھنے والی ق لیگ اور ایم کیو ایم پی ٹی آئی کو مرکزی حکومت بنانے کے لئے کاندھا دینے کو تیار ہوگئیں اور رہی بات آزاد اراکین قومی اسمبلی کی، جیتنے سے قبل ہی انھیں بتادیا گیا تھا کہ جیتنے کے بعد کیا کرنا ہے۔

اس لئے وہ کوئی غیر متوقع فیصلہ کرنے سے قاصر تھے۔ عمران خان جب وزیراعظم بنے تو ان کی طرف سے اپنے گزشتہ اقدامات، پالیسیوں، بیانات پر یوٹرن لینے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ غیر جمہوری قوتوں نے عمران خان کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے وزیراعظم بنایا ہے جب سے پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت بنی ہے، وفاقی وزراء اور خود وزیر اعظم بھی ایک تسلسل کے ساتھ اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف نہ صرف بات کر رہے ہیں بلکہ اس آئینی ترمیم کی کچھ شقوں کو آئین سے نکالنے کے عز م کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

کسی بھی شق کو آئین سے نکالنے کے لیے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے جو اس وقت پی ٹی آئی کے پاس نہیں ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پھر کسی غیر آئینی اقدام یا بندوق کے زور پر اپنے مفادات سے متصادم شقوں کو آئین سے نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے جواب میں اپوزیشن جماعتیں خاص طور پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت اٹھارویں آئینی ترمیم کو رول بیک نہیں ہونے دیں گے، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ یا اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کر کے اختیارات وفاق کو منتقل کر کے معاملات 2010 سے پہلے کی طرح چلائے جا سکتے ہیں۔

تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی سمیت سندھی اور بلوچ قوم پرست جماعتوں نے بھی اس اقدام کو آئین شکنی سے تعبیر کرتے ہوئے اسے وفاق اور اکائیوں کے درمیان ایک خونی تصادم کرانے کی ساز ش قرار دیا ہے۔