|

وقتِ اشاعت :   September 26 – 2020

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء سابق ممبرسنٹرل کمیٹی میررؤف مینگل کے زیرصدارت بلوچستان کے تہذیب وتمدن علم ثقافت ادبی سیاسی سماجی مدائل کے بابت نشست کااہتمام ہواجس میں بلوچستان کے عظیم قومی انقلابی گلوگارشاعروادیب پروفیسراستادعظیم جان بلوچ بلوچستان کے معروف آرٹسٹ پروفیسراکرم دوست بلوچ اسکالرقلم کاریارجان بادینی۔

بی این پی کے سنٹرل کمیٹی کے ممبرچئیرمین جاویدبلوچ چیئرمین واحدبلوچ حاجی فاروق شاہوانی نثاراحمد محمدشہی مقبول احمدمحمدشہی دوست محمدبلوچ شریک نشست تھے جس میں بلوچستان کی قومی سیاست تاریخ ثقافت ادب زبان تہذیب قومی روایات سمیت ملکی وبین الاقوامی تناظرمیں بلوچ قومی یکجہتی وتحریک کے بنیادی خدوخال پرروشنی ڈالی گئی انہوں نے کہاکہ بیسویں صدی میں ون یونٹ کے بعدنیپ کی حکومت کی برطرفی سے بلوچستان میں قومی جدوجہدمیں شدت کیساتھ مزاحمت میں تیزی کارجحان بڑھ گیا اوربی ایس اونے قومی تحریک میں ہراول دستے کاروپ دھارلیاتوانقلابی گائیکی۔

میں پروفیسرعظیم جان بلوچ کی آوازاورپروفیسراکرم دوست بلوچ کی فنی خیالات نے محکومی مظلومی کی داستان کاقومی جذبات کے اظہارکاذریعہ بنایا توبی ایس اونے نوجوانوں کی اصلاح تربیت قومی حب الوطنی کے قومی ذمہ داری کے احساس کوجگایاجس سے عالمی سطح پربی ایس او کوایک عالمگیرتحریکوں میں شمارکیاجانے لگاجوقومی نظریات کوفکری لحاظ سے مستحکم شہید فدابلوچ شہیدحمیدبلوچ شہیدمجیدبلوچ سمیت نظریاتی وفکری قربانی سے لیس قومی جذبہ سے سرشارقیادت میسرہوئے۔

جواپنی جان وطن پرنچاورکردیاجسے پروفیسرعظیم جان کی گرجدارسریلی آوازاورپروفیسراکرم دوست کے عالمی توجہ طلب فن پاروں نے بی ایس اوکے تربیتی وسیاسی جدوجہدکے ذریعے خوب پذیرائی حاصل کی موجودہ حالات میں اکیسویں صدی کے جدیدسائنسی علمی جدت ٹیکنالوجی سے لبریز تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی ومعاشی عمل میں بطورحقیقی نمائندگی کی ضرورت ہے۔

جس کے زندگی کے تمام شعبوں سے منسلک قوم دوست وطن دوست ساتھیوں کویکجاکرکے نویداحساس قومیت جگانے کی اشدضرورت ہے تاکہ بلوچ قوم کودنیاکے سیاسی معاشی علمی ثقافتی لحاظ سے منسلک کیاجاسکے بلوچستان معدنی وسائل وانسانی وسائل سے مالا مال ہے لیکن سوسالہ انگریزی استعمارکے بعدریاستی استحصال نے بلوچ قوم کومسلسل قومی جدوجہدی پاداش میں انسانی بنیادی حقوق سے محروم رکھاہے۔

بی این پی کی جدوجہداس دورجدیدصدی میں سیاسی حوالے سے بڑھ کے رہی ہے اوراکیسویں صدی کی انسانی صدی بھی بلوچ قوم کیلئے جدیداستحصالی صدی ثابت ہوئی جہاں جدیدنئے طرزاستحصال سے بلوچ قومی وجودکوجھنجوڑنیکی کوشش کی گئی نواب بگٹی کی شہادت سوئی میں نہتے بگٹی وہندوبلوچوں پرحملہ قتل عام شہدغلام محمدبلوچ لالامنیربلوچ سمیت ہزاروں کی تعدادمیں تاحال جاری مسخ شدہ لاشوں اوراجتماعی قبروں توتک دشت ودیگرعلاقوں سے ملنا انسانی حقوق کی سخت ترین خلاف ورزیاں ہیں جس میں اہل قلم وعلم ودانش فکروفلسفہ دانوں تک کونہیں چھوڑاگیا۔

گل زمین حبیب جالب بلوچ نواب امان اللہ زہری شہیدبالاچ مری میرنورالدین مینگل مولابخش دشتی ڈاکٹرصالح مینگل پروفیسرصباء دشتیاری جلیل ریکی ثناء سنگت علی شیرکرد جیسے ہزاروں سیاسی آوازکوخاموش کرنے کی کوشش تاہنوزجاری ہے وقت وحالات کاتقاضا ہے کہ من العیث بلوچ قوم کی حیثیت سے تمام طبقہ فکرکوایک سیاسی وجمہوری کلچرکوفروغ دیکربلوچستان کی مجموعی قوی آواز کو بلوچ قوم کے خلاف سیاسی وثقافتی علمی معاشی یلغارسے۔

محفوظ بنانے کیلئے سیاسی سرکلزقومی وبلوچی دیوان ثقافتی وادبی سرگرمیوں کی ضرورت ہے اور ان حالات کیساتھ جدید طرز اکیڈمیوں کے ذریعے عملی سائنسی تربیتی پروگرام رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی شعور علمی ذوق قومی سوچ فکری جدوجہداورنظریاتی عمل کوفروغ دیکرقومی ترقی خوشحالی اورقومی وثقافتی سیاسی رشتوں کوقومی حقوق کی حصول کیلئے توانابنایاجاسکے۔