|

وقتِ اشاعت :   September 27 – 2020

جدید ترقی اور سول لائزڈ معاشرے میں ترقی کا آغاز پسماندہ علاقوں سے ہی کیا جاتا ہے جبکہ آئین پاکستان بھی پسماندہ اور عدم ترقی کے حامل علاقوں اور صوبوں کی ترقی کی ترجیحی بنیادوں پر وکالت کرتی ہے۔ بلوچستان ملک بلکہ یوں کہا جائے کہ خطے کا پسماندہ ترین علاقہ ہے توبے جا نہ ہوگا بلوچستان کو ستر کی دھائی سے صوبہ کا درجہ ملا ہے لیکن اب تک کسی بھی حکمران نے صوبے کی پسماندگی اور بڑا رقبہ ہونے کے باعث کوئی بھی میگا منصوبہ کا آغاز نہیں کیا یا کسی بھی حکمران نے بلوچستان کو ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کا سوچا تک نہیں ہے۔

بلوچستان ستر سالوں سے وفاق کی ناانصافیوں اور مسلسل نظر انداز پالیسیوں کا شکار رہا ہے جس کے باعث بلوچستان تمام شعبوں میں انتہائی پستی پر ہے۔ بلوچستان کاجتنا رقبہ بڑا ہے تو اتنا ہی صوبے میں پسماندگی،احساس محرومی اور بیروزگاری کا دور دورہ ہے۔ بلوچستان ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ اور عدم ترقی سے دوچار صوبہ ہے۔ بلوچستان کی پسماندگی اور بدحالی میں جہاں وفاق ذمہ دار ہے وہاں سب سے زیادہ بلوچستان کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹرز اور صوبے کے سیاسی قائدین بھی زیادہ قصوار ہیں ہمارے اراکین مرکزی حکمرانوں کی جی حضوری کرنے اور صوبے کی ترقی و خوشحالی اور اجتماعی مفادات کے بجائے۔

اپنی ذاتی ترقی وخوشحالی کے لئے سرگرم عمل ہوتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارا صوبہ پسماندگی تباہ حالی احساس محرومی کا شکار ہوتا جا رہا ہے جبکہ ہمارے اراکین اسمبلی دن دوگنی ترقی اور خوشحالی کے منازل طے کرتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ارباب اقتدار کی غفلت،نااہلی اور شتر بے مہار کرپشن کی بدولت بلوچستانی عوام ستر سالوں سے جدید ترین ترقی اور اکیسویں صدی کی جدید سہولیات سے نہ تو بہرہ مند ہو رہے ہیں اور نہ ہی ایسی سہولیات اب تک ان کا مقدر بن چکی ہیں۔ بلوچستان کی تباہ حالی کا ذمہ دار بلاشبہ ہمارے صوبے کے سیاسی و منتخب نمائندے ہیں وہاں اسٹیبلشمنٹ بھی صوبے کی بدحالی کاکچھ زیادہ ہی ذمہ دار ہے۔

بلوچستان کے اراکین اسمبلی گونگے بہرے بن چکے ہیں یا ایسے گونگے بہرے اراکین اسمبلی اور ہاں میں ہاں ملانے والے ہی ہمارے حکمرانوں کی ضرورت بن چکے ہیں تاکہ وہ صرف جی ہاں اور یس سر کا کردار ہمیشہ ادا کرتے رہیں اور اسی تنخواہ پر گزارہ کرکے اپنے مستقبل کو روشن کرنے اور اگلی باری پکی کریں۔ تاہم عوام کی ترقی اور خوشحالی ہمارے صوبے کے سیاسی قیادت کی ترجیحات میں ہے ہی نہیں۔ آج بھی بلوچستان کے اسی فیصد علاقوں میں بہترین علاج معالجہ کی سہولیات میسر نہیں، صوبے کے ہسپتال معالج کو بہتر علاج فراہمی کے بجائے صرف ریفر کرنے والے ادارے بن چکے ہیں۔

صوبے کے ہسپتالوں میں جہاں ادویات نہیں وہاں آپ کو اسپیشلسٹ اور مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹرز بھی نہیں ملیں گے۔ اب تو کرپشن اور اقربا پروری کا یہ عالم ہے کہ ادویات کی خریداری میں بھی بڑی لین دین کا سلسلہ چل رہا ہے اور کروڑوں روپے کی ادویات پرچیز کرنے کے باوجود اسپتالوں میں وہ ادویات پہنچ ہی نہیں پاتیں، اس طرح کی کروڑوں روپے کی ادویات کی گھوسٹ خریداری اسکینڈل کی بلوچستان حکومت کی جانب سے انکوائری چل رہی ہے لیکن بلوچستان ملک کا شاید وہ بدقسمت صوبہ ہے جہاں نہ تو قانون کا سکہ چلتا ہے اور نہ ہی میرٹ کا سلسلہ،تمام ادارے مفلوج ہو چکے ہیں۔

کرپشن کمیشن سفارش کلچر نے بلوچستان کو بدحال اور پسماندگی کی دلدل میں پھنسا دیا ہے صوبے کے اداروں میں میرٹ اور گورننس نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی تاہم رشوت اور مٹھی گرم کرنے سے ناممکن کام بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ بلوچستان میں قانون میرٹ اور گورننس طاقتور طبقات اور منتخب نمائندوں کی لونڈی بن چکی ہے ان کے اشاروں پر حرکت اور عمل کرکے ان امراء کی خوشنودی میں ہی مصروف عمل ہے بلکہ صوبے کے تمام تر ادارے امراء کے محافظ و مددگار بنے ہوئے ہیں۔ تاہم قانون میرٹ اور ادارے غریب عوام پر فوری حرکت کرتے ہیں۔

مرغی چور اور بکری چور کئی کئی سالوں تک جیل وزندان میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جبکہ طاقتور سیاسی شخصیات اس طرح کرکے بھی فرشتے اور صادق و امین ہوتے ہیں اور ایسے پاک دامن سیاسی اشرافیہ قانون و آئین اور اداروں کی نظر میں معزز و معتبر ہی ہوتے ہیں اور سونے پہ سہاگہ کہ یہی اراکین اسمبلی ہمارے صوبے کے عوام کی قسمت ملازمت اور مستقبل کے فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ بلوچستان میں میرٹ کا حال یہ ہے کہ کسی بھی صوبائی محکمہ میں ملازمین کی بھرتی ان اراکین اسمبلی کی جانب سے فراہم کردہ لسٹوں کے مطابق ہوتی ہے۔

اور سرکاری نوکریاں ان کے منظور نظر اور چہیتوں کو ملتے ہیں۔ بیروزگاروں کوروزگار میرٹ پر ملنا بدحال صوبے کے نوجوان کیلئے گھناؤنا خواب بن چکا ہے۔ بلوچستان کی بدحالی پسماندگی اور عوام کی اکثریت غربت کی چکی میں پسنے کی وجہ ہی یہی معزز سیاسی قیادت اور طاقتور طبقات ہی ہیں جو ہر الیکشن میں ایمپائر کے اشارے پر پارٹیاں تبدیل کرکے اقتدار اور ایوان کا حصہ بن کر بلوچستان کی ترقی کے بجائے عوام کو بدحال کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ بلوچستان میں قانون کے نرالے انداز پر قربان جاؤں کہ ملک کی نسبت سب سے زیادہ کرپشن یہاں ہوتی ہے۔

لیکن آج تک نیب کی آنکھیں ان کرپٹ افراد پر نہ کھل رہی ہیں۔ کیا نیب کا دائرہ اختیار بلوچستان تک نہیں؟ کیا بلوچستان میں ہونے والی بے مہار کرپشن پر اسٹیبلشمنٹ کی نظریں نہیں یا پھر انہیں کرپٹ بنا کر جی حضوری اور ہاں میں ہاں ملانے والا ہائبرڈ اور فرمانبردار سیاست دان بنانا مقصود ہے یا پھر بلوچستانی عوام کو ہماری سیاسی قیادت اور ادارے انسان ہی نہیں سمجھ رہے ہیں۔کیا بلوچستان کے بیچارے عوام کے کوئی حقوق ہی نہیں۔ اگر ان کو انسان سمجھا جاتا تو انہیں ملک کے حکمران اچھے ہسپتال معیاری تعلیمی ادارے صاف پینے کے پانی کی فراہمی میعاری روڈ انفراسٹیکچرزمیرٹ پر روزگار کے مواقع کی فراہمی کے ساتھ ساتھ۔

بیروزگاری کے خاتمے کیلئے روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرتے لیکن افسوس بلوچستانی عوام اس معیار پر اب تک نہیں اترے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ زندگی کی تمام تربنیادی سہولیات سے تاحال یکسر محروم ہیں۔ بلوچستان کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم جیسی سہولیات کی فراہمی کیلئے ٹھوس اقدامات تک نہیں کیئے جا رہے جس کے باعث بلوچستان تعلیمی میدان میں بہت ہی پستی پر ہے۔ جب صوبے میں تعلیم ہوگا تو لوگوں کو شعور آئے گا جب شعور ہوگا تو پھر یقینا تبدیلی کا آغاز ہوگا لیکن ایک سازش کے تحت بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو تباہ کیا گیا ہے، صوبے میں گھوسٹ تعلیمی نظام کی بدولت صوبے کی شرح تعلیم انتہائی کم سطح پر ہے۔

جوکہ نہ ہونے کے برابر ہے جس کا واضح ثبوت ہماری سیاسی قیادت کا مدارس کے سندوں اور ڈگریوں پر انتخابات میں حصہ لینا ہوتا ہے یا پھر جعلی ڈگری لیکر انتخابات میں حصہ لیا جاتا ہے بلوچستان میں اس طرح کا نظام وضع کیا گیا ہے کہ ستر سالوں سے نوے فیصد اراکین اسمبلی ہمیشہ سے ہی منتخب ہوتے آ رہے ہیں اور اب ان کے نواسے تک ہی منتخب ہو رہے ہیں۔ اس طرح کے نظام میں عام آدمی کی کامیابی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تاہم صرف چند نشستوں پر نئے لوگ منتخب ہو کر بھی کچھ تبدیلی نہیں لا سکتے وہ بھی ان طاقتور سیاسی رہنماؤں کے رنگ میں رنگنے لگ جاتے ہیں۔

بلوچستان کو اگر ترقی دلانا مقصود ہے تو صوبے کے وسائل بلوچستان پر صرف کرنے ہونگے،سی پیک کے مالک صوبہ کوسنگل روڈ تک میسر نہیں جبکہ پنجاب و دیگر صوبوں میں سی پیک سے چار رویہ روڈ موٹر وے اورینج ٹرین میٹرو سروس بن چکے ہیں جبکہ بلوچستانیوں کو سی پیک کو ترقی وخوشحالی اور گیم چینجر جیسا سلوگن سے ٹرخایا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے ساتھ روز اول سے ناانصافیوں کا تسلسل جاری وساری ہے اسی وجہ سے بلوچستانی بدحالی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بلوچستان جیسا صوبے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔

جہاں سونا،چاندی، تانبے کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود صوبہ کے عوام دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوں وہاں عوام کا نہیں ان ظالم کرپٹ سیاسی قیادت اور ناقص نظام کا ہی قصور ہے۔ بلوچستان وسیع ساحل سمندر رکھنے اورگوادر سی پورٹ ہونے کے باوجود ان ساحلی علاقوں کے عوام اب تک ان وسائل سے محروم ہوں تو یہ عوام کا نہیں بلکہ کرپشن زدہ نظام اور نااہل حکمرانوں کی نالائقی ہی کی وجہ سے ہیں۔ اب حالات کا تقاضا ہے کہ بلوچستان کو ترقی دینے کیلئے تمام اداروں کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ بلوچستان کو عزت دینا ہوگا۔

اور بلوچستان کی عزت صوبے میں ترقیاتی عمل کو تیز کرنے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے تعلیم وصحت کی سہولیات کی بلاامتیاز فراہمی سمیت روڈ انفراسٹیکچر کی بہتری کو یقینی بنانا ہوگا۔ بلوچستان کو عزت دینے سے ہی پاکستان ترقی اور خوشحالی کی تمام منازل طے کریگا اور بلوچستان کی امن وامان کی بہتری سے ہی ملکی امن وامان اور سلامتی بھی بہتر ہوگا بلوچستان کو اب ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کیلئے صوبے میں کرپشن کرنے والوں کا خاتمہ کرنا ہوگا کرپٹ اہلکاروں کیلئے پسند ناپسند کے بجائے قانون کے مطابق سلوک کرنا ہوگا جب تک بلوچستان میں میرٹ ٹرانسپرسی شفافیت اور معیار نہ ہوگا۔

اس وقت تک بلوچستان اسی طرح پسماندہ اور احساس محرومی کا شکار ہوتا رہے گا۔تاہم اب وقت آگیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور وفاق کو اپنے وژن اور سوچ پر ریویو کرنا ہوگا اور بلوچستان کو اولیت دیکر ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرکے عوام کا دل جیتنا ہوگا۔ بلوچستان کی ترقی ہی پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔