اپوزیشن کی حالیہ اے پی سی کے بعد روز سوچا کچھ لکھوں لیکن کیا لکھوں کیسے لکھوں کچھ لکھا کچھ مٹا دیا اب تو اے پی سی بھی پرانی ہوگئی تو سو چا قسطوں میں لکھوں تو آج فیصلہ کیا کہ میاں محمد نواز شریف کی تقریر پر لکھوں لیکن پھر مسئلہ وہی کیا لکھوں کیسے لکھوں ایسے کسی معاملے پر جہاں قومی سطح پر کچھ بولنا یا لکھنا ہوتا تھا۔تو میری رہنمائی کوئی مہربان نے کردی ہے گو کہ میں جن افراد سے رہنمائی لیتا ہوں انکی ہر بات سے اتفاق نہیں کرتا لیکن بڑی حد تک کوشش کرتا ہوں کہ اپنی میموری میں وہ باتیں ضرور رکھوں جو مجھے ٹھیک لگیں اور ایک معاملے پر مختلف الخیال لوگوں سے الجھنا میری عادت ہے۔
کیونکہ یہ میری تحریر کو کوئی سمت فراہم کرتی ہے۔ آج عاصمہ شیرازی کا پروگرام نظر سے گزرا جہاں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے جس اعتماد سے کہا چند ہفتوں میں نتائج نظر آئینگے بلکہ وہ تو کہہ رہے تھے معاملہ لانگ مارچ سے قبل حل ہوسکتا ہے، ان جملوں کو سن کر میں ماضی میں چلا گیا یہ مارچ دو ہزارنو کی بات ہے، میں سماء ٹی وی کراچی بیورو کا رپورٹر تھا جب اس وقت کے اسائنمنٹ ایڈیٹر سید ذوالفقار گیلانی ڈائیریکٹر نیوز عامر ضیاء کے کمرے سے نکلے اور مجھے کہا جوان چلو ٹیرس پر بیٹھتے ہیں۔سولہویں منزل سے پندرویں منزل پر پہنچے کینٹین سے چائے اٹھائی اور ٹیر س پر آگئے۔
سگریٹ سلگا کر کہا دو دن بعد تم لانگ مارچ کی کوریج پر جارہے ہو، میں نے کہا جی اچھا۔ انہوں نے کہا کہ مینجمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک ٹیم کراچی سے چلے گی اور جہاں تک لانگ مارچ جائیگا وہاں تک جائیگی اور اس کام کیلئے میں نے تمہارا نام تجویز کیا ہے اور مینجمنٹ نے منظوری دیدی ہے۔کل فنانس ڈپارٹمنٹ سے فنڈز تمہیں مل جائینگے اپنی ٹیم بناؤ اور مجھے رپورٹ کرو وکلاء بحالی تحریک کا قافلہ جب کراچی سے چلا تو کراچی تا لاہور کے سفر میں مجھے ایک بات کا اندازہ ہوگیا کہ اس تحریک میں کوئی دم خم نہیں ہے،دو سال سے جاری یہ تحریک جو بھی کرلے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے اقدام کو ختم کرنا اس تحریک کے بس میں نہیں ہے۔
اسکی بہت سی وجوہات تھیں۔جب ہمارا قافلہ لاہور میں داخل ہوا تو صبح کے چار بج رہے تھے شہر کو سیل کیا جارہا تھا ہم لاہور میں داخل ہو چکے تھے، اسائنمنٹ ڈیسک کے حکم پر صبح آٹھ بجے ہمیں ماڈل ٹاؤن میں نواز شریف کی رہائشگا ہ پر موجود ہونا تھا، صرف چار گھنٹے گاڑی میں سونے کو ملے اور صبح کی پہلی لائیو ہٹ آٹھ کے بلیٹن میں لائنڈ اپ تھی میں نے کراچی سے لیکر لاہور تک کی صورتحال پر رپورٹنگ کی اور بتا دیا کہ جو صورتحال اور انتظامات میں دیکھ رہا ہوں اسکے مطابق تاحال لاہور کی عوام بھی سکھر اور ملتان کی طرز پر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جب میں ٹی وی پر فر فر بول رہا تھا اس وقت دو نگاہیں مجھے گھور رہیں۔
تھیں یہ کوئی اور نہیں خواجہ سعد رفیق اور محترمہ تہمینہ دولتانہ تھیں۔ خواجہ سعد رفیق نے تیکھے انداز میں پوچھا کتھوں آیا ہے، میں نے قومی زبان اردو میں کہا بلوچستان سے آیا ہوں، اسلئی تینوں نئی پتہ محترمہ تہمینہ دولتانہ غصیلی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئیں۔میں نے ترکی بہ ترکی کہا اپنے اردگرد دیکھ لیں، آٹھ لوگوں کیساتھ آپکی قیادت یہاں ماڈل ٹاؤن سے ہائی کورٹ جائیگی یہاں تک کہ مرکزی سڑک تک بھی پہنچنے کے آثار مجھے نظر نہیں آتے تو پھر ان دو افراد نے وہ چیز دکھائی جہاں سے لگا کہ معاملہ ویسانہیں جیسا دِکھ رہا ہے۔
کیوں کہ جو راستہ خواجہ سعد رفیق نے مجھے دکھایا اس پر چل کر میاں نواز شریف بغیر کسی رکاوٹ کے ماڈل ٹاؤن کی مرکزی سڑک پر پہنچ سکتے تھے تو پھر جنہوں نے راستے سیل کئے،کیا وہ ملے ہوئے ہیں،ابھی دماغ میں یہ سوال گھوم ہی رہے تھے کہ چند نوجوان ماڈل ٹاؤن پہنچے اور میاں نواز شریف کو بتایا کہ وہ نکلنے کیلئے تیار رہیں،راستے سیل ہونے کی فکر نہ کریں جماعت اسلامی کے کارکنان نے شہر میں لگے کنٹینر کو ہٹانے کی ذمے داری لی ہے اور جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے جب کچھ کہہ دے تو کر گزرتی ہے۔
لیکن دوپہر تک ہمیں کوئی جوش و خروش نظر نہ آیا لیکن خواجہ سعد رفیق کے بتائے راستے پر ہم نے ایک کیمرامین ایک درخت پر اسلئے بٹھا دیا کہ اگر میاں نواز شریف گھر سے نکلے تو یہ منظر ہم بہتر انداز میں رپورٹ کرسکیں۔پھر دو پہر کے دو بجے کے لگ بھگ میاں نواز شریف کی بلیک لینڈ کروزر ماڈل ٹاؤن میں ایک زور دار اسکڈ مار کر دروازے کے سامنے موجود قنات کو چیرتے ہوئے نکل گئی اور پھر چند لمحوں میں وہ اپنے کاررواں کیساتھ ماڈل ٹاؤن کی مرکزی سڑک پر تھے اور پھر اس پر ہمیں عامر ضیاء صاحب کا وہ جھومتا اور خوشی سے بھر پور فون یاد ہے۔
جب انہوں نے کہا کہ چیف یو میڈ مائی ڈے کیونکہ گاڑی کے نکلنے کا منظر سب سے پہلے سماء کی اسکرین پر تھا اور ساتھ ہی ایگزیکٹو پروڈیوسر فرحان ملک کا فون بھی آگیا، زبردست جوان چیتے ڈٹے رہو اور گیلانی صاحب کا فون آتے ہی میں نے کہا اب یہ بتائیں میں آگے کیسے جاؤنگا،میں لاہور شہر سے واقفیت نہیں رکھتا اور پھر ہر لمحے گیلانی صاحب نے گوگل میپ سے قبل کے زمانے میں فون پر راستوں کا بتایا کہ وہ کوریج ایک یاد گار کوریج ثابت ہوئی اور پھر مجھے یاد ہے کہ لاہور شہر سے شاہدرہ پہنچتے پہنچتے رات کے بارہ بجے گئے اور شاہدرہ کے قریب خواجہ سعد رفیق ملے اور ہنس کر کہا ہاں بلوچ اب بتاؤ ٹی وی پر کیسے ہیں۔
ن لیگ کے شیر اور پھر میں حبیب اکرم اور مہر عباسی جو اس وقت مہر بخاری تھیں ہم نے رات کے تیسرے پہر یہ خبر رپورٹ کی کہ لانگ مارچ کامیاب ہوا اور ججز بحال ہوگئے۔باقی قصے کوئٹہ واپسی پر شہید باز محمد کاکڑ اور علی احمد کرد نے سنائے کہ کیسے اعتزاز کے فون پر کن کا رابطہ تھا،ایک دن تو مرحوم باز نے وہ نام بھی بتادیاکہ پہلے دن کس کی تھپکی پر افتخار محمد چوہدری پرویز مشرف کو نو کہنے کی جرات کر بیٹھے تھے اور ڈٹ گئے تھے، جب ان سب باتوں کو یاد کرتا ہوں تو اب بھی مجھے میاں نواز شریف کے حوالے سے سینیئر صحافی حامد میر کی ایک بات یاد آتی ہے کہ وہ ایمپائیر ملا کر کھیلنے کے عادی ہیں۔
تو کیا اب بھی کوئی ایمپائر میاں نواز شریف نے ملا لیا ہے، بظاہر ایسا نہیں لگتا ہے لیکن کوئی بعید بھی نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے عرب ممالک کے ساتھ حالیہ تعلقات اور میاں نواز شریف کا انہیں اے پی سی میں موضوع بحث بنا دینا کہیں تو کچھ ہے جو آج تک عیاں نہیں تھا لیکن اب ہو رہا ہے، ایسا کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے فوری طور پر علامہ طاہر اشرفی کو بھی عہدے سے نواز دیا اور یہ عہدہ اس وقت ہی کیوں ملا جب وہ ایک اہم غیر ملکی دورے سے لوٹے ہیں۔اب ایمپائر مقامی ہے یا غیر مقامی لیکن ملے ہوئے ہونے کی تصدیق نہیں لیکن تردید بھی نہیں ہے۔
اور یاد رکھیں افتخار محمد چوہدری کی پیٹھ بھی تھپکنے والا سائیڈ ایمپائر تھااور شومئی قسمت اس تحریک کا لانگ مارچ بھی دو ہزارنو کے مارچ میں ہوا تھا اور یہ اپوزیشن بھی مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کو روکنے کیلئے مارچ کرنے پر بضد ہے جو بھی ہو ایک بات یاد رکھیں چرواہا بتا رہا تھا کھیل اب بھی ویسا ہے جیسا بے نظیر اور نواز شریف کے دور میں تھا، اب کی بار میاں صاحب کی ڈیلنگ بے نظیر بھٹو کے بجائے نوا ب شاہ کے بلوچ سردار آصف زرداری کیساتھ ہے میاں صاحب نے دھواں دھار بیٹنگ کر لی ہے،آصف علی زرداری اس وقت ڈریسنگ روم میں پیڈ کرکے بیٹھے ہیں۔
اور آمدہ اطلاعات کے مطابق نواب شاہ کا بلوچ نومبر دسمبر تک محتاط بیٹنگ کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان سطور کو لکھے جانے تک یا چھپنے تک اپوزیشن کی قیادت کو نیب کے نوٹسز تیز ہوگئے ہیں ممکن ہے گرفتاریاں بھی ہوں ناقدین کا کہنا ہے کہ نیب نے مولانا کے معاملے پر یو ٹرن مولانا کی دھمکیوں کے بعد لیا ہے لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ اب مولانا کو تحقیقاتی کمیٹی بلا کر پوچھ گچھ نہیں کریگی اب براہ راست مولانا کی گرفتاری کا امکان ہے تاہم اسکا حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ انہیں کب کیسے گرفتار کرنا ہے لیکن میاں شہباز شریف کی گرفتاری پر چرواہے کی خبر ہے کہ میاں شہباز شریف اس گرفتاری سے فی الوقت مطمئن ہیں۔
نہ وہ ہونگے نہ تحریک لیڈ کرینگے اگر چند ماہ ہفتوں میں تحریک نے زور پکڑ لی تو میاں شہباز شریف کی مفاہمت کی پھر ضرورت ہوگی اور اندر رہ کر رابطوں کو خفیہ رکھنا آسان رہیگا۔اب دیکھنا ہے کہ اس بار میاں نواز شریف کو جو نظریاتی جمہوری جدوجہد کی گولی ایک بلوچ اور پٹھان نے کھلائی تھی وہ کام کرتی ہے یا پھر کسی موقع پر میاں شہباز شریف کی مفاہمت کا پین کلر کام کرجائیگا لیکن جو بھی ہو ابھی تک میں اس تحریک میں جن چند چہروں کو ڈھونڈ رہا ہوں ان میں خواجہ سعد رفیق نظر نہیں آرہے،پتہ نہیں اس بار وہ کب ملیں اور کب بتائیں کیسے میاں صاحب اسکڈ مار کر لندن سے لاہور آئینگے یا نہیں۔
بحر حال پہلی اننگز کے بعد دوسری اننگز میں میاں نواز شریف بازی پلٹ دینگے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اپنے وکلاء کے لانگ مارچ کی کوریج اور پنجاب کی سیاست پر یہ میرا تجزیہ ہے کہ ن لیگ اور نوز شریف پنجاب کے ووٹر کی پہلی چوائس ہے لیکن میاں صاحب کا ووٹر انہیں پولنگ بوتھ میں ووٹ تو ضرور دیگا لیکن اسٹیبلشمنٹ کیخلاف محاذ آرائی میں پنجاب کی عوام میاں صاحب کا کبھی ساتھ نہیں دیگی،پنجاب کی عوام ہر اقدام اٹھا سکتی ہے لیکن فوج کیخلاف میاں صاحب کے بیانیئے کو لیکر سڑکوں پر نہیں آسکتی اور جب تک پنجاب میں عوام سڑکوں پر نہیں نکلتی تو کسی فیصلہ کن تحریک کا آغاز نہیں ہوگا۔
ا سلئے میاں صاحب بھی واپسی کا اعلان عجلت میں نہیں کررہے اسلئے یہ طے ہے کہ اے پی سی میں نواز شریف کی تقریر کی طرح واپسی کے فیصلے کیلئے بھی وہ ٹائمنگ کا انتظار کرینگے کیونکہ وہ جانتے ہیں مارچ دو ہزار اکیس سے قبل مارچ کامیاب نہ ہوا توسو چھتر سو پیاز تیار ہیں۔