|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2020

کون حسین نقی؟ جب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھری عدالت میں چیخ کر یہ بات کہی تو عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چیف جسٹس کا انداز بڑا غیر مہذب اور طنزیہ تھا، یہ ممکن ہی نہیں کہ لاہور کے باشعور لوگوں جن میں وکلاء، جج صاحبان، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں، ان میں سے شاذ ہی ایسا کوئی فرد ہوگا جو حسین نقی کو نہ جانتا ہو۔ چیف جسٹس کی اس حرکت کو باشعور حلقوں اورخصوصاً صحافیوں نے سنجیدگی سے لیا، چیف صاحب کو لینے کے دینے پڑگئے۔ پاکستان کے بڑے پریس کلبوں میں حسین نقی کے اعزاز میں تقریبات منعقد ہوئیں۔

ان تقریبات کا خوشگوار پہلو یہ تھا کہ فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے تمام دھڑے اس میں شامل تھے۔ کراچی کے علاقے لیاری میں ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی۔ جہاں انھیں روایتی بلوچی پگڑی اور شال پہنائی گئی۔ یہ بلوچوں کی ان سے محبت کا اظہار تھا،اس محبت کی وجہ حسین نقی کا وہ قدم تھا جو انھوں نے 59برس قبل بلوچ طلباء کی محبت میں اٹھایا تھا۔ اس کے نتیجے میں انھیں کراچی یونیورسٹی اور کراچی دونوں چھوڑنا پڑے۔حسین نقی کی شناخت ایک حق گو صحافی کی ہے۔ ان کے صحافتی کارناموں میں ایک بڑا کارنامہ پنجابی زبان کے پہلے اخبار“سجن لاہور”کا اجراء تھا۔

ایک اردو اخبار کے مدیر نے (جو خود پنجابی تھے) ایک ملاقات میں انھیں طنزاً کہا کہ آپ اردو بولنے والے لکھنوی ہیں۔ پنجابی اخبار کا اجراء چہ معنی دارد؟ حسین نقی صاحب نے انھیں جواباً کہا کہ“چلیں یہ ٹھیک ہے لیکن آپ پنجابی ہو کر اردو اخبار شائع کرتے ہیں۔ ہم نے تو اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا”۔ پنجاب کے اردو مدیر خاموش ہو گئے۔گزشتہ دنوں ریگل چوک پر سید ضیا عباس کی سوانح عمری“زندگی: سفر در سفر”خریدنے کا موقع ملا۔ ضیا عباس 1985 میں تین ماہ کے لیے صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔ وہ 1990 میں غلام مصطفی جتوئی کی نگراں حکومت میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی رہے۔

جب حسین نقی کراچی طلبہ یونین کے صدر تھے تو وہ یونین کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ اپنی سوانح عمری“زندگی سفر در سفر”(اشاعت جون 2010، تقسیم کار ویلکم بک پورٹ کراچی) میں انھوں نے حسین نقی صاحب کے کراچی یونیورسٹی سے اخراج کا معاملہ صفحہ نمبر 23 سے 25 تک بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس سلسلے میں ہونے والے واقعات کے بقول ان کے وہ عینی شاہد نہیں تھے اور نہ ہی انھوں نے اس کا کوئی حوالہ دیا ہے۔
اس بارے میں وہ رقم طراز ہیں کہ!

“نوابزادہ لیاقت علی خان کی کابینہ کے دو وزراء اور ماہرین تعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور ڈاکٹر محمود حسین ان دنوں جامعہ کراچی ہی میں تھے۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی وائس چانسلر کے عہدے پر فائز تھے۔ پر جوش نعروں کی گونج میں ایک بھر پور اور طویل انتخابی مہم انجام پذیر ہوئی۔ این ایس ایف کے صدارتی امیدوار حسین نقی ایک سخت مقابلے کے بعد جیت سے ہمکنار ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی سرخرو کیا اور میں اپنے مد مقابل این ایس ایف کے امیدوار خواجہ اکرام کو بھاری اکثریت سے ہرا کر جنرل سیکریٹری منتخب ہو گیا۔ جامعہ کراچی کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ کوئی تھرڈ ایئر کا طالب علم جنرل سیکریٹری منتخب ہوا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور میں نے نہ صرف جامعہ کراچی بلکہ اپنے وعدے کے مطابق شہر کے تمام تعلیمی اداروں میں قیام امن کی راہیں ہموار کیں۔ یہ ایک مشکل کام تھا جو میری شبانہ روز کوششوں سے پایہ تکمیل تک پہنچا۔ میں نے چند مہینوں ہی میں اپنا انتخابی وعدہ پورا کر دکھایا۔انہیں دنوں جامعہ کراچی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے ہم سب طلبہ کے سرشرم سے جھکا دیے۔ اساتذہ ہوں یا طلبہ و طالبات، سب اس واقعہ پر برہم اور رنجیدہ تھے۔

اس واقعہ کی وجہ سے جامعہ کراچی کی بڑی بدنامی ہوئی۔ اس قبضے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ صدر یونین حسین نقی، بلوچستان کے تین لڑکے چنگیزی اورنگزیب اور طاہر حسین (طاہر حسین بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر اطلاعات مقرر ہوئے) وائس چانسلر اشتیاق حسین قریشی کے پاس ایک داخلے کے سلسلے میں گئے۔ چوں کہ کام بالکل ناجائز تھا، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے صاف منع کردیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر محمود حسین بھی موجود تھے۔ حسین نقی اور ان لڑکوں نے بے جا اصرار کیا لیکن وہ نہیں مانے۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اصول پسند اور ایماندار انسان تھے، انھوں نے کوئی ایسا کام کرنے سے انکار کردیا۔

جس کی قانون اجازت نہیں دیتا تھا۔ حسین نقی اور ان کے ساتھی طلبہ چراغ پا ہوگئے۔ ان لوگوں نے بد تمیزی کی حد کر دی۔ یہ اہانت آمیز رویہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جیسے عظیم انسان کے لیے غیر متوقع اور ناقابل برداشت تھا۔ اسی اثنا میں پروفیسر ایم ایم احمد اور دوسرے اساتذہ اور طلبہ و طالبات بھی جمع ہوگئے اور ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔جامعہ کراچی کی فضاء میں اشتعال اور سوگواری کا زہر پھیل گیا (کذا! سید ضیا ء عباس کو سوگواری بھی زہر لگی؟)۔ تمام سینیئر اساتذہ اورانتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ واقعہ میں ملوث صدر یونین سمیت تمام طلبہ کو تین سال کے لیے ریسٹی کیٹ کر دیا جائے۔ اگلے روز یہ حکم نامہ جاری ہوگیا تو حسین نقی بھنائے ہوئے وائس چانسلر کے کمرے میں جا دھمکے اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے ایک بار پھر بدکلامی کی اور کہا:۔

“بڈھے! تو یہ کرسی پر بیٹھا لڑھک رہا ہے، اپنافیصلہ واپس لے لے ورنہ تجھے ایک پل میں ٹھیک کردیں گے۔”ڈاکٹر اشتیاق حسین نے ان کے داخلے کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس لینے سے انکار کردیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے جو فیصلہ دینا تھا دے دیا، اب تم لوگوں کو جو کرنا ہے وہ کرو۔ حسین نقی اور ان کے مشتعل ساتھی وائس چانسلر کو یہ دھمکی دے کر کہ”ہم تمہیں چھوڑیں گے نہیں ”واپس پلٹ گئے۔حسین نقی نے ریسٹی کیشن کے اس فیصلے کے بعد مجھ سمیت یونین کے کسی عہدیدار سے کوئی مشورہ نہیں کیا اور ایک بار پھر ڈاکٹرصاحب پر چڑھ دوڑے تھے۔

مجھے اس کی اطلاع ملی تو مجھے سخت افسوس ہوا۔ حالانکہ حسین نقی میرا بہت اچھا دوست،ایماندار، دیانت دار اور اپنے نظریات میں قطعی مخلص نوجوان تھا۔ وہ دوسرے سرخوں کی طرح اوباش اور دوہرے معیارات پر قائم نہیں تھا۔ لیکن اس کے ساتھ مسئلہ تھا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھنے میں اکثر ناکام رہتا تھا۔ میں ان واقعات کے دوران میں وہاں موجود نہیں تھا۔ مجھے ان واقعات کے بارے میں بتایا گیا تو میں نے جاکر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے تصدیق کی اور ان کی تصدیق کے بعد طلبہ کی جنرل باڈی کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے اس صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا۔

ہم نے دونوں واقعات کے شواہد جمع کیے جن سے پتہ چلا کہ ان واقعات میں بلوچ طلبہ کا کوئی قصور نہیں تھا، ان کی سراسر ذمہ داری صدر طلبہ یونین حسین نقی پر عائد ہوتی تھی۔ وہ اگر دانش مندی کا مظاہرہ کرتے تو یہ معاملہ خوش اسلوبی سے ٹل سکتا تھا، لیکن انھوں نے طلبہ پر اپنا رعب جمانے کے لیے دادا گیری سے کام لیا۔ یہ ان کا ذاتی فعل تھا۔ انھوں نے اس حوالے سے نہ تو یونین کے دیگر عہدیداروں کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی مجھے اس بارے میں کچھ بتایا۔ انھیں کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اس طرح سے یونین اور جامعہ کراچی کے نظم و ضبط کی دھجیاں بکھیرتے۔

جنرل باڈی نے متفقہ قرار داد کے ذریعے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے ساتھ نازیبا واقعات کی شدید مذمت کی اور حسین نقی کی ریسٹی کیشن کے فیصلے کو جائز قرار دیا۔ پھرہم نے یونین کے عہدیداروں کا اجلاس منعقد کرکے طلبہ کی جنرل باڈی کے فیصلوں کی توثیق کی۔“سید ضیاء عباس کی سوانح عمری میں یہ سارے واقعات پڑھ کر ہم نے یہ حسین نقی صاحب کے گوش گزار کیے، وہ سخت حیران ہوئے۔ ہمیں کہا کہ کتاب ان تک پہنچائیں۔ ان دنوں وہ کسی کام کے سلسلے میں کراچی میں رہائش پذیر ہیں، کتاب پڑھنے کے بعد انھوں نے کہا کہ وہ اس کا تفصیلی جواب لکھیں گے جو انھوں نے بعد ازاں ہمیں عنایت کیا۔ نقی صاحب کے مطابق:۔

“مصنف اور محقق اختربلوچ غالباً پاکستان کی (موجودہ /باقی ماندہ) طالب علم تحریک کے بارے میں اپنی کسی آئندہ تصنیف کے لیے تحقیق میں منہمک ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے میرے بارے میں کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین میں میری صدارت کے دوران یونین کے جنرل سیکریٹری اور بعد میں پاکستانی سیاست کے جانے پہچانے چہرے سید ضیاء عباس کی خود نوشت“زندگی، سفر در سفر”میں شائع ہونے والے کچھ حوالہ جات کا تذکرہ کیا۔ 2010 میں شائع ہونے والی اس کتاب کے حوالے سے میں اب تک بالکل لاعلم تھا۔ نہ ہی اس سے پہلے کسی نے اس کاتذکرہ کیا۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔

اور یہ کتاب اور اس میں طالب علم تحریک اور اس میں میرے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا، میری نظر سے گزرتا تو میں بالارادہ بد دیانتی پر مبنی اس تحریر کے بارے میں 2010 میں حیات فتح یاب علی خاں اور معراج محمد خاں وغیرہ سے بھی رجوع کرتا جن کے بارے میں“زندگی”سفر در سفر”کے مصنف بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس زمانے میں طالب علم سیاست میں فتحیات علی خاں، معراج محمد خاں اور علی مختیار رضوی کا طوطی بولتا تھا۔ ان تینوں رہ نماؤں نے ا یوب آمریت کے خلاف تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ”۔جاری ہے