|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2020

کراچی: سندھ کی تقسیم کی سازش، ڈنگی اور بھنڈار جزیروں کی نیلامی، کراچی کمیٹی، سندھ کی زمینوں پر قبضہ، دریائے سندھ کے پانی پر ڈاکا، غیرسندھیوں کی آبادکاری، بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ ای سٹی، ذوالفقارآباد، سیلاب متاثرین کی مدد نہ ہونے کے خلاف عوامی تحریک کی ریگل چوک سے کراچی پریس کلب تک عوامی تحریک اور سندھیانی تحریک کے ہزاروں کارکنان کی احتجاجی ریلی۔

ریلی کی قیادت عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رسول بخش خاصخیلی، مرکزی نائب صدر حورالنسا پلیجو، مرکزی جنرل سیکریٹری نور احمد کاتیار، مرکزی سینئر نائب صدر عبدالقادر رانٹو، مرکزی نائب صدر ایڈوکیٹ سجاد احمد چانڈیو، سندھیانی تحریک کی مرکزی صدر سبھانی ڈاھری، سندھی ہاری تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر دلدار لغاری، لال جروار، عبداللہ بپڑ، ایڈوکیٹ وسند تھری، عارف جونیجو، ایڈوکیٹ ساجد حسین مہیسر، عمراہ سموں، پرویز میمن، مٹھاخان لاشاری، امتیاز جتوئی، گل حسن کیڑانو، رستم میرانی، مسعود انور پلیجو، راحیل بھٹو، ھرچند لال، مھران سندھی، سندھی مزدور تحریک کے مرکزی صدر نورمحمد ٹالپر۔

سندھی شاگرد تحریک کے مرکزی صدر پردیپ گلاب، سندھی گرلز اسٹوڈنٹ تحریک کی مرکزی صدر کائنات ڈاھری، سجاگ بار تحریک کے مرکزی آرگنائیزر علی محمد وکو اور دیگر رہنماؤں نے کی۔ ریلی میں شریک کارکنان سندھ کی تقسیم کی سازش، سندھ کے جزیروں کی نیلامی، سندھ کی زمینوں پر قبضہ، غیر ملکیوں کی نیکالی نہ کرنے اور سیلاب متاثرین کی مدد نہ کرنے کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی۔

احتجاجی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رسول بخش خاصخیلی نے کہا کہ سندھ اور ملک دشمن قوتیں سندھ کی تقسیم اور کراچی کو صوبہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان کو اجازت ملی ہوئی ہے کہ وہ ملک کی تقسیم اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف ریلیاں نکالیں، ان کے خلاف ملک سے غداری کرنے کی جرم میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کرنے کے بجائے وفاق اور سندھ سرکار ان کی ان غیرقانونی اور غیرآئینی عمل پر معاون بنی ہوئی ہے۔

انہوں نے ریلی کے ہزاروں شرکا کو خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ کراچی کمیٹی سراسر غیرآئینی اور غیر قانونی ہے، اس سندھ دشمن عمل میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت برابر کی شریک ہے۔ وفاقی سرکار آئیزلینڈ اتھارٹی جو صدارتی آرڈیننس لا کر سندھ میں نئے اسرائیل کے بنانے کا بنیاد رکھا ہے، آئیزلینڈ اتھارٹی کے فیصلوں کو کسی بھی عدالت میں چیلینج نہ کرنے کا مطلب واضح ہے کہ ریاست اندر ایک دوسری ریاست قائم کی گئی ہے۔

ڈاکٹر رسول بخش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے عوام ایسے ملک و سندھ دشمن فیصلوں کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریگی، سندھ ہزاروں سالوں سے اپنی ایک الگ پہچان رکھنے والا وطن رہا ہے قدیم زمانے میں بھی سندھ کا ایک الگ وجود تھا اور قدیم دور کی تاریخ میں ہند اور سندھ کا ذکر آیا ہوا ہے۔ تاریخ میں جو بھی بیرحمانہ ادوار آئے ہوں مگر سندھ کسی بھی صورت اپنے وجود کی قومی شناخت سے کبھی بھی غافل نہیں رہا ہے۔

مختلف ادوار میں حملے آوروں کے حملے اور قبضوں کے ادوار میں بھی سندھ نے ہمیشہ وجود کے بقا کی جنگ جاری رکھی ہے، سندھ کے آباواجداد نے سندھ کے وجود کی حفاظت کی خاطر مغلوں، ارغونوں ترخانوں اور سکندر اعظم سے لڑائیاں کیں۔ سندھ کے وجود کو کبھی انگریزوں نے ختم کرنے کی کوشش کی تو سندھ کی بیٹیوں اور بیٹوں نے شاندار جدوجہد کرکے انگریزوں کو شکست دے کر 1936 میں سندھ کی اسمبلی کا وجود رکھا۔

پاکستان کی جدوجہد کو پراثرو طاقتور کرنے کے لئے سندھ اسمبلی نے پاکستان کے لئے پہلی قرارداد پاس کی۔ پاکستان کو قیام میں لانے میں سندھ کا کلیدی اور مرکزی کردار ہے، اگر سندھ پاکستان میں شامل نہ ہوتا تو پاکستان وجود میں ہی نہیں آتا۔ سندھ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا رہنما دیا جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ سندھ کی عوام اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہے کہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کو کیسے پیٹرول سے خالی ایک ناکارہ ایمبولنس دے کر قتل کیا گیا اور پاکستان بنے کے بعد سندھ کے شہروں، ملکیتوں اور زمینوں پر کیسے قبضے کیے گئے۔

کیسے سندھ کے اداروں کو تباہ و برباد کیا گیا۔ مرکزی صدر ڈاکٹر رسول بخش نے مزید کہا کہ پاکستان بننے کے بعد محمد علی جناح کی بیماری کا فائدا اٹھاتے ہوئے پاکستان پر امریکی نواز قوتوں اور گروہوں کا قبضا کرایا گیا۔ وہ پاکستان پے قابض لوگ تاریخ کے علم سے ناواقف ہیں جنہوں نے کبھی بھی اپنے تلخ تجربوں سے نہیں سیکھا وہ ہمیشہ عالمی طاقتوں کے اشاروں پر عمل کرنے والے ہیں۔

وہ اپنے گروہی مفادوں کے بچاؤ کے لئے پاکستان میں موجود قوموں کے وجود کے انکاری ہیں جو پاکستان میں موجود قوموں کی ثقافت اور ورثے کو اپنے راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان میں موجود قوموں کی ثقافت، ورثہ، وسائل، مال ملکیت کو بچانے اور بڑھانے سے ہی ملک کو طاقتور کر سکتے ہیں۔ جب کہ پاکستان کے گذشتہ سات دہائیوں سے پشت در پشت قابض ٹولوں نے مسلسل قوموں کے وجود کو ختم کرنے کی سازش میں مصروف ہے۔

سندھ کیونکہ ہزاروں سالوں سے ایک آزاد وطن رہا ہے اس لئے سندھ میں قومی شعور دوسروں سے زیادہ ہے، سندھی قوم ان قابض گروہوں کی سازشیں سمجھتی ہے اور ان کا مقابلہ کررہی ہے اس لئے وہ قابض گروہ سندھ کی تقسیم میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں جو کراچی کمیٹی کے نام میں سندھ کو تقسیم کرنے کی ناپاک سازش کررہے ہیں، سندھ کی عوام ان کو خبردار کرنا چاہتی ہے کہ سندھ کے وجود پے وار کرنا اور پاکستان کی سالمیت سے کھیلنا بند کرو۔

سندھ کی تقسیم پاکستان کی سالمیت سے کھیلنے کے برابر ہے، سندھ کی عوام کراچی کمیٹی کی تشکیل میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو بنیادی ذمیدار سمجھتی ہے۔ ریلی کو خطاب کرتے ہوئے عوامی تحریک کی مرکزی نائب صدر حورالنسا پلیجو نے کہا کہ سندھ کی زمین ہزاروں سالوں سے سندھی قوم کی ملکیت رہی ہے اور آنے والے ہزاروں نسلوں کی امانت ہے۔ سندھ حکومت کو کوئی بھی اخلاقی تاریخی، سیاسی اور کسی بھی قسم کا قانونی اختیار نہیں ہے کہ وہ سندھی قوم کی لاکھوں ایکڑ تاریخی زمینوں کا سودا کرے۔

عوامی تحریک کے مرکزی نائب صدر ایڈوکیٹ سجاد احمد چانڈیو نے ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بحریا ٹاؤن کے بارے میں سپریم کورٹ میں سندھ حکومت کی جانب سے پیش کئے ہوئے موقف سے ثابت ہوچکا ہے کہ سندھ کی سون جیسی زمیں کیسے کوڑی کے دام نیلام کی گئی ہیں۔ سندھ کی عوام پی پی پی کے اس سندھ دشمن کردار سے اچھی طرح واقف ہے، پی پی پی سندھ کے تاریخی و قیمتی جزیرے، ساحلی علائقے، سندھ کے پہاڑ، سندھ کے کچے کے علاقے، سندھ کے شہروں کا سودا کرکے اقتدار میں رہنا چاہتی ہے۔

ایڈوکیٹ سجاد احمد چانڈیو نے مزید کہا کہ سندھ کی زمینوں کی نیلامی نہ یونانیوں، اربوں، ارغونوں، ترخانوں، مغلوں اور انگریزوں نے کیں مگر سندھ پے حکومت کرنے والے وڈیراشاہی کی نمائندگی کرنے والی پیپلز پارٹی گذشتہ بارہ سالوں میں سندھ کو نیلام کردیا ہے۔ عوامی تحریک کے مرکزی جنرل سیکریٹری نور احمد کاتیار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کے غریب کسانوں کو ایک ایکڑ زمین دینے کو بھی تیار نہیں ہے۔

سندھ کے شہروں میں حد بندیوں کے نام میں ہزاروں لوگوں کو بیگھر کیا گیا ہے اور دوسری طرف ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سندھی قوم کو دائمی طرح اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے لاکھوں ایکڑ زمین بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ ای، ذوالفقارآباد اور دوسری رہائشی اسکیموں کو دے دیا ہے۔ افغانیوں، بہاریوں، برمیوں، بنگالیوں، ہندستانیوں اور دوسری لاکھوں غیرقانونی طور پے غیر ملکیوں کو سندھ کے اوپر قابض کرنے کے لئے وفاقی اور سندھ سرکار نے شناختی کارڈ بنادیے گئے ہیں اور مزید بنانے کے اعلانات کیے ہیں۔

سندھی ھاری تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر دلدار لغاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ ہونے والی بارشوں نے قاتل ایل بی او ڈی کی وجہ سے مصنوعی سیلاب لا کر لاکھوں لوگوں کو ڈبایا اور بے گھر کیا گیا، سندھ حکومت سوائے ٹوپی ڈرامہ کرنے کے سیلاب متاثرین کے لئے کچھ نہیں کیا، ابھی بھی ہزاروں لوگ روڈ کے کنارے بے یارومددگار بیٹھے ہیں جن کے ایک طرف گھر، فصل اور مویشی سب پانی نے ختم کردئے۔

اور ان کی وفاقی حکومت اور نہ ہی سندھ حکومت نے کوئی مدد کی ہے۔ ڈاکٹر دلدار مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت ان سیلاب متاثرین کی مدد کرکے قاتل ایل بی او ڈی کے مسئلے کا مستقل طور پر حل نکالیں۔ سندھیانی تحریک کی مرکزی صدر سبھانی ڈاھری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ دھرتی ہماری ماں ہے جب تک ایک بھی سندھ کی بیٹی زندہ ہے تب تک سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش کو کسی بھی صورت میں کامیاب نہ ہونے دینگے۔

سندھ کا بچہ بچہ پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے سندھ دشمن قوتوں کے ارادوں کو خاک میں ملا دیگا۔ سندھی مزدور تحریک کے مرکزی صدر نور محمد ٹالپر نے کہا کہ بیروزگاری اور بھوک کی وجہ سے سندھ کے مزدور خوکشیاں کرنے پر مجبور ہیں، سندھی مزدوروں کو کراچی کے نجی خواہ سرکاری کارخانوں میں روزگار نہیں دیا جاتا۔ سندھی شاگرد تحریک کے مرکزی صدر پردیپ گلاب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے پر اس کے تعلیمی اداروں میں سندھی طلبا کی داخلاؤں پے غیراعلانیہ مدت تک پابندی عائد کی گئی ہے۔ سندھ کے لوگوں سے حکمران ریڈ انڈین والا سلوک ترک کریں۔