|

وقتِ اشاعت :   October 6 – 2020

سیاسی جدو جہد سے حاصل ہونے والے ملک میں سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دینے کی کوششوں کا آغاز ابتدائی ایام سے کردیا گیا تھا۔ سیاست کو عوام کے سامنے لوٹ مار، کرپشن، اقرباء پروری اور ہوس اقتدار کے طور پیش کیا جاتا رہا ہے۔ قائد اعظم محمدعلی جناح اور لیاقت علی خان کے بعداس ملک کو فلاحی ریاست کے بجائے ایک سیکیورٹی اسٹیٹ بنانے کی کوششوں کا آغاز کردیا گیا تھا جس کے لیے یہ ضروری تھا کہ سیاست اور سیاستدانوں کو عوام کے سامنے بے اعتبار اور بے توقیر بنا کر پیش کیا جائے۔ ہر دفعہ ملکی آئین کو توڑ کر مارشل لاء نافذ کرنے کے لیے عذر یہی پیش کیا جاتا تھا کہ ملک کو “سیکیورٹی خطرات” نے گھیر لیا ہے۔

اور سیاست دان ملک چلانے کے اہل نہیں ہیں۔ لہذا ملک کی حفاظت کے پیش نظر ان کرپٹ اور بے ایمان سیاستدانوں کی حکومت کو برطرف کیا گیا ہے، جلد ہی نئے انتخابات کروا کر ملک کی باگ دوڑ محفوظ ہاتھوں میں دے دیا جائے گا۔ سیکیورٹی کے نام پر تین بار ملک میں مارشل لاء لگا کر نہ صرف اجتماعی سیاسی عمل کو شدید نقصان پہنچایا گیا بلکہ طلباء تنظیموں، مزدوروں اور کسانوں کی یونین سازی پر قدغن لگا کر ان سیاسی نرسریوں کو تباہ و برباد کردیا گیا۔ تاریخ کے ان سیاہ ادوار میں آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدو جہد کرنے والے سیاستدانوں پر قہر نازل کیا جاتا رہا۔

حقیقی اور عوامی سیاست کا قلع قمع کرنے کے لیے غلیظ سیاست کو پروان چڑھایا جاتا رہا، سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کے لیے خفیہ ایجنسیوں کا استعمال بے رحمی سے کیا جاتا تھا۔ یہ ایجنسیاں بلیک میلنگ اور مراعات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے سیاسی جماعتوں کو تقسیم در تقسیم کرتے تھے۔ اقتدار کا لالچ دے کر ان جماعتوں کے اہم رہنماؤں کو کھلے عام خریدتے تھے اپنے من پسند سیاستدانوں کو ان جماعتوں میں شامل کراتے تھے جو بوقت ضرورت ان کے اشاروں پر اٹھتے اور بیٹھتے تھے ان کے ایجنڈا پر عمل نہ کرنے والے سیاستدانوں کا انجام پھانسی، شہادت اور جلاوطنی کی شکل میں دیا جاتا تھا۔

اس لئیے ملک میں مقتدر قوتیں کبھی بھی حقیقی سیاست دان نہیں رہی ہیں۔اس گندی سیاست کے نفاذ کے لئے اپنے منظور نظر سیاست دانوں کی پرورش، سیاسی جماعتوں کا قیام یا مخصوص جماعتوں کی سرپرستی اور ان کی اقتدار تک رسائی کی محرک یہی مقتدر قوتیں ہیں جو 73 سالوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ عوام پر حکمرانی کرتی آرہی ہیں۔ ان سیاہ و سفید کے مالکوں نے سویلین حکومتوں کو کبھی بھی مستحکم ہونے نہیں دیا۔ خارجہ اور داخلہ امور اپنے پاس رکھنے کے باوجود ہر اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی جو آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی اور تسلسل کے لیے شروع کیا جاتا تھا۔

اس مکروہ کھیل میں ریاستی اداروں نے ہمیشہ مقتدر قوتوں کا ساتھ دیا لیکن ہماری عدالتیں جو آئین کی صحیح معنوں میں تشریح کرنے کی ذمہ دار اور اس کی نگہبان ہیں، ہر مرتبہ مقتدر قوتوں کی آئین توڑنے کے عمل کو جائز قرار دیا اور ” نظریہ ضرورت” جیسے غاصبانہ امر کو جائز قرار دینے کی مذموم حرکت کی گئی بلکہ آئین میں ترمیم کرنے کی تاریخ میں انوکھی اجازت بھی دی ہے۔پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے سابقہ ادوار میں اس گندے کھیل اور گندی سیاست کو عروج حاصل رہا۔ تمام تر سازشوں اور ریشہ دوانیوں اور عدلیہ کے ذریعہ دو منتخب وزراء اعظم کو گھر بھیجنے کے بعد بھی یہ حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

ان ادوار میں ن لیگ کو پیپلزپارٹی کی حکومت اور پیپلزپارٹی کو نواز لیگ کی حکومت کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ نیب کے سیاہ قانون کے ذریعہ کرپشن کا ایک مضبوط بیانیہ ترتیب دیا گیا،مقتدر قوتوں نے اس بیانیہ کو پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر بھر پور استعمال کیا، اس سے نہ صرف عوام کی نظروں میں دونوں جماعتوں کے قائدین کی قدر و منزلت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ سیاست اور سیاستدانوں کے خلاف نفرت اور بد اعتمادی کو پنپنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ ن لیگ کے دور میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے مکمل مایوس ہونے کے بعد مقتدر قوتوں نے پی ٹی آئی پر دستِ شفقت رکھنے کا فیصلہ کیا۔

اور غلیظ سیاست کے ذریعہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو پی ٹی آئی میں شامل کرایا گیا۔ عمران خان کی تبدیلی والے بیانیہ کی تشہیر قومی میڈیا کے ذریعہ بڑے دھوم دھام سے کرائی گئی۔ پی ٹی آئی کو حکومت کے خلاف تحریک چلانے، دھرنا دینے اور اور ہر وہ قدم اٹھانے کی کھلی چھوٹ دی گئی جس سے ن لیگ کی حکومت کمزور ہوجائے۔دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں تاریخی دھاندلی کے ذریعہ پی ٹی آئی کی جیت کو یقینی بنایا گیا تو تبدیلی کی نعروں کے سحر میں گرفتار عوام کی بڑی تعداد اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ اب حالات پہلے سے زیادہ بہتر ہوں گے۔

ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کو جڑ سے ختم کردیا جائے گا۔ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں ملیں گی، مہنگائی کے بے قابو جن کو بوتل میں بند کردیا جائے گا لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ یہ نعرے صرف اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے استعمال کئے گئے تھے۔ مقتدر قوتوں نے اپنے ایجنڈا کی تکمیل کے لیے اپنے روایتی گندے کھیل اور گندی سیاست کے ذریعے تبدیلی سرکار کو عوام پر مسلط تو کردیا لیکن آج اس مسلط کردہ حکومت کی دوسالہ کارکردگی کا نتیجہ یہ ہے کہ ملکی معیشت کو جنرل وارڈ سے نکال کر انتہائی نگہداشت وارڈ میں ڈال دیا گیا ہے۔

ایک کروڑ نوکری دینے کے بجائے لاکھوں لوگوں کو روزگار کی نعمت سے محروم کردیا گیا ہے، مہنگاہی کے بے قابو جن کو کنٹرول کرنے کے بجائے اپنی نالائقی سے اسے مزید فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔ ان اہم معاملات سے عوام کی توجہ بٹانے کے لیے مقتدر قوتوں کے کرپشن والے بیانیہ کو پی ٹی آئی کی حکومت آج بڑی مہارت اور ڈھٹائی سے ملک دشمن اور غداری کا تڑکہ لگا کر میڈیا کے ذریعے پھیلا رہی ہے۔ کرپٹ، چور، ڈاکو، غدار اور ملک دشمن جیسے الزامات آج اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں پر لگائے جارہے ہیں نیب کو ایک طاقت ور سیاسی ہتھیار کے طور استعمال کیا جا رہا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کے احتجاجی تحریک کے لائن آف ایکشن سامنے آنے کے بعد حکومت کا رویہ بھی جارحانہ دکھائی دے رہا ہے۔ لندن میں مقیم نواز شریف کی میڈیا پر چلنے والی دو تقاریر نے مقتدر قوتوں کے عزائم کو بے نقاب کردیا تو حکومت نے پیمرا کے ذریعہ میڈیا پر نواز شریف کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کردی۔ اپوزیشن جماعتوں کے متحرک ہونے کے بعد ان کے رہنماؤں کے خلاف نیب نے ڈنڈا اٹھا لیا ہے۔ ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ نیب عدالت نے سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور پر فرد جرم عائد کردی ہے۔

مولانا فضل الرحمن سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر کی گرفتاری کے لئے نیب نے پر تولنا شروع کردئیے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کوئٹہ میں جلسہ عام سے اپنے احتجاج کے پہلے مرحلے کا آغاز کرنے جارہی ہے یوں لگ رہا ہے جیسے آنے والے دنوں میں ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی حدت موسم سرما کا استقبال کرے گی۔ اپوزیشن کے احتجاجی سیریز اور تبدیلی سرکار کی طرف سے متوقع سخت رد عمل ملک کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے والے تنکے کو کس حد تک مزید کمزور کرے گی یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان حال عوام کو اب سیاسی ہنگامہ خیزی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔

حالات کب بہتر ہوں گے یہ امیدیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ جب تک ملک میں جاری گندے کھیل اور گندی سیاست کا خاتمہ نہیں ہوگا، اقتدار کی منتقلی سویلین کے پاس نہیں ہوگی۔ سیکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے فلاحی ریاست کی طرف نئے سفر کا آغاز نہیں کیا جائے گا۔ آئین کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی سپرمیسی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ احتساب کا عمل شفاف اور بلا تفریق نہیں ہوگا اس وقت تک عوام ان مسائل کے چنگل سے آزاد نہیں ہوں گے۔