کچھ رشتے کبھی ختم نہیں ہوتے، بلکہ وقت کیساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں، روزنامہ آزادی، روزنامہ بلوچستان ایکپریس اور ہفت روزہ ایکسپریس کے خالق مرحوم ماما صدیق بلوچ میرے استادوں میں ہیں، مجھے فخر ہے میں نے ایک عظیم اور خوددار صحافی سے رپورٹنگ اور ایڈیٹنگ کے مختلف شعبے سیکھے، ان کا ایک انوکھا انداز صحافت تھا اور انکی شخصیت کا دوستانہ انداز انہیں سب میں بہت منفرد کردیتا تھا، وہ ہر موضوع پر بہت گہری اور مختلف انداز میں نظر رکھتے تھے، وہ سوالات اس طرح کرتے تھے کہ جواب دینے والے کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا تھاکہ ماما صدیق بلوچ نے ان سے کیا بات نکلوالی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ تعلیمی اور تعمیری صحافت کی ہے، صحافت کے ذریعے انتشار اور تشدد کو ہمیشہ پیچھے دھکیلا، خوشی کی بات یہ ہے کہ جو پودے وہ لگا گئے وہ وقت کیساتھ ساتھ بہت مضبوط ہوگئے ہیں، ان کے صاحبزادے عارف بلوچ، آصف بلوچ، طارق بلوچ، صادق بلوچ اور ظفربلوچ اپنے والد ماماصدیق بلوچ کے خواب کو آگے لیکربڑھ رہے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ میں آج سے روزنامہ آزادی میں کالم لکھنا شروع کررہاہوں، اور اپنے استاد کے ادارے سے رشتہ جوڑ رہاہوں۔ملکی سیاست الزامات اور انتقام سے آگے نکل چکی ہے، غداری کے مقدمے درج ہورہے ہیں۔
پہلا مقدمہ صفدر اعوان اور دوسرا نوازشریف، مریم صفدر سمیت تقریباً ن لیگ کے تمام رہنماؤں پر قائم کر دیا گیا ہے، نواز شریف بھارتی ایجنڈے پرکام کررہے ہیں، اور یہ بھی الزام عائدکیا گیا ہے کہ ان کی تقاریر کا مقصدپاکستان کو غنڈہ ریاست قرار دلوانا ہے، اب گرفتاریوں کی باری آن پہنچی ہے، ایف آئی آر میں خطرناک دفعات لگائی گئیں ہیں، معاملہ یہ بھی تو ہے کہ کس طرح ڈان لیک والے معاملے پر جب وزیراعظم ہوتے ہوئے سب کچھ سامنے ہونے کے باجود آنکھیں بندرکھیں گئیں اسکی ذمہ داری کسی پر عائد ہوگی؟ پھر جس طرح میاں نوازشریف کو بیماری کے بہانے این آراو دلوایا گیا ملک سے باہر بجھوایاگیا اسکی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ کیسے ایک مجرم کو پہلے علاج کے بہانے جیل سے نکالاگیا ہسپتال پہنچایاگیا پھر بھرپور مہم چلائی گئی۔
یہ رپورٹ تو وہ رپورٹ، کیا کیا عوام کی آنکھوں میں نہیں جھونکاگیا، ایسا ماحول بنایاگیاکہ بس پاکستان کا سب سے بڑامسئلہ صرف اور صرف میاں نواز شریف کی جان بچاناہے، یہاں سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ آخر کس نے وزیراعظم عمران خان کو بہکایا اور انہیں مجبورکیا یا انہیں دھوکا دیا کہ اگر میاں نوازشریف کونہیں بھیجا تو دو تین دن کے اندر اندر میاں نواز شریف انتقال کر جائیں گے اور الزام آپ پر آئیگا، کون تھے وہ لوگ جنہوں نے یہ سارا جال بچھایا اور نواز شریف کو لندن پہنچایا؟ کیا عمران خان اپنے اردگرد ان لوگوں کو تلاش کر سکتے ہیں؟ کون کون ملوث تھا اس سازش میں؟
یہ پاکستان کی تاریخ کا انوکھاواقعہ ہے جہاں وزیراعظم کو ایک سابق وزیراعظم جو مجرم ہے اور جیل میں سزا بھگت رہاہے جسے ناصرف علاج کی غرض سے جیل سے نکالا گیا بلکہ ایک ایسا ماحول بنایاگیا کہ وہ ملک سے فرار ہوسکے، ایک اسپیشل این آراو پیکج بنایا گیا، عمران خان کے لئے ایسا ماحول بنایا گیا کہ وہ اس میں اترتے چلے گئے، سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان ذمہ دار نہیں جو آج نوازشریف زہرافشانی کرر ہے ہیں؟ کیا عمران خان انکوائری کروائیں گے انہیں کن کن لوگوں نے دھوکا دیا اور نواز شریف کی مدد کی؟
دوسری طرف اپوزیشن کا اتحاد عوامی طاقت اور حمایت کا مظاہرہ اسی وقت کر پائے گا جب عوام کے مسائل کی بات ہو گی،مطالبے ہونگے اور حکومت پر دباؤ بڑھایا جائیگا، اگر اپوزیشن کے ایجنڈے عوام کے مسائل سے ہٹ کر سامنے آئے،اپنے کیسز اور چوریوں،ڈاکوں پر پردے ڈالنے کی مہم دکھنے لگی تو عوام خوب سمجھتے ہیں، اب عوام کیلئے یہ اہم نہیں رہاکہ کون وزیراعظم ہے اور کس پارٹی کی حکومت ہے اور پارٹی کا منشور کیاتھا اور اس منشور کیلئے وہ پارٹی کتنا کامیاب ہوسکی ہے؟ اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا ایجنڈہ اٹھانا ہوگا، ادویات کی قیمتوں میں کمی کا ایجنڈہ آگے بڑھانا ہوگا۔
بجلی کے نرخ کم کروانے ہونگے، گیس پورے پاکستان کو دلوانی ہوگی، عوامی مسائل کو ترجیح دینا ہوگی، اگر اپوزیشن رہنماؤں نے صرف اورصرف اپنے اور وہ پرانے ایشوز اٹھائے تو معاملہ ان کے ہاتھ سے بھی نکل جائے گا، الیکشن میں دھاندلی کا ریکٹ اب سب کو سمجھ آچکا ہے، دو سال گزرنے کا بعد اس وقت دھاندلی دھاندلی کا نعرہ لگانا دکھ رہا ہے کیوں لگایا جارہاہے، ایف اے ٹی ایف کے بہانے نیب جتنا مضبوط ہوگئی ہے اور آئندہ جنتا مضبوط ہونی ہے اس کے اشارے سب کو دکھ رہے ہیں، وہ بارہ سو سے زیادہ نیب ریفرینسز جو ابھی چلنے ہیں
جن کے بارے میں چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد حکومت کو کہہ چکے ہیں اور وزارت قانون نے مزیدنئی احتساب عدالتیں بنانے کیلئے سمری وزیراعظم ہاؤس بھیجوا دی ہے، اب وزیراعظم کی منظوری کے بعد سمری وزارت خزانہ کو جانی ہے جہاں بجٹنگ کے بعد نئی عدالتیں بننی ہیں جہاں 90 دن میں ان ریفرنسز کا فیصلہ ہونا ہے جو پپپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں ن لیگ کے خلاف دائر کی تھیں اور ن لیگ نے اپنی حکومت میں یہ کیسز بنائے تھے، یعنی اپوزیشن کی تقریباً تمام ہی پارٹیوں کے رہنماؤں کو نیب عدالتیں اور گرفتاریاں سوتے جاگتے دکھ رہی ہیں، بس اب دیکھنا ہے کہ کس میں کتنا دم ہے اور کہیں وہ گھنٹہ پھر تو نہیں بجا دیا جاتا جو ہمیشہ بجایا جاتا ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں ابھی نہیں، ابھی نہیں۔
EMAIL:FAYSALAZIZKHAN@GMAIL.COM