|

وقتِ اشاعت :   October 7 – 2020

حالات کب اور کیسے بدل جاتے ہیں ان ہی حالات کے کسی کو کوئی خبر یا الحام نہیں ہوتا تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ جو جس طرح کریگا اس کے ساتھ بھی وقت و حالات کے مطابق اسی طرح ہو سکتا ہے بلکہ ہر عمل اور کردار کا ایک ری ایکشن اور جوابی رد عمل ہوتا ہے۔ اسی طرح 2018 ہی میں نواز شریف کے حکومت کے خلاف اس وقت کے اپوزیشن سمیت طاقتور طبقوں نے ایک مہم کا آغاز کیا اور مسلم لیگی حکومت کو مارچ سے قبل ہی ختم کرنا مقصود تھا کیونکہ مارچ میں ہی ایوان بالا سینٹ کے انتخابات منعقد ہو رہے تھے اسی وجہ سے اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو خطرہ تھا کہ اگر سینٹ میں نواز شریف کو اکثریت مل گئی۔

تو پھر وہ سیاسی طور پر طاقتور بن جائیں گے اور وہ جس طرح چاہے آئین میں ترامیم و تبدیلی لا سکتے ہیں اسی وجہ سے فیصلہ ہوا کہ نواز شریف کو سینٹ میں اکثریت سے محروم رکھنا ہوگا اور اس کھیل کا آغاز بلوچستان ہی سے کیا گیا اور بلوچستان حکومت کو تبدیل کرنے کا اہم پلان ترتیب دیاگیا۔بلوچستان میں مسلم لیگ ن اور اتحادی پارٹیوں کی حکومت تھی اور وزارت اعلیٰ کے منصب پر چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ خان زہری براجمان تھے جس کے خلاف مسلم لیگ ن ہی کے اراکین اسمبلی کو بغاوت کرنے اور وزیر اعلیٰ نواب زہری کے خلاف عدم اعتماد لانے کا اہم ٹاسک دیا گیا۔

جس پر اپوزیشن بالخصوص پی پی پی نے انتہائی اہم رول ادا کیا جس کا برملا اظہار آصف زرداری نے میڈیا اور جلسوں میں بھی کیا کرتے تھے۔ اپوزیشن اور طاقتور حلقوں نے سیاسی کھیل کا آغاز مسلم لیگی اراکین اسمبلی سے شروع کیا اور ان ہی اراکین نے اپنے ہی پارٹی کے وزیر اعلیٰ کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے تحریک عدم اعتماد پیش کر دیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور مسلم لیگ ن کے منحرف اراکین صوبائی اسمبلی سے ملاقاتیں کیں اور انہیں اپنے ہی وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد موخر کرنے کا کہا۔

اس وقت کے اخباری رپورٹس اور شاہد خاقان عباسی کے بیانات کے مطابق مسلم لیگ کے اراکین اسمبلی نے کہا کہ ہم پر بہت دباؤ اور پریشر ہے ہم تحریک عدم اعتماد سے ہرگز دستبردار نہیں ہو سکتے اور ہم ہر صورت تحریک پیش کریں گے۔بعد ازاں بلآخر وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری نے عدم اعتماد سے قبل ہی مستعفی ہوا اور اس کے بعد باغی اراکین نے ہی قدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا اور پھر اس تبدیلی کے باعث مسلم لیگ ن کو نہ تو سینٹ میں اکثریت ملی اور نہ ہی مسلم لیگ ن کا خواب پورا ہوا بلکہ ن لیگ کی سینٹ میں اکثریت کے خلاف پلان کامیاب ہوا اور بلوچستان کے مسلم لیگی اراکین نے مسلم لیگ ن کے سینٹرز کے بجائے۔

آزاد امیدواروں کو منتخب کرا کر پارٹی قوائد وضوابط کو پامال کیا۔ اب بالکل اسی طرح عمران خان کو بھی مارچ 2021 میں سینٹ میں دو تھائی اکثریت ملنے جا رہی ہے تو موجودہ اپوزیشن نے بھی حسب سابق وہی پلان ترتیب دے کر بلوچستان کو سیاسی محاذ اور سیاسی دنگل کا میدان بنا لیا ہے لیکن اس بار عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ایک بیج پر ہیں ان کا مقابلہ صرف اپوزیشن سے ہی ہے۔ تاہم اپوزیشن نے کوئٹہ میں جلسہ کا اعلان کرکے حکومتی ایوانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں بلکہ حکومت ابھی سے ہی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہر بار اپوزیشن جماعتیں سیاسی تبدیلی کا محاذ اور احتجاجی دنگل بلوچستان سے ہی شروع کرتی ہیں۔

جبکہ وہی اپوزیشن حکومت میں آنے کے بعد پھر بلوچستان کو ترقی کے عمل میں یکسر نظر انداز کر دیتی ہے بلوچستان کو تجربات کاسیاسی بنانے اور بلوچستان کے لوگوں کوہربار قربانی کا بکرا بنا کر ان کو ہمیشہ بھلا دیا جاتا ہے۔اب پی ڈی ایم نے کوئٹہ جلسہ کی کامیابی کے لیے ہوم ورک کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔آپ سب کے علم میں ہے کہ اپوزیشن کے تمام سیاسی جماعتوں کا بلوچستان میں بڑا اثر و رسوخ ہے جمعیت علماء اسلام، پختون خواہ میپ، مسلم لیگ ن، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر پی ڈی ایم کے حمایتی سیاسی پارٹیوں نے جلسہ کو کامیاب بنانے کیلئے سخت عوامی رابطہ مہم شروع کر چکے ہیں۔

اور ان تمام اپوزیشن پارٹیوں کا فوکس ہے کہ پہلا جلسہ تاریخی ہو اور امید ہے کہ اپوزیشن کوئٹہ میں اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کریگی اور ہر صورت جلسہ کامیاب کرکے حکومت کو ٹف ٹائم دیگی۔ تاہم اصل مسئلہ حکومت کو سینٹ کے انتخاب سے قبل ہی گھر بھیجنا ہے اس سلسلے میں دیکھتے ہیں کہ اپوزیشن کہاں تک کامیاب ہو سکتی ہے اس بار حکومت کی تبدیلی کے لیے اپوزیشن متحد ہے جبکہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے جبکہ دوسری جانب آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ پاک فوج سیاست میں مداخلت ہرگز نہیں کریگی جبکہ بلوچستان میں جام کمال کی حکومت اب تک مضبوط تصور کی جا رہی ہے۔

کیونکہ بلوچستان عوامی پارٹی صوبے کی لارجسٹ پارلیمانی پارٹی ہے جبکہ اپوزیشن بلوچستان میں تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور بی اے پی میں بھی فی الحال کوئی سیاسی اختلافات نہیں ہیں اسی وجہ سے بلوچستان میں صوبائی حکومت کی تبدیلی کے دور دور تک امکانات نہیں تاہم معجزہ کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ بلوچستان کو اپوزیشن نے ہر وقت محاذ جنگ بنا کر سیاست کی ہے اور کامیابی کے بعد بلوچستان کی طرف کسی کا دھیان تک نہیں جاتا بلوچستان کی پسماندگی محرومی اور بدحالی ان حکمرانوں کی بے ایمانی اور عدم توجہی کے باعث ہے۔

بلوچستان کے عوام ترقی،جدید علاج معالجہ کی سہولیات سمیت تعلیم و بہترین روڈز ٹرانسپورٹیشن سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اور تو اور صوبے کے ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کو صاف پینے کے پانی کی فراہمی بھی ممکن نہیں جبکہ دور دراز اور بکھری ہوئی آبادی کے باعث بلوچستان میں لوگ اسپتالوں میں پہنچنے سے قبل جان بحق ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان میں خواتین کی زچگی کے دوران اموات خطے میں سب سے زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود بلوچستان نہ تو وفاق کی توجہ حاصل کر سکا ہے اور نہ ہی بلوچستان حکومت نے صوبے کی ترقی کیلئے ٹھوس اقدامات اب تک اٹھائے ہیں۔

پاکستان میں تمام صوبائی اسمبلیوں کی نسبت سب سے زیادہ فنڈز بلوچستان کے اراکین اسمبلی کو ملتا ہے ملک کے کسی وزیر مشیر ایم پی اے کو ساٹھ ستر کروڑسالانہ ترقیاتی فنڈز نہیں ملتے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کو اربوں روپے فنڈز ترقیاتی ملنے کے باجود کسی شعبے میں ترقی نہیں کر سکا ہے تاہم اگر ترقی ہوئی ہے تو کرپشن کمیشن اقرباء پروری عدم میرٹ اور کاغذی ترقیاتی منصوبوں میں بلوچستان نے ریکارڈ ترقی کی ہے جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں بلوچستان کے شہروں کی حالت زار تباہ کن ہے آپ کوئٹہ کی حالت دیکھیں تو حیران ہو جائیں گے صوبے کے سات ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کی شہریں کچی آبادی اور کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود بلوچستان میڈیا اور کاغذات میں جدید ترقی کی منازل تیزی سے طے کر رہا ہے۔ ساتھ ہی سلام ہے باادب عوام، سول سوسائٹی اور میڈیا کوکہ وہ بھی حکومتی جھوٹ میں برابر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔بلوچستان پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں یورپ جیسا ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے تاہم بلوچستان کو سیاسی اکھاڑہ بنانے والے جب اقتدار میں آتے ہیں تو بلوچستان کی بدحالی عدم ترقی پسماندگی محرومیوں کے ازالے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کم از کم اپنے پانچ سالہ بجٹ میں سے دو بجٹ میں کچھ زیادہ ترقیاتی منصوبے مختص کرکے صوبے کو ترقی دیں تاکہ عوام جدید ترقی سے مستفید ہو سکیں تاہم بلوچستان میں شروع ہونے والی تحریک کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ بعید از قیاس ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے اور تبدیلی کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہو تاہے۔