|

وقتِ اشاعت :   October 9 – 2020

اس وقت ملک میں سیاسی درجہ حرارت یعنی ستمبر میں جون جولائی سے زیادہ گرم ہے اور جو حالات بتارہے ہیں دسمبر کی شدید سردیوں میں ایک تحریک تیار ہوگی یہ تحریک اپوزیشن کی پی ڈی ایم میں شامل گیارہ جماعتوں کے اتحاد و اتفاق کے صورت میں قائم رہ سکتی ہے۔ مختلف الخیال مختلف نظریات رکھنے والے مذہب،قوم،وفاق و جمہوریت پرست یک نکاتی ایجنڈے پر اکھٹے ہیں کہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو اب گھر بھیجنا ہے۔ان گیارہ جماعتوں کو ایک اور ایک گیارہ بنایا ہے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے جنکا نام ہے پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن۔

جمہوریت کی علمبردار ان جماعتوں نے دو سال کچھ نہیں چاہا تو مولانا فضل الرحمان کے دام میں نہ آئے لیکن اب جب دیکھا کہ اگر سینیٹ کے انتخابات گزرگئے تو اسکے بعد یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ گھاس بھی نہیں ڈالے گی تو نہ ان جمہوری جماعتوں نے پارٹی کی کوئی میٹنگ کی نہ کسی اپنے کارکن سے پوچھا، بس چند فون گھومے اور اپوزیشن کے تین بڑوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کرلیا۔ چلیں مان لیا یہ انکا آئینی اور جمہوری حق ہے کہ وہ ایک عوامی تحریک چلائیں اور موجودہ حکومت کو چلتا کریں لیکن اس سے قبل یہ جان لیں ابھی اس پی ڈی ایم میں عدم اعتماد کی فضاء ابتداء سے ہی قائم ہے۔

پی ڈی ایم کی تین جماعتیں ن لیگ یعنی میاں نواز شریف اور مریم کا گروپ،جے یو آئی ف، پی کے میپ اور فاٹا اراکین کا ہدف صرف عمران خان یا انکی حکومت نہیں ہیں وہ اس سے آگے جاکر کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اپنے ارادوں کا اظہار کھل کر کر چکے ہیں لیکن پیپلزپارٹی سمیت دیگر چھوٹی جماعتیں ایسا نہیں چاہتی ہیں وہ کسی ایسی صورتحال میں نہیں جانا چاہتے جہاں لنگڑی لولی جمہوریت بھی نہ رہے۔ اب بات کرتے ہیں اصل مسئلہ کی،اس وقت ملک اور جمہوری نظام کا اصل مسئلہ کیا ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر فریق اپنی مرضی کا آدھا سچ بول رہا ہے اور اس ملک کو جتنا نقصان اس آدھے سچ نے پہنچایا ہے۔

اتنا نقصان کسی دشمن نے بھی نہیں پہنچا یا ہے۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی اور انکی جماعتوں نے حالیہ اے پی سی کے بعد جس انداز میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذ کھولا ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے لیکن انکے علاوہ اے پی سی میں موجود دیگر جماعتیں اس معاملے پر کسی انتہائی اقدام کی طرف نہیں جارہیں۔ چند سال قبل تک کسی بھی معاملے میں فوج پر تنقید کیلئے لفظ اسٹیبلشمنٹ کا استعمال کیا جاتا تھا اب براہ راست حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کے نام لیکران پر لفظی حملوں کا آغاز ہوچکا ہے۔

فی الحال پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور انکے اتحادی شیخ رشید بھر پور انداز میں انکے دفاع کی کوششوں میں مصروف ہیں یہاں تک کہ وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ انٹرویو میں میاں نواز شریف کو بھارتی ایجنٹ قرار دیالیکن اب تک اپوزیشن کے حملوں کا پلڑا بھاری ہے۔ بات ہورہی تھی آدھے سچ کی کہ اپوزیشن کی یہ جماعتیں آدھا سچ بول رہی ہیں، پچیس اکتوبر کو کوئٹہ میں اپوزیشن میدان سجانے کو تیار ہے کیا اپوزیشن اس موقع پر پورا سچ بولے گی؟ کیوں کہ ابھی تک اپوزیشن پورا سچ نہیں بول رہی، اگر اپوزیشن نے ڈو اینڈ ڈائی کا فیصلہ کرلیا ہے تو پہلے پورا سچ بولے۔

اسکے بعد ہم جیسے دانشور فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی کہہ سکیں گے کہ آپ بھی انکے باقی آدھے سچ کو پورا سچ تسلیم کرلیں تاکہ ملک آگے بڑھ سکے اور اس آدھے سچ کو پورے سچ میں تبدیل کرنے کے عمل کا آغاز سولہ اکتوبر کو گجرانوالہ سے کردیا جائیگا اور ہر خرابی کا ذمے دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دینے والے سیاستدان اپنی غلطیاں بھی یاد کرینگے۔ مجھے امید ہے کوئٹہ میں پچیس اکتوبر کو میاں نواز شریف کا نمائندہ جو کوئی بھی ہو کم از کم وہ یہ سچ بولے گا کہ جب میاں نواز شریف خان عبدالصمد خان شہید کے جلسے سے واپس جارہے تھے تو کوئٹہ انٹر نیشنل ائیرپورٹ پر محمود خان نے الوداع کہتے ہوئے۔

ا نہیں کہا کہ میاں صاحب بلوچستان اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی نشست خالی ہے جس پر میاں صاحب نے اس وقت کے وزیر اعلٰی نواب ثناء اللہ زہری کو یہ ہدایت نہیں دی کہ جسکا نام محمود خان اچکزئی تجویز کریں انہیں ڈپٹی اسپیکر بنادیں جسکے بعد ن لیگ اور ق لیگ کے کچھ اراکین سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور اسکے نتائج پھر نواب ثناء اللہ زہری کے استعفیٰ کی صورت میں نکلے لیکن الزام پھر بھی اسٹیبلشمنٹ پر۔۔ کیا پیپلزپارٹی کا کوئی نمائندہ یہ تسلیم کریگا کہ نواب ثنا ء اللہ زہری کی حکومت گرانے کیلئے قیوم سومرو خالی ہاتھ کوئٹہ آئے تھے، کیا ہارس ٹریڈنگ کیلئے پیسہ استعمال نہیں ہوا۔

ایک ایسی اسمبلی جہاں پیپلزپارٹی کا ایک رکن نہیں تھا وہاں زرداری صاحب کی اتنی دلچسپی کیوں تھی؟ لیکن الزام پھر اسٹیبلشمنٹ پر۔۔ کیا بی این پی مینگل یہ اعتراف کریگی کہ صرف نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کو ختم کرنے کیلئے بی این پی مینگل کیوں مددگار تھی۔۔۔ کیوں موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت کو ایک سال کے بجائے دو سال کا وقت دیا، جہانگیر ترین نے ایسی کونسی یقین دہانی کرائی تھی جس پر بی این پی مینگل دو سال انتظار کرتی رہی۔کیا نیشنل پارٹی بتائیگی کہ کیسے پی کے میپ اور ن لیگ بلوچستان کی پارلیمانی جماعت نے انکے وزیر اعلٰی ڈاکٹر مالک بلوچ کو بلیک میل کئے رکھا تھا۔

اور کیا واقعی جوکام ڈاکٹر مالک نے کیچ کیلئے کیا وہ بلوچستان میں کرسکتے تھے لیکن انکی ترجیح صرف کیچ کیوں تھا؟ جھالاوان اور پشتون علاقوں کو کیچ جیسا ڈویلپمنٹ پیکج کیوں نہیں ملا اور انکے اتحادیوں ن لیگ اور پی کے میپ کی دلچسپی کچھ اور تھی۔۔ کیا جمعیت کی قیادت جواب دیگی کہ کیوں ن لیگ کے وزیر اعلٰی نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کو چلتا کرنے کے بعد قدوس بزنجو کے دور میں پلاننگ اینڈ ڈویلپنٹ کے معاملات جمعیت کے ایک معزز رکن اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کر نہیں چلا رہے تھے؟کیا پی کے میپ بتائیگی کہ جتنا فنڈ ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنے علاقے کو دیا اسکے برابر عبدالرحیم زیارتوال اور حامد خان اچکزئی کو نہیں دیا۔

تو پھر ہمارے پشتون اضلاع کا کام صرف کاغذوں پر کیوں ہے۔۔۔کیا یہ سارے کام آپ جماعتوں نے کسی کے کہنے پر کئے تو بتائیں قوم کو،کس کے کہنے پر کیوں کئے، جب تک یہ نہیں بتائینگے اس وقت تک آدھا سچ آپکو کوئی فائدہ نہیں دیگا اور آج اگر ہمارے اپوزیشن کی پی ڈی ایم میں موجود گیارہ جماعتیں کوئٹہ میں حلف لیں اور پورے سچ کو اپنے ایجنڈہ کا حصہ بنائیں اور عہد کریں کہ ملک کی سیاسی جماعتوں سے موروثی قیادت کا سلسلہ ختم کرینگی، ن لیگ کی سربراہی اگر پرویز رشید یا خواجہ سعد رفیق کرینگے مریم نواز یا حمزہ شہباز کارکن کی حیثیت سے سیاست کا آغاز کرینگے۔

براہ راست بڑے عہدوں پر نہیں آئینگے۔ بلاول کی جگہ رضاربانی یا اعتزاز احسن کو دی جائے مولانا اسد محمود کی جگہ مولانا محمد خان شیرانی یا پھر حافظ حسین احمدآئینگے ایمل ولی کی جگہ افتخار حسین کو ملے گی، سردار اختر مینگل کی جگہ گورگین مینگل نہیں بلکہ غلام نبی مری یا ثناء بلوچ آسکے گا اور سیاسی جماعتیں اور انکے اراکین اسمبلی کا کام فنڈز کا حصول اور ٹھیکوں کی تقسیم نہیں بلکہ قانون سازی ہوگا۔ علاقے کی انتظامیہ اور پولیس کی ٹرانسفر پوسٹنگ میں انکا کوئی کردار نہیں ہوگا روڈ نالی کی تعمیر لوکل باڈیز کا حصہ ہوگی، قومی منصوبے ہر کام کیلئے مختص کردہ ادارے کرینگے۔

کسی قومی سانحے یا آفت کی صورت میں فوج کو ملک کے اندرونی کاموں کیلئے اور مسائل کے حل کیلئے طلب نہیں کرینگی تو پھر یہ جماعتیں حق بجانب ہونگی کہ وہ کسی عسکری افسر اور جوان کو اسکا حلف یادد لائیں بصورت دیگر جب تک اپنی مرضی کا آدھا سچ بولتے رہیں گے آدھا سچ کبھی آپکو کامیابی نہیں دلا سکے گا۔ اگر اپوزیشن کی جماعتیں پورا سچ بولیں اور آئین اور قانون کے تحت اپنے حلف آئین پاکستان کی مکمل پاسداری کریں تو اسکے بعد وہ کسی معاملے میں کسی ادارے کی مداخلت پر سیخ پا بھی ہوں اور آواز بلند کریں تو اچھے بھی لگیں گے۔

اگر ایسا ممکن نہیں تو آدھا سچ اس ملک کو بہت نقصان دے چکا ہے اب مزید نقصان کی ہمت نہیں ہے کیونکہ اب بھی جنہیں ساری خرابیوں کا ذمے دار ٹہرایا جارہا ہے اگر ان کی طرف سے ایک گرین سگنل ملا تو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ایسی غائب ہوگی جیسے اسکا کوئی وجود ہی نہیں تھا اسلئے اب آدھے سچ کو روکنے کیلئے میر حاصل خان بزنجو مرحوم کی آخری خواہش کے مطابق ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا وقت ہے جہاں تمام ادارے سیاسی و جمہوری قوتیں ایک میز پر بیٹھیں اور ملک کیلئے ایک راہ کا تعین کریں اور مسائل کا حل نکالیں تو آدھے سچ کے نقصان سے بچ سکیں گے۔