|

وقتِ اشاعت :   October 10 – 2020

آزاد بلوچستان کا پاکستان سے الحاق کرنے،ون یونٹ کے خاتمے کے بعد سے لیکر اب تک بلوچستان وفاقی حکومت کی نظروں سے ہمیشہ اوجھل رہا ہے بلوچستان پر تین بارفوج کشی کرنے کے بعد بھی بلوچستان وفاق کی اولین ترجیحات میں شامل نہ ہو سکا۔ بلوچستان کو کرسی وزارت مراعات اور اقتدار کے کھیل نے ترقی کے بجائے بدحال کر دیا۔ آپ اس امر سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 1970سے لے کر اب تک بلوچستان کو کسی بھی وفاقی حکومت نے اس کا جائز حق تک نہیں دیا۔ بلوچستان کاوفاقی ملازمتوں میں کوٹہ آٹے میں نمک کے برابر ہے جبکہ پاکستان سیکرٹریٹ میں بلوچستان کا ایک بھی سیکرٹری تک موجود نہیں۔

آپ وفاقی سیکرٹریوں کا ڈیٹا نکالیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ پسماندہ اور بدحال صوبہ اب وفاقی سیکرٹریٹ میں بھی بدحالی کا شکار ہے۔ بلوچستان کو آخر کس کی بددعا لگی ہے کہ صوبہ اپنے اور پرائے دونوں کی ظلم و زیادتی کا روز اول سے ہی شکار ہوتا آ رہا ہے اور اب تک بلوچستان کو کوئی اون ہی نہیں کر رہا؟ جس کا بلوچستان سب سے زیادہ مستحق اور حقدار تھا۔ بلوچستان کی محکومی اور پسماندگی کو کسی حکومت نے فوکس نہ کیا اور نہ ہی کوئی خصوصی توجہ دی۔ یقینا بلوچستان کی بدحالی میں صوبے کے قومی و صوبائی اسمبلی ممبران سینٹرز جو گونگے بہرے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

ان سے کیونکر ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ ان سیاسی رہبروں کی خاموش کردار کے باعث ہی صوبے کے ساحل و وسائل کے تحفظ اور بلوچستان کی پسماندگی بدحالی اور محرومیوں کے ازالے کیلئے کبھی بھی پارلیمنٹ،ایوان بالا اور بلوچستان اسمبلی یا کسی اور فورم پر لب کشائی یا حکمرانوں کی نافرمانی کرنے کی کسی نے جرات ہی نہیں کی ہے۔ بلوچستان کی پسماندگی اور قوم کی بدحالی کا ذمہ دار ہمارے نااہل کرپٹ سیاسی اشرافیہ یا سیاسی قزاق ہی ہیں ان کی غفلت نالائقی اور گونگے پن کی وجہ سے بلوچستان میں بدحالی کا دور دورہ ہے۔

اب سونے پہ سہاگہ یہ کہ ریاست مدینہ کا سلوگن لگانے والے عمران خان کی سرکار نے اب ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا ہے کہ صوبوں کے ساحلی علاقوں اور جزائر پر وفاق کا کنٹرول ہوگا،صوبوں کا ان جزائر پر کوئی حق نہ ہوگا۔ کیا صدراتی آرڈیننس 18ویں ترمیم اور صوبائی خودمختیاری سے متصادم نہیں؟ 18ویں ترمیم میں صوبوں کے تمام وسائل معدنیات اور ساحل و جزائر پر مکمل اختیار اور کنٹرول صوبوں کا ہی ہے لیکن افسوس تو بلوچستان اسمبلی کی خاموشی اور باپ کی سوداگری پر ہے۔ وزارت اور مراعات کے بدلے دھرتی ماں اور جزائر کے سودا اور قبضہ گیری پر جام کمال سرکار سمیت صوبے کی تمام سیاسی پارٹیاں خاموشی یا چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔

جبکہ سندھ نے اس صدارتی آرڈی ننس پر بڑا احتجاج کیا ہے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ اور پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو کا شدید ردعمل بھی آچکا ہے۔ ہمارے تنخواہ خور حکمران اور بلوچستان اسمبلی کے قزاق صوبے کے جرائز پر وفاق کے کنٹرول کے حوالے سے خاموش ہیں اور وہ کچھ بول کر اپنی نوکری، وزارت اور مراعات کو خطرے میں ڈالنے سے احتیاط کررہے ہیں۔کیا بلوچستان میں باپ کی حکومت کے ہوتے ہوئے مرکزی حکومت کی ناجائز اور غیر آئینی آرڈی ننس پر اپنی زمین یا ماں کی سوداگیری پراحتجاج کے بجائے خاموش ہو گی؟

کیا باپ پارٹی کی خاموشی بلوچستان کے ساحل اور وسائل کو کوڑیوں یعنی وزارتوں،مراعات اور مستقبل میں دوبارہ ایم پی ایز اور ایم این ایز بننے کیلئے خاموش ہو کر مٹی پاؤ کے فارمولے پر عمل کرے گی؟ اگر اسی طرح خاموشی اور آنکھیں بند کرکے بلوچستان اسمبلی کے اراکین اور باپ پارٹی کی پوری قیادت بلوچستان کے ساحل و وسائل کے قزاق اور صوبے کے جزائر کے سوداگر کا ٹائٹل اپنے سر لیں گے۔ اور یہ کہ بلوچستان کی سرزمین اور وسائل ہڑپ کرنے پر آنکھیں اور زبان بند کرکے ہمارے صوبائی حکمران کس کی خوشنودی چاہتے ہیں۔

یا پھر یہ غداری اور بھارتی ایجنٹ ہونے کے الزام سے بچنا چاہتے ہیں،غداری اور بھارتی ایجنٹ آج کل صرف حکومت مخالفت اور اپوزیشن قائدین کیلئے ہے تاہم بلوچستان کے سیاسی رہبر بھی وفاق کی مخالفت مول لینے کی سکت نہیں رکھتے۔ یقینا بلوچستان کی موجودہ بدحالی کی تصویر صوبے کے سیاسی قزاقوں کی ہی مرہون منت ہے۔ بلوچستان میں قدرت کے بیش بہا ذخائر،معدنیات اور وافر ترقیاتی فنڈز کے باوجود صوبے کے عوام آج بھی جوہڑوں کا گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ علاج کرانے کیلئے عوام کو نہ تو ڈاکٹر میسر ہیں اور نہ ہی ان سرکاری ہسپتالوں میں بہترین علاج کی سہولیات میسر ہیں۔

جبکہ عوام بدحالی کسمپرسی کی زندگی گزار کر ان حکمرانوں کو بددعائیں دے رہے ہیں۔ جبکہ عوامی طاقت اور طاقتور حلقوں کی حمایت سے یہی حکمران صوبے کے وسائل ہڑپ کرکے خود ترقی و خوشحالی کے مزے لوٹ رہے ہیں بلوچستان کے سیاسی رہبر مختلف روپ میں قومی خزانے پر قزاق بن کر سرکاری وسائل کو شیر مادر کی طرح ہضم اور ہڑپ کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں تین نسلوں سے حکمرانی کرنے والا جام، جمالی اور مگسی خاندان سمیت دیگر حکمرانوں کے علاقے تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ ان کی کرپشن اور لوٹ مار پر کیا طاقتور حلقوں کی نظریں نہیں ہیں؟

آپ پاکستان کے سب سے پسماندہ ضلع آواران کی مثال لیں اس پر ایک ہی خاندان تواتر سے حکومتی قافلے کا روح رواں بنتا آ رہا ہے لیکن آواران کو دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر اسی طرح کرپشن اور کمیشن بے مہار ہوتی گئی اور ہمارے سیاسی قزاقوں اور طاقتور طبقوں کے لاڈلے اراکین اسمبلی کے لوٹ مار کی حساب کتاب نہ کی گئی تو آج صرف آوارن تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے کل لسبیلہ،جھل مگسی، جعفرآباد، اوستہ محمد، کچھی،قلات،مستونگ،چاغی، خاران، واشک، پنجگور، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، دکی، قلعہ عبداللہ،نصیرآباد، کیچ،گوادر، نوشکی، قلعہ سیف اللہ،پشین،لورالائی، شیرانی، ہرنائی، صحبت پور،گوادر، خضدار سمیت پورا بلوچستان تباہی۔

اور بدحالی کا ایک اعلیٰ نمونہ بن جائے گا اور انہی ناانصافیوں، کرپشن، کمیشن، پسند ناپسند،اچھا اور برا محب، وطن اور غدار جیسے رویوں نے ہی دشمن قوتوں کو بلوچستان کے حالات خراب کرنے کا موقع دیتا ہے۔ بلوچستان میں بھارت کی شرانگیزی میں ہمارے اپنے ہی مہرے بن رہے ہیں اسی وجہ سے مشرف دور اور پی پی پی دور حکومت میں بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال تباہ کن تھی، آئے روز دھماکے ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور ہمارے اداروں کی غفلت کا مظہر ہوا کرتے تھے لیکن مسلم لیگ کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی خصوصی توجہ سے بلوچستان میں امن کی آشا بحال۔

ہوئی اور کوئٹہ جیسے شہر کی رونقیں بحال ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچستان بھر میں امن و امان میں بہتری ہوتی گئی اور اس وقت کے ڈاکٹر مالک بلوچ نے صوبے میں میرٹ کی بحالی کا سلوگن دیا۔ میرٹ اور صوبائی محکموں میں اصلاحات اور گورننس میں مثالی تبدیلی کا آغاز کیا۔ اب الحمداللہ بلوچستان پر باپ پارٹی کی حکومت ہے اور وفاق میں بھی وہ اتحادی ہیں کیا باپ جو سب سے پہلے بلوچستان کا نعرہ لگایا اور بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی اور عوام کی تقدیر بدلنے کے فیصلے مری،اسلام آباد اور لاہور کے بجائے بلوچستان ہی میں کرنے کا اعلان کیا۔

اور باپ پارٹی کو ہی بلوچستان کے سیاہ وسفید کا مالک بنایا گیا اور ایک بار پھر جام خاندان کو صوبے کی ترقی اور خوشحالی کیلئے چنا گیا۔ جام کمال خان اپنے خاندان کے تیسرے وزیر اعلیٰ ہیں اب وقت ہے کہ جام کمال خان بلوچستان کی حقیقی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے اپنے کمالات دکھائیں۔موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ بلوچستان میں کرپشن کمیشن کے مکمل خاتمے اور میرٹ پر گورننس کرنے سے ہی بلوچستان ترقی کر سکتا ہے بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو بھی صوبے کے حالات پر از سر نو غور کرنا ہوگا۔ بلوچستان کے لوگ محب وطن ہیں انہیں عزت پیار اور ان کا جائز حق دینے سے ہی بلوچستان مستقبل کا سنگا پور بن سکتا ہے۔

بلوچستان میں ملک دشمنی، غداری اور حب الوطنی کے ٹائٹلز کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ صوبے کے وسائل اور قومی خزانے لوٹنے والے معززین سیاست کو نکیل ڈالنا ہوگا۔ انہیں صوبے کے قزاق بننے کے بجائے بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کا سفیر بنانا ہوگا۔ بلوچستان میں شمالی کوریا اور چینی ماڈل اپنا کر ہم کرپشن کمیشن کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمے کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ کام پسند نا پسند کے بجائے میرٹ پر بلا امتیاز کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی سیاست دان بلوچستان کے ساحل اور وسائل کی سوداگیری اور صوبے کے حقوق کی پامالی پر گونگے بہرے کا کردار ادا نہ کرے۔

بلکہ وہ بلوچستان کا محافظ اور سپوت بن کر صوبے کے حقوق، ساحل اور وسائل کے تحفظ اور ترقی وخوشحالی کو اولین ترجیح دے کر کر بلوچستان کو ترقی کے شاہراہ پر گامزن کرنے والا کردار ادا کرے تاکہ سی پیک جیسے عظیم منصوبے سے بلوچستان خطے کا گیم چینجر بن کر پاکستان کی حقیقی معنوں میں تقدیر بدل دے لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہو سکے گا جب تمام فیصلے میرٹ اور عوامی ووٹ و طاقت کی بنیاد پر ہوں گے۔