|

وقتِ اشاعت :   October 13 – 2020

میر جمہوریت میر حاصل خان بزنجو کی قبل از وقت موت نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ موت بر حق ہے اس سے کسی ذی شعور انسان کو انکار نہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ کل نفس ذائقتہ الموت، ہرنفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔مگر کچھ اموات ایسی بھی ہوتی ہیں جو انسان کو نڈھال کرکے رکھ دیتی ہیں، ماہ و سال نہیں بلکہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی نہیں بھولے جا سکتے، وہ اپنے کردار و عمل سے انمٹ نقوشِ چھوڑ دیتے ہیں جو رہتی دنیا تک ہمیشہ قائم و دائم رہتے ہیں۔ ان کا کردار زبان بن کر بولتا ہے۔

ان کی سیاسی اصول پسندی اور مضبوط کمٹمنٹ،ایمان کی پختگی،مادر وطن سے والہانہ محبت ہر زبان زد عام ہو، وقت کے ظالم جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنے اصولی موقف پر ڈٹ کر جرات مندانہ انداز میں قومی حق حاکمیت، ساحل وسائل، تمام مظلوم و محکوم اقوام کی قومی حقوق کے علمبردار بن کر سماجی انصاف کے لئے سینہ تان کر کھڑے ہو،بلا ایسی شخصیت کو کسی ظالم جابر کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے جس کی ساری زندگی کا اوڑھنا بچھونا سیاست ہو اور سیاست میں اصولوں کی پاسداری کو اپنے لیے ایمان کا حصہ سمجھ کر اصولوں پر سودے بازی سے اپنی موت کو ترجیح دیں۔

ایسی نابغہ روزگار ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں جو وقت و حالات سے نبرد آزما ہونے کا گر خوب جانتے ہوں،بہادری و دلیری کے ساتھ اپنے قوم کی بہتر روشن مستقبل کیلئے جمہوری انداز فکر اپناتے ہوئے غیر جمہوری قوتوں سے منطق دلیل ڈائیلاگ مکالمہ کے ذریعے زیر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں ان کی بیباکانہ سیاست میں کبھی لگوری، بزدلی،پیچھے ہٹنے،چھپنے،راہ فرار اختیار کرنیکا کوئی شائبہ تک نہ ہو جو قومی کاز سے انحراف کرکے وقتی مفادات مراعات اور اقتدار کے حصول کیلئے اقدار کو پامال کرنے کے روادار نہ ہوں ان کے ہاں اقتدار سے زیادہ اقدار کی اہمیت ہو کیونکہ اقتدار آنے جانے والی چیز ہے۔

ان کی نظر میں اقدار کے معیار سے گرنے والے کبھی دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہوتے ہیں جو اقدار سے زیادہ اقتدار کو ترجیح دیتے ہوں، وہ قوم کی نظروں میں سیاسی سودا گر ہوتے ہیں اور سودا گر کا کوئی اصول نظریہ نہیں ہوتا،جہاں منافع دیکھتا ہے اپنے اور اپنی قوم کا سودا کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے ہیں لیکن ان کی مدبرانہ و دانشورانہ کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ میر حاصل خان بزنجو جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بالادستی انسانی وقار عظمت کا بول بالا رکھنے، انسانی حقوق کے تحفظ، معاشرے میں انسان کو آزادانہ طور پر اپنی سیاسی معاشی سماجی تعلیمی بنیادی حقوق کی ضمانت پر ریاستی آئین کے تحت تفویض کیے گئے۔

اختیارات پر کامل یقین رکھتے تھے قوموں کے حقوق پر غیر جمہوری و بالا دست قوتوں کی ریشہ دوانیوں کے خلاف مرد آہن کی طرح کھڑے رہے،آئین کی مسلسل پامالی جمہوری نظام حکومت کو غیرجمہوری ”کو“ کے ذریعے ملک کی ترقی کا پہیہ جام کرکے آئین کی بساط لپیٹ کر مارشل لاء کے نفاذ اور آئین کا حلیہ بگاڑ کر انکا اصل چہرہ مسخ کرکے قومی وحدتوں میں بے جا مداخلت، اور ان کے اختیارات پر کاری ضرب کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف ایک موثر طاقتور و آواز تھے۔ میر حاصل خان بزنجو نے ساری زندگی انسانی آزادی، قومی حقوق کی پاسداری، سماجی انصاف معاشی نہ برابری، قومی و طبقاتی استحصال، لسانی گروہی۔

علاقائی تفریق کے خاتمے معاشرے میں پھیلی ہوئی بے چینی آمریت ظلم و جبر غیر جمہوری قوتوں کی بالادستی عدلیہ کی آزادی منصفانہ انتخابات اکثریت رائے کو فوقیت دینے میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی کی جنگ لڑی۔ جب اپوزیشن جماعتوں نے سینیٹ کے چیرمین میر صادق سنجرانی کو تبدیلی کرنے کا فیصلہ کیا تو اگلے چیرمین سینیٹ کیلئے اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طور پر میر جمہوریت میر حاصل خان بزنجو کو نامزد کیا اس فیصلے کے پیچھے ایک اہم راز پہناں تھا کافی چھان پھٹک کے بعد میر صاحب کے نام پر اتفاق رائے پیدا ہوا کیونکہ میر صاحب کو نہ کوئی جھکا سکتا تھا اور نہ ہی خرید سکتا تھا۔

اور نا ہی کوئی اسے ڈرا سکتا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ سینیٹ میں اپوزیشن اکثریت میں تھی چیرمین کی تبدیلی کوئی مشکل بات نہیں تھی پہلی رائے شماری میں میر حاصل خان بزنجو کو 110 کے ایوان میں 66 ووٹ ملے لیکن جب خفیہ رائے شماری ہوئی تو میر جمہوریت میر حاصل خان بزنجو کو شکست کا سامنا ہوا،بالادست قوتیں سینیٹ الیکشن پر اثر انداز ہوئے یقینی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کر دیا گیا، یہاں پر بھی وہی کھیل،کھیلا گیا جو 2018ء کے عام انتخابات میں کھیلا گیا تھا اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی جو روایت عام انتخابات میں رائج رہا، بالکل اسی طرح یہاں پر بھی زبردستی بیل منڈھے نہیں چڑھنے دیا گیا۔

اس موقع پر میر صاحب نے ایک تاریخی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ شکست میری نہیں پارلیمنٹ کی ہے جمہوریت کی ہے جمہوری اداروں کی ہے ہم نے جس جس سینٹر سے اپنی حمایت کیلئے مدد مانگا انہوں نے کہا کہ ہماری مجبوریاں ہیں اپنے کندھے کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہتے تھے یہ لوگ ہمیں زبردستی منع کررہے ہیں، ووٹ ہمارے امیدوار کو ہی دینا ہے ورنہ انجام بہت برا ہوگا، ہمیں معاف کریں پارلیمنٹ کی خود مختاری داؤ پر لگی ہوئی ہے، سینیٹر آزادی سے اپنی رائے استعمال نہیں کرسکتے، ملک میں عملاً مارشل لاء نافذ ہے، پارلیمنٹ بے توقیر ہوگئی ہے“۔

میر صاحب نے اس تاریخی خطاب میں ایک اور تاریخی جملہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ”جان ایک ہی ہے تو لے یا خدا لے“ انھیں معلوم تھا اب میں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکوں گا کیونکہ ان کے جسم میں ایک جان لیوا مرض کینسر داخل ہوچکا تھا لیکن جسم میں موجود کینسر سے زیادہ جمہوریت اور جمہوری اداروں میں سرایت کرنے والے کینسر سے ملکی اداروں کو محفوظ رکھنے کے لیے تمام جمہوری سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر اس بوسیدہ نظام کو زمین بوس کرنے کیلئے اپنی کشتیاں جلا کر مردانہ وار مقابلے کیلئے سینہ تان کر کھڑے ہوئے بلکہ چیلنج کیا کہ اس طرح مملکتیں نہیں چلا کرتیں۔

ایک جمہوری ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں، پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ کی بے توقیری اور ڈنڈے کے زور پر اپنی مرضی کے نتائج مرتب کرکے مرضی کی حکومت زبردستی عوام پر مسلط کرنا عوام کے رائے کی توہین ہے، پھر ووٹ الیکشن بے معنی ہیں۔ میر حاصل خان بزنجو مقتدرہ کے آنکھوں میں کانٹے کی طرح تھے، مخلص ایماندار دیانتدار تین دہائیوں تک سیاست کے میدان کار زار میں سر گرم رہے، ایم این اے رہے، سینیٹر رہے، وزیر رہے، لیکن اصول پرست تھے۔پوری زندگی سادگی میں گزاری مگر کرپشن سے اپنے دامن کو بچائے رکھا، ان کے خلاف ہر محاذ پر گولہ باری ہوتی رہی ناقدین نے تنقید کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیا ان کے خلاف سینکڑوں آرٹیکلز لکھے گئے مگر ان کی طرزِ سیاست ان کے نظریہ اور سوچ میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔

وہ اپنے مشن اور ڈگر پر چلتے رہے میر صاحب نے سنجیدگی کے ساتھ قوم کی رہنمائی کی جذباتیت کے سانچے میں نہیں ڈھلے، عدم تشدد کی سیاست کے پیروکار تھے زندگی کے آخری سانس تک اس پر قائم رہے، منافقت دروغ گوئی ان کا کبھی شیوہ نہیں رہا جو بولتے سچ اور منہ پہ بولتے تھے ایک سیاسی شاگرد کی حیثیت سے میں نے میر صاحب نے سے بہت کچھ سیکھا اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جس کے ساتھ بھی ملتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ کئی سال پرانی دوست ہے اور سب کو برابر سمجھتے تھے زندگی کے آخری ایام میں میری ان سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔

ایک ملاقات ان کے آبائی گاؤں نال میں اور دوسری جب بیماری کی تشخیص ہوئی تھی ہم ان کی عیادت کرنے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر گئے۔ اس ملاقات میں میرے ساتھی بی ایس او (پجار)کے سابق چیئرمین عمران بلوچ سابق مرکزی رہنماء وقار احمد بلوچ بھی تھے لیکن ہمیں یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ ان کے جسم میں ایک جان لیوا بیماری پل پھول رہی ہے اور اس بیماری نے جسم میں اپنے پنجے مکمل طور پر گاڑرکھے ہیں اور 20 اگست کی شام کو یہ افسوسناک خبر مجھ تک پہنچی کہ میر حاصل خان بزنجو تشویش ناک حالت میں اسپتال منتقل کردئیے گئے ہیں۔

اور چند لمحوں کے بعد ان کی موت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ یقین جانیے میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی میر حاصل خان بزنجو ایک قومی اثاثہ تھے جو اب ہم میں نہیں رہے۔ بلوچستان میں بائیں بازو کی سیاست کے آخری چشم چراغ تھے وہ علاقائیت صوبائیت لسانیت،انا پرستی کی سیاست کے قائل نہ تھے بلکہ ان کی شخصیت کی طرح ان کی سیاست بھی ہمہ گیر اور ہمہ جہت تھی۔ سیاسی اختلاف کو ذاتی رنجشوں کی قبا نہیں پہناتے تھے،سیاسی و نظریاتی اختلاف کو سیاست تک محدود رکھتے تھے،عملی زندگی میں میں دوستوں کے دوست اور یاروں کے یار تھے۔