|

وقتِ اشاعت :   October 13 – 2020

یہ میر پور خاص سندھ کا دس پندرہ سالوں کے بعد کا سفر تھا۔ میرپور خاص جانے کا پروگرام بھی اچانک بنا جب ہمارے دوست اختر حسین بلوچ کا رات کو فون آیا کہ کل میرپور خاص چلنا ہے۔ میر پور خاص اختر بلوچ کی جنم بھومی ہے لیکن وہ بھی تین چار سال کے بعد جا رہا تھا۔ میں نے چلنے کی حامی بھر لی۔ کراچی پریس کلب سے روانہ ہوئے تو ساڑھے تین چار گھنٹوں میں میر پور خاص پہنچ گئے۔ کراچی حیدرآباد موٹر وے پر سفر سبک رفتاری سے کٹا تو حیدر آباد میر پور خاص کی بہترین دو رویہ سڑک پر سفر کا مزہ دو بالا ہوگیا۔ میر پور خاص پہنچے تو ایک جہان حیرت ہمارا منتظر تھا۔

یہ میر پور خاص انسان دوستی اور مہر و محبت کا منظر پیش کر رہا تھا۔ اس میر پور خاص میں سندھ میں لسانی تقسیم اور اس پر پروان چڑھنے والی بدبودار سیاست کا شائبہ تک نہ تھا۔ یہ میر پور خاص انسان کی انسان سے محبت کا جیتا جاگتا ثبوت تھا جہاں رنگ و نسل، مذہب و مسلک اور دائیں و بائیں بازو کی کوئی تفریق نہ تھی۔ اس میر پور خاص میں محبت کا نغمہ ہر زباں پر جاری تھا اور مہر و الفت کے زمزمے رواں تھے۔اختر بلوچ کی ہمراہی میں جس میر پور خاص میں پہنچا وہ یہاں پیدا ہونے والے سندھڑی آم کی طرح میٹھا اور اس سے پھوٹنے والی خوشبو سے معطر تھا۔

ہم میر پور خاص میں سندھ کے ایک قابل فخر سپوت اور انسان دوست علمی شخصیت پروفیسر لائق تھیبو کے اعزاز میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔ پروفیسر لائق تھیبو ساٹھ برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد سرکاری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے تو ان کی سالگرہ کا دن بھی اسی مناسبت سے منانے کا اعلان ہوا۔ پروفیسر تھیبو سے یہ میری پہلی ملاقات تھی لیکن وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو پہلی ہی ملاقات میں اپنی شخصیت کا ایسا تاثر چھوڑتے ہیں کہ جو ساری زندگی ذہن سے محو نہیں ہوتا۔ پروفیسر تھیبو بھی ایسی ہی شخصیت ہیں۔ زندگی سے بھرپور، انسان دوستی سے معمور اور انسانیت پر یقین رکھنے والی شخصیت۔

شہرت و ناموری کے باوجود نمود و نمائش کا جن کے پاس سے گزر تک نہیں ہوا۔ یہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو خدا کی عنایت کردہ اس زندگی کے ہر پل اور لمحے کو بھر پور طریقے سے جینے کا ہنر جانتے ہیں اور اس زندگی کو اس ڈھب سے جیتے ہیں کہ خود زندگی بھی ان پر مسکرا اٹھے اور مردہ دلوں کو کہہ ڈالے کہ دیکھو اور ایسے جیو زندگی۔۔
میرپور خاص کے سٹیزن جمخانہ میں پہنچے تو شکستہ و خستہ در و دیوار نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ ہماری بدنصیبی ٹھہری کہ تاریخی عمارات اور ورثے کے ساتھ ہمارا رویہ جنگجوؤں جیسا ہے کہ جو دوسری سرزمینوں کو فتح کرنے بعد اسے تاراج کر دیتے ہیں۔

میرپور خاص کے اس تاریخی ورثے کی شکستہ حالی پر کف افسوس ملتے جب ہم اس کے احاطے میں داخل ہوئے تو اس یاس و نا امیدی کا ازالہ اس تقریب سے ہوا جو اس وقت وہاں برپا تھی۔ تقریب کیا تھی گویا کہ محبت کے گہرے رنگوں سے پینٹ کیا گیا کوئی شاہکار تھا۔ پروفیسر تھیبو جان محفل تھے تو رشید شورو ان کی زندگی و شخصیت کی پرتوں کو اتار کر حاضرین محفل کے سامنے قرینے سے رکھ رہے تھے۔ پروفیسر تھیبو کے دیرینہ ساتھی اختر بلوچ نے ان کی شخصیت کے ایسے پہلوؤں سے پردہ سرکایا جن میں تنوع، لطافت اور انسان دوستی کے نگینے جڑے ہوئے تھے۔

پروفیسر تھیبو نے جب بات کی تو کسی ریاکاری و نمود و نمائش سے پاک ان کی شخصیت کا اندازہ ان کے ایک جملے سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے انسانوں سے محبت کی اور اس کا صلہ اس تقریب کی صورت میں ملا کہ جہاں ان سے پیار کرنے والے کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ یہاں میں ایک بات کا ذکر ضروری ہے۔ سندھ میں لسانی کے باعث جب نفرتوں کو پروان چڑھایا گیا تو اس کا تختہ مشق کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ میرپور خاص بھی بنے۔ سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ یقینی طور پر زیادتیاں ہوئیں لیکن سندھ کے دیہی حصے بھی احساس محرومی کا شکار رہے۔ میرپور خاص میں بھی لسانی تقسیم ہے۔

لیکن یہاں کے باسی اس تقسیم کے باوجود ایک دوسرے کے لیے احساس اور محبت رکھتے ہیں۔ پروفیسر تھیبو کے لیے میر پور خاص کے اردو، سندھی، پنجابی اور بلوچی زبان بولنے والے کے دل میں عزت و احترام کا جذبہ موجود ہے۔ میر پور خاص کی اس تقریب میں اردو اور سندھی بولنے کے ساتھ پنجابی زبان بولنے والے بھی موجود تھے اور اس علاقے میں پنجابی زبان سن کر خوشگوار حیرت بھی ہوئی۔ سندھ میں لسانی تقسیم کو ماضی میں بڑھاوا دے کر صوبے کو نفرت، گروہی سیاست اور بدامنی کی کھائی میں دھکیلا گیا۔ سندھ میں محرومیاں تمام علاقوں میں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی بنیاد پر خون ریزی اور نفرت کا بیوپار کیا جائے۔

سندھ صوفیاء کی سرزمین ہے جن کا مسلک و مشرب محبت و الفت اور انسانیت سے پیار ہے۔ شاہ لطیف، سچل سرمست اور لال شہباز قلندر کی دھرتی ان کی انسان دوستی سے بھرپور شاعری کی عکاس ہے۔ اس سرزمین نے ماضی میں بہت کشت و خون دیکھا اور اب مزید کی متحمل نہیں۔ نفرتوں کی دکانیں سیل کی جائیں محبتوں کا بیوپار بڑھایا جائے اور اس کی ایک مثال میر پور خاص کی وہ تقریب تھی جس میں زبان کا فرق نہیں بلکہ ایک دوسرے کا احترام نمایاں تھا۔ پروفیسر تھیبو کی مادری زبان سندھی ہے لیکن ان کی تعریف میں رطب اللسان سندھی، اردو، پنجابی اور بلوچی والے سب شامل تھے۔ میر پور خاص اور یہاں کے باسیو تمہیں سلام۔