انسان اپنی قیمتی چیزوں کو حفاظت سے رکھتے ہیں اور اگر زیادہ قیمتی ہوں تو دوسروں کی نظروں سے بچا کر یا کسی کی زیر نگرانی رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو بھی بچپن سے ایک قیمتی چیز کی طرح پہرے میں رکھا جاتا ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ پہرے دار بدل جاتے ہیں۔ پہلے والدین اور پھر شوہر لیکن قیمتی اشیاء اپنی جگہ محفوظ رہتی ہیں۔چاہے مرد ہو یا عورت، دونوں انسان ہی پیدا ہوتے ہیں، مگر جنسی اعتبار سے مختلف ہونے کے باعث ایک کی رکھوالی کی جاتی ہے اور ایک رکھوالا بن جاتا ہے۔ سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ فرق قدرت نے نہیں رکھا بلکہ مختلف معاشرے، مرد اور عورت کے سماجی کردار کے اعتبار سے ان کی پرورش کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو پہلے اچھی بیٹی اور بہن ہونے کے اصول سکھائے جاتے ہیں۔
اور پھر بہترین بیوی بننے کے غرض اس کی شناخت اس کے نگران کے ساتھ جڑی رہتی ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ اکثر والدین اپنی بیٹیوں کی پرورش کرتے وقت دور اندیشی سے کام نہیں لیتے۔ آنکھوں پر بندھی روایتی طریقہ کار اور مثبت سوچ کی پٹی انہیں حقیقت پسندی سے دور رکھتی ہے۔ وہ یہ نہیں سوچ پاتے کہ اگر کسی وجہ سے ان کی بیٹی کے نگران کی وفات ہو جاتی ہے یا کسی وجہ سے علیحدگی ہو جاتی ہے تو ایسی صورتحال میں کیا ہو گا۔ وہ عورت جو ہمیشہ سے کسی کی نگرانی میں رہی ہے، کیا وہ اپنی اور اپنے خاندان کی محافظ بن سکے گی کیا اس کے پاس وہ صلاحیتیں موجود ہوں گی جن کی اب اسے ان حالات میں ضرورت ہو گی؟
جس پرندے نے کبھی فضا میں پرواز نہیں کی، اسے اچانک جب ہواؤں کے تھپیڑے کھانے پڑتے ہیں تو وہ مرحلہ نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ مرد کو عورت سے علیحدگی کے بعد ان تکالیف کا سامنا کیوں نہیں کرنا پڑتا اس لئے کہ بچپن ہی سے مرد کو نرم ونازک نہیں بنایا جا تا بلکہ انہیں مناسب غذا فراہم کی جاتی ہے اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ جسمانی اعتبار سے مضبوط بنیں۔ گھر کے معمولی مرمت کے کاموں سے لے کر بازار کے چھوٹے بڑے کام اس کے ذمے ڈالے جاتے ہیں۔ انہیں گھر میں روٹیاں بنانا یا صفائی کرنا نہیں سکھایا جاتا بلکہ زور دیا جاتا ہے کہ وہ گھر میں ہی نہ بیٹھے رہیں۔
باہر نکلیں مختلف لوگوں سے ملیں اور بات چیت کے ذریعے سماجی تعلقات قائم کریں۔ وہ زندگی بھر ابّا یا بھائی کے ساتھ پچھلی نشست پر بیٹھ کر سفر نہیں کرتے رہتے بلکہ مالی حیثیت کے مطابق یا تو بس میں سفر کرتے ہیں یا پھر موٹر سائیکل یا گاڑی چلانا سیکھتے ہیں۔ جس سے وہ اپنے علاقے یا شہر میں موجود راستوں کی سمجھ حاصل کرتے ہیں۔ میٹرک یا انٹر ہونے کے بعد ان کی شادی نہیں کر دی جاتی وہ یا تو اچھی نوکری کی غرض سے تعلیم جاری رکھتے ہیں یا پھر روزگار کی تلاش کرتے ہیں۔ تجربے کی بنیاد پر وہ سیکھتے ہیں کہ کاروباری دنیا میں ایک مستحکم روزگار کے لئے اپنے قدم کس طرح جمانے ہیں۔
غرض یہ کہ وہ تمام صلاحیتیں حاصل کرتے ہیں کہ جس سے وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں اور کسی خاتون کے محافظ بن سکیں۔ اگر ہم اپنے بیٹوں کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں سے بھی مخلص ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں، تو ان کے لئے صرف ایک نیک خوبصورت اور اچھے پیسے کمانے والا پہرے دار نہ ڈھونڈیں بلکہ انہیں وہ تمام صلاحیتیں مہیا کریں کہ جس سے وہ کھل کر فضا میں پرواز کرنے کی عادی بن جائیں۔ ان کی معاشرے میں اپنی شناخت ہو اور وہ اس قابل ہوں کہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے خاندان کی بھی حفاظت کر سکیں۔
Rahim
Nice article!
Zehra
Nice thoughts and very well written… Indeed I was thinking that this kind of learning and training will help women’s to be more independent and take their own decisions. I know some of ladies who are living life’s of sacrifices and because of not having any support are afraid of taking any decision in their lives.