|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2020

سیاست کی گرما گرمی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اپوزیشن نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے پورے پاکستان میں ایک تحریک شروع کر دی ہے۔یہ تحریک ووٹ کی عزت،ووٹ کی حرمت، ووٹ کے دفاع،مہنگائی اور اپوزیشن کی گرفتاریوں کے خلاف کی آواز بلند کرے گی۔ اپوزیشن کی جانب سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا،عدلیہ، اداروں پر دباؤ کا مقدمہ پی ڈی ایم لڑے گی۔پی ڈی ایم تحریک میں بھی اتحادی جماعتوں کے درمیان کچھ اختلافات پیش آئے لیکن انہیں حل کر لیا گیا۔اب روٹیشن کی بنیاد پر پی ڈی ایم کی سربراہی کی باری تمام اتحادی پارٹیوں کو دیے جانے کی قرارداد منظور کی گئی۔

اب باری باری ہر پارٹی اپنی سرابراہی میں یہ تحریک چلائے گی۔ اسٹیئرنگ کمیٹی کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی کو اس تحریک کا جنرل سیکرٹری،پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف کو نائب صدر اور اے این پی کے افتخارحسین کو انفارمیشن سکیرٹری چنا گیا۔ مولانا فضل الرحمن کو اس تحریک کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔انہوں نے 1993 میں جب بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کی امیدوار تھیں فتویٰ جاری کیا تھا کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی ناجائز ہے بعد ازاں بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو مولانا صاحب بے نظیر بھٹو کی حکومت کا حصہ بن گئے تھے۔

اب وہ مریم نواز کے پیش پیش ہو کر بھی ایک بار پھر اپنے فتوے کے خلاف جا رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔اس طرح آصف زرداری صاحب کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے والے شہباز شریف بھی مشکل وقت میں زرداری صاحب کے پاس مدد کے لیے جا چکے ہیں،لیکن چائنہ کی ترقی کے بانی ماؤزے تنگ اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ سیاست میں اپنے سیاسی ضمیر کی حفاظت کرنی چاہیے اور اخلاقیات کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور نہ کسی کی ذات پر حملہ کرکے کسی کا تمسخر اڑانا چاہیے۔

واضح رہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف تحریک کا باقاعدہ آغاز 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں جلسے سے کرنے جارہی ہے جس میں پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے بھی شرکت کرنے کی حامی بھر لی ہے جب کہ دوسرا جلسہ کراچی میں 18 اکتوبر کو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔پاکستان کے وجود سے لے کر آج تک حکومت میں آنے والی پارٹیاں صرف الیکشن سے پہلے بلندوبانگ دعوے کرتی ہیں۔ حکمرانی کی کرسی ملنے کے بعد پتہ نہیں کونسا سانپ انہیں سونگھ جاتا ہے کہ اپنے کیے ہوئے وعدوں سے مکرنا شروع ہوجاتے ہیں۔کچھ ا سی طرح پاکستان تحریک انصاف کا حال ہے۔

عمران خان صاحب نے الیکشن سے پہلے بہت بڑے بڑے بلندوبانگ دعوے کیے تھے۔ان بلندوبانگ دعوؤں سے تحریک انصاف نے حکومت تو حاصل کر لی لیکن عوام کے ساتھ کیے جانے والے وعدے وفا نہ ہو سکے۔الیکشن سے پہلے انہوں نے جو منشور عوام کے سامنے رکھا تھا اورجو بڑے بڑے اعلانات کیے تھے ان سے پیچھے ہٹنا شروع کردیا جس کو عوامی سطح پر یوٹرن کا نام دیا گیا اور پھر خان صاحب نے بھی یوٹرن کو نہ صرف ایک عظیم رہنما کی سب سے اہم خوبی قرار دیا بلکہ ہٹلر اور نپولین سمیت دیگر رہنماؤں کی ناکامی کی وجہ بھی یوٹرن نہ لینے کو قرار دے ڈالا۔

پہلے اپنے اعلانات کو 100 روز میں پورا کرنا کا وعدہ کیا تھا پھر عوام کو چھ ماہ انتظار کرنے کا کہا گیا، اب دو سال سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد نہ تو ریاست مدینہ کا خواب پورا ہو سکا اور نہ تحریک انصاف اپنے وعدے پورے کرسکی۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں اتنی مہنگائی نہیں ہوئی جتنی اب ہے۔لوگ مہنگائی کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پرمجبور ہیں۔اشیاء خوردنوش کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت نے غریب آدمی سے منہ کا نوالہ تک چھین لیا۔ایک طرف مہنگائی عروج پر ہے دوسری طرف بے روزگاری میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

سبزیاں،دالیں، گوشت،مرغی،مچھلی،مصالحے لوگوں کی دسترس سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔پیٹرول، ڈیزل،مٹی کا تیل،آٹا،گھی، دالوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ہر بار عمران خان خود ساختہ مہنگائی کرنے والوں خلاف کارروائی کا اعلان کرتے ہیں لیکن جیت پھر بھی مافیا کی ہوتی ہے۔حالات تو یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ کل تک پاکستان چینی اور گندم دنیا کو دے کر زرمبادلہ کماتا تھا،آج یہ چیزیں پاکستان خریدنے پر مجبور ہے۔پاکستان روس سے ایک لاکھ اسی ہزار ٹن گندم خرید رہا ہے۔پتہ نہیں کہاں گئی ہے خان صاحب کی وہ معاشی ٹیم جن کا ذکر بار بار کینٹینر پر کھڑے ہوکر کیا کرتے تھے۔

دوسری طرف وزیراعظم پاکستان عمران خان کی تقریریں محض سیاستدانوں کو این آر او، سزائیں دلوانے پر محیط ہیں۔ایک عام آدمی کو ان باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا کہ کس کو گرفتارکر لیا ہے، کس کو این آر او نہیں دیا جائے گا بلکہ معاشی ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ عام آدمی کو معیشت سے متعلق اعداد و شمار،ملکی قرضے یا خسارے سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ صرف معیشت کو اشیائے ضرورت کی قیمتوں اور روزگار کے دستیاب مواقعوں کے پس منظر میں دیکھتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔غریب بیچارے اپنے بچوں کو بھوکا سلانے مجبور ہیں۔

ہر آدمی اس بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان ہے۔تبدیلی سرکار نے عوام کو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ادویات کی قیمتوں میں ڈھائی سو فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے اب 30 روپے میں ملنے والی گولی 100 روپے میں جا کر ملتی ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ہونے والے مختلف لیبارٹری ٹیسٹوں کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ کر دیا گیا ہے۔عمران خان نے مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے ٹائیگر فورس کو نامزد کردیا ہے۔

دوسری طرف حکومتی وزراء بالکل خاموش ہیں۔بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بد حالی اور غریبی کو روکنے کیلیے حکومت کو جدوجہد اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔مہنگائی روکنے کیلیے حکومت کو اپنے تمام وسائل کو قوت کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے،تاکہ غریب آدمی کا چولہا جلتا رہے اور وہ فاقوں سے بچ جائیں۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو غریبوں کی آہیں اس حکومت کو لے ڈوبیں گی۔