گوادر شہر کا شمار پاکستان کی مشہور شہروں میں ہوتا ہے۔ اس شہر کو تین اطراف سے سمندر نے گھیرہوا ہے۔ اس شہر کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ شہر خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے مگر افسوس کہ اس تحفہ کی قدر کسی کو نہیں ہے۔ گوادمیں دنیا کی سب سے بڑی اور گہری بندرگاہ موجود ہے۔ اس شہر پر بہت سارے ممالک کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں کیونکہ آنے والے وقتوں میں یہ شہر بہت بڑا کاروباری اور تجارتی مرکز بن جائیگا۔۔ گوادر بندرگاہ کو بنے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں مگراب تک ملک کو کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اس شہر کا دنیا بھر میں چرچا ہو رہا ہے۔
اور یہ شہر پانی،بجلی،اور گیس جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ یہاں تک کہ تعلیم اور صحت کے شعبہ کا بھی برا حا ل ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر میرین ڈرائیو گوادر کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔ کہ میرین ڈرائیو کا منظر سنگاپور، دبئی اور یورپ کا منظر پیش کرتا ہے، یہاں جو روڈ بنایا گیا ہے یہ صرف تین سے چار کلومیٹر کا ہے اور اسکی خوبصورتی کی وجہ ساحل سمندر ہے۔ اس روڈ سے گوادر کے عوام کو کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر گوادر شہر کے عوام کے لیے کچھ کرنا تھا تو ہسپتال، اسکول، ڈگری کالج، یونیورسٹیز بنائے جاتے۔
گوادر کے عوام پر رحم کرنا تھا تو بجلی،پانی اور گیس کی سہولت فراہم کرتے۔ گوادر کے معاملات میں مخلص ہوتے تو گوادر سے کراچی تک کا مکران کوسٹل ہائی وے کو ڈبل روڈ بناتے جو تقریباً چھ سو کلومیٹر کا ہے، اس پورے ہائی وے کو قدرت نے کئی تحفوں سے نوازا ہے اس ہائی وے کے ایک طرف بحیرہ عرب کا سمندرہے اور دوسری طرف قدرتی نقش و نگار سے بنی پہاڑیاں اور گہری وادیاں ہیں۔ مکران کوسٹل ہائی وے کی بہت سے مقامات کو سیرو تفریح کے لیے بنایا گیا ہے ان میں کنڈ ملیر، اورماڑہ اور پسنی کا جڈی بیچ وغیرہ شامل ہیں۔ اس ہائی وے پر رات کے وقت سفر کرنا نہایت مشکل ہے۔ جبکہ گوادر کے سیاسی نمائندوں نے صرف یہ چھوٹا سا روڈ بنا کر اس پر لا ئیٹنگ کرکے اپنی سیاست چمکارہے ہیں۔