|

وقتِ اشاعت :   October 16 – 2020

بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر گزشتہ چند سالوں کی متواترحادثات اور بیگناہ افراد کی اموات کی شرح کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قومی شاہرائیں دراصل صوبے کے لئے خونی شاہرائیں بن چکی ہیں۔ قومی شاہراہیں جن میں کوئٹہ تا کراچی‘ کوئٹہ تا لورالائی ملتان‘ کوئٹہ تا ژوب ڈیرہ اسماعیل خان‘ کوئٹہ تاسبی جیکب آباد اور کوئٹہ تاتفتان کی شاہرائیں سنگل ہونے کی وجہ سے خونی شاہرائیں کہلائی جارہی ہیں۔کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ٹریفک کی زیادتی کے باعث حادثات اور اس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

گزشتہ 24گھنٹوں میں بھی صوبے کی مختلف شاہراہوں پر ٹریفک حادثات ریکارڈ ہوئے جس میں کوئٹہ کراچی شاہراہ 25کی تعداد سب سے زیادہ ہے اس کی وجہ کراچی شہر ہے جو بلوچستان کے لوگوں کے لئے روزگار سمیت علاج معالجے اور تعلیم کا ذریعہ بن چکا ہے بلوچستان سے قریب پڑنے کی وجہ سے آج ہر شہری کی رسائی کراچی تک انتہائی آسان اور کم خرچ ہے بلوچستان کا شاید کوئی ایک آدھ شہری کراچی کا”یا ترا“ نہ کر چکا ہو ورنہ ہر شخص نے اس شہرکے درجنوں چکر لگائے ضرور ہوں گے اپنی اپنی ضرورتوں کے حساب سے اس لیے اس شہر کے لئے جانے والی پرائیویٹ کوچز‘ ٹوڈی گاڑیوں سمیت پرائیویٹ دیگر گاڑیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

پے در پے اموات نے یہاں کے ہر شہری کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے، نامور شخصیات جن میں کمشنر مکران‘ پروفیسرز‘ فٹ با ل کے کھلاڑیوں سمیت درجنوں افراد اب تک اس شاہراہ پر اپنی قیمتی جان گنوا بیٹھے ہیں ان اموات کے بعد بلوچستان اسمبلی‘ قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی اس بارے آواز بلند کی گئی کہ کیا وجہ ہے کہ بلوچستان کی یہ قومی شاہراہیں بلوچستان کو دیگر صوبوں سے ملانے کے لئے اور دو بڑی سرحدات یعنی چمن کے راستے افغانستان اور تفتان کے راستے ایران تا یورپ کو ملانے والی اہم سڑکیں آج بھی سنگل ٹریک ہیں۔

دوسری طرف کوئٹہ تا تفتان سے زاہدان بذریعہ ٹرین سروس بھی مکمل طورپر معطل ہے۔ ورنہ اگر ہماری حکومتیں بشمول صوبائی اور وفاقی یہ اقدامات کرتیں کہ جدید ٹرینوں کے ذریعے کوئٹہ تا ترکی سروس مہیا کرتیں تو اس سے ان حکومتوں کو بے پناہ زر مبادلہ حاصل ہوتا اور ان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے بھی یہ روٹ منافع بخش رول ادا کرتا لیکن کیا کیا جائے ہماری منفی سوچوں اور تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ذہنوں میں ا سطرح کے منافع بخش سوچیں پنپ نہیں سکتیں۔ جب وزیر ریلوے کی تعلیم ہی واجبی ہو تو اس کی سوچ بھی واجبی ہوگی، کوئی پی ایچ ڈی طرز کی سوچیں اس کے ذہن میں نہیں سمو سکتیں۔

یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ سے ایران کے راستے ترکی اور یورپ کو جوڑنے کا خواب آج تک پورا نہ ہوا بلکہ ملک کی تاریخ میں یہ کبھی ہوگا بھی نہیں،میں تو اسے ناممکن قرار دیتا ہوں کیونکہ بلوچستان کے ساتھ وفاق اوروفاقی وزراء کا منفی رویہ بلوچستان کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ کس طرح صوبے کے ساتھ گزشتہ ستر سالوں سے رویہ روا رکھا جارہا ہے،اب دیکھئے کہ سی پیک جو کہ بلوچستان کے سرحدی شہر گوادر کی وجہ سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے لیکن اس کے فوائد تین دیگر صوبوں کو تواتر کے ساتھ دیا جارہا ہے چاہے وہ قومی سڑکوں کے نام پر موٹر ویز کی تعمیر ہو یا اکنامکس رونز کا قیام‘ اس میں بلوچستان کا نام سرے سے موجودہی نہیں۔

بلکہ کئی مرتبہ ایسی خبریں پڑھنے کو ملیں کہ سی پیک کی بدولت ملکی سطح پر جو میٹنگز منعقد ہوتی ہیں ان میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو مدعو تک کرنے کو گوارا نہیں کیا جاتا،صوبے کو اہمیت دینا تو دور کی بات جب وزیراعلیٰ کو اس میں مدعو ہی نہیں کیا جاتا تو اس سے حکمرانوں کی بد نیتی کا صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر بلوچستان کے عوام اور اس صوبے کی ترقی کے لئے مخلص ہیں۔سی پیک کے نام پر تینوں صوبوں میں موٹر ویز بنائی گئیں حالانکہ سڑک کے ذریعے گوادر تا پشاور یا راوالپنڈی تک کا فاصلہ بلوچستان کے راستہ سب سے کم اور قابل عمل بھی ہے۔

لیکن اس کے باوجود یہ موٹر وے کراچی حیدر آباد‘لاہور تک تعمیر کی گئی بقول ایک سینیٹر صاحب کے کہ جب ہمیں چین کے دورے پر لے جایا گیا تو ہمارا سوال بھی چینی حکام سے یہی تھا کہ بلوچستان کے راستے چین سمیت افغانستان اورایران کے لئے یہ شاہراہیں انتہائی کم فاصلے اور منافع بخش ثابت ہوسکتی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ بلوچستان کو مسلسل نظر انداز کیاجارہا ہے۔ اس پر چینی حکومت کے نمائندوں نے برملا کہا کہ ہم آپ کی ملکی معاملات میں نہ تو مداخلت کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی پالیسی دے دسکتے ہیں اگر بلوچستان میں موٹر ویز تعمیر نہیں کی جا رہیں۔

تو اس کے ذمہ دار چین نہیں آپ کی حکومتیں ہیں جن کے دئیے گئے منصوبوں پر چین بطور ملک اپنا کردار ادا کرتا چلا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ چین ہی کے تعاون سے تینوں صوبوں کو جی ٹی روڈ ہونے کے باوجود موٹر ویز سے بھی منسلک کردیاگیا، ایک بد قسمت صوبہ بلوچستان ہے جس کی سنگل سڑکوں پر موت کا راج لگا رہتاہے کم فاصلوں کے باوجود یہ ہمارے حکمرانوں کے لئے موزوں ثابت نہیں ہورہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کی قومی شاہراہیں موٹر ویز سے محروم ہیں ”خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا“ کے مصداق وفاقی حکومت یعنی نیشنل ہائی ویز کے ذریعے ملکی تاریخ میں ایک نئی پالیسی۔

کے تحت کوئٹہ تا کراچی BOTکی بنیاد پر شاہراہ کی ڈبل ٹریک بنانے کی نوید سنائی دی لوگوں نے خوشیاں منائیں لیکن ان کی خوشیاں چند دنوں کیلئے تھیں جب BOTکا مطلب دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا مطلبBuild+Operate+ transferیعنی تعمیر ایک کمپنی کو سونپنا‘ تاکہ وہ کوئٹہ تا کراچی تک درجنوں ٹول پلازہ قائم کرکے ہر آنے اور جانے والی ٹرانسپورٹ اور گاڑیوں سے اپنی ”لگائی جانے والی سرمایہ کاری ”کو سود سمیت واپس وصول کرے, یہ ٹول پلازہ سینکڑوں کی تعداد میں ہوں گے یعنی ایک ایک بلوچستانی کی جیب سے رقم نکالنے کا منصوبہ ہے۔

جس کی اس ملک کی تاریخ اور روایت میں کوئی مثال دیکھنے کو نہیں ملتی،اس کے تحت ہر پچاس کلو میٹر پر ٹول پلازہ تعمیر کرکے مہنگا ترین ٹیکس لگا کر ہر شہری سے بار بار اور مسلسل وصولی کی منصوبہ بندی ہے، اس پر قومی اسمبلی اور سینٹ میں بلوچستان کے نمائندوں نے اپنا احتجاج بلند کیا لیکن وفاق میں موجود حکمران ”نہیں ماننا“ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سردار اختر مینگل کو قومی اسمبلی میں یہ تک کہنا پڑا کہ بلوچستان اس ملک کا مفتوحہ صوبہ ہے یا کچھ اور یہی وجہ ہے کہ ہماری باتیں سنی نہیں جار ہیں ہر سطح پر بلوچستان کو نظر انداز کیا جارہا ہے چاہے۔

وہ نواز شریف کی حکومت ہو یا عمران خان کی اسلام آباد میں ”مخصوص مائنڈ سیٹ“ تو ایک ہی جیسا ہے اس کے بدلنے کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے صرف نواز شریف یا عمران خان کی صورت میں چہرے تبدیل کیے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور سردار اختر مینگل کے درمیان چھ نکات پر طے پانے الے معاہدات دستخط اور حلفیہ قسمیں کھانے کے بعد بھی پورے نہ ہوئے جس کا خدشہ شروع دنوں سے تھا۔یہ معاہدات آئندہ بھی اس صورت حال سے دو چار ہوں گے اچھے دنوں کی امید رکھنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔