” بلوچستان جارہے ہو! پاگل ہو گئے ہو! کیوں یہ خطرہ مو ل لے ر ہے ہو!نہ جاؤ۔ جاؤ گے گا ڑی میں ا ور آؤ گے اخبار میں “۔ ا ن خدشات کا اظہار کچھ خیرخواہوں نے کیا جب اْن کوجواباً کہا کہ میں کوئی پہلی دفعہ نہیں جارہا تو جواب ملا کہ ” پہلے سرزمین میرے لیے ہمیشہ پْرکشش رہی ہے۔ اسکی وجہ یہاں یہا ں کے باسیوں کی مہمان نوا زی میں لپٹی محبت ا ور خلوص ہے۔ میں پہلے جب بھی بلوچستان گیا تو یہاں گزا رے گئے دنوں میں جو راحت ا ور رات کو میسر آنے والا سکون زندگی میں کہیں نہیں ملا۔یوں یہ تما م خدشات میرے سامنے ریزہ ریزہ ہوگئے ا ور میں نے رختِ سفر باندھ لیا۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ا ور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ یعنی ملکی رقبے کا چوا لیس فیصد ا ور آبادی کا صرف چار فیصد ہے۔ بلوچستان کی آبادی تقریباً لاہور شہر جتنی ہے ا ور رقبہ پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان ا ور آزاد کشمیر کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ ہے۔ یوں یہاں کی وسعتوں ا ور بیابانوں کا اندا زہ لگا یا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس کی سرحدیں دو ممالک اور تین صوبوں سے ملتی ہیں ا ور ایک وسیع سمندری ساحل اسکی خوبصورتی کو چارچاند لگاتا ہے۔
بلوچستان کی سرز مین کو قدرت نے خوبصورتی کے تمام جْز عطا کیے۔ میدا ن،پہاڑ، صحرا، دریا ا ور سمندر اپنے حْسن کے جوبن پر نظر آتے ہیں۔ ساحل سے لے کر سطح سمندر سے گیارہ ہزا ر فٹ بلندی کی وجہ سے بیک وقت کئی موسم اس صوبے کا مقدر ہیں۔ بظاہر بنجر زمین ا ور سنگلاخ پہاڑ وں میں پیدا ہونے والے پھل اپنے اند ر اتنی مٹھاس ا ور ذائقے سموئے ہوہے ہیں کہ دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔کوہ سلیما ن سے اْبھرتی سورج کی پہلی کرن نے بلوچستان میں استقبال کیا۔ ژوب کے تازہ انگور نے سفر کی ساری تھکان دور کر دی۔
قلعہ سیف اللہ، کان مہترزئی ا ور خانوزئی کے باغات میں لگے درختوں پر سْرخ سیب اس بات کی دلیل تھے کہ یہاں کے کسان کو اپنی محنت کا پھل ملنے والا ہے۔ کوئٹہ پہنچ کر اپنے میزبان کو آنے کا مقصد بیان کیا کہ پورا صوبہ گھومنا ہے ا ور خیرخواہوں کے خدشات سے بھی آگاہ کیا۔ تفصیلی جواب نے تمام خدشات کو مفروضے قرا ر دے دیا ا ور کہا گیا کہ ذمہ دا ر حکومتی ادا روں کے موثر اقدامات و انتظامات کی بدولت بلوچستان امن کا گہوا رہ ہے۔ ملک دشمن عناصر کی غلط افواہوں نے یہاں کی پْرامن فضا کو بدنام کیا ہوا ہے۔کسی بھی وقت جہاں مرضی جاؤ۔
بہترین ا ور محفوظ سڑکیں آپکی منزل قریب کردیں گی۔ میزبان کی اس نشست نے میرے حوصلے کو مضبوط کردیا۔ سفر کے پہلے حصے میں کوئٹہ سے نکل کر زیار ت کی راہ لی۔ یہاں کے مخصوص ذائقے ا ور مٹھاس والے سیبوں کی طرح زیارت کے لو گ بھی اپنی زبان ا وردل میں ایک خاص مٹھاس رکھتے ہیں۔ یہاں کے ایک مقامی دوست جوکہ ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہے نے بھی خدشات کو افواہیں قرا ر دیتے ہوئے ہمارے شوقِ سفر کو آبِ حیات پلایا۔زیارت سے سنجاوی ا ور پھر لورالائی پڑا ؤ ڈالا۔ یہ علاقہ سیب، چیری ا ور بادا م کی پیدا وا ر کے حوالے سے مشہور ہے۔
آجکل کسان بادا م ا ور سیب کی تیار فصل کو سنبھال رہے تھے۔ لورالائی سے نکل کر قلعہ سیف اللہ، مسلم باغ ا ور کان مہترزئی سے ہوکر واپس کوئٹہ پہنچ گیا۔ سفر کے دوسرے حصے میں کوئٹہ سے مستونگ، قلات،سوراب، بسیمہ ا ور ناگ سے ہوتے ہوئے پنجگو ر پہنچا۔ پنجگور میں رات کے قیام کے بعددرہ ِ گورا ن ا ور پنوں کے دیس تربت سے ہوتے ہوئے پاکستان کی نئی بندرگاہ گوادر منزل ٹھہری۔ گوا رد میں ساحل پر غروبِ آفتاب کا منظر دلنشین تھا۔ ا ور پھر رات کو چودھویں کے چاند میں بری سمندری لہروں نے سفرِ بلوچستان کو یادگار بنا دیا۔ اگلا پورا دن مکرا ن کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ سفر نے نئی دنیا سے روشناس کرایا۔
پسنی، او رماڑہ ا ور کْنڈملیر کے دلفریب سنہری ساحل نے تو ایساجادو کردیا کی طویل سفر کا احساس ہی نہ ہوا۔ “اْمید کی شہزادی” سے ا ٓنکھیں چار کرتے ہوئے رات لسبیلہ میں بسر کی۔ سفر کے آخری مرحلے میں لسبیلہ سے وڈھ ا ور خضدا ر سے ہوتے ہوئے واپس کوئٹہ پہنچ گیا۔ سفرِ بلوچستان میں کوئی دو درجن سے زائد شہری ا ور کئی دیہی آبادیوں کو دیکھنے ا ور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ بازا روں کی چہل پہل وہی ہے جو باقی ملک کے بازا روں کی ہے۔ وہی دکانیں، وہی سامان، وہی گاہک ا ور ہوٹلوں پر نان کے ساتھ قہوہ پیتے لوگ زندگی کو رواں دوا ں رکھے ہوئے ہیں۔
یہاں کے لوگ انتہائی محنتی، جفاکش، دیانتدا ر ا ور محبت کرنے والے ہیں۔ یہاں کا کسان اتنا محنتی ہے کہ پتھروں کا سینہ چیر کر پھل، سبزیاں ا ور اناج پیدا کر رہاہے۔ یہاں کا مزدور اتنا جفاکش ہے کہ کوسوں لمبے سفر اس کی ہمت کو طاقت عطا کرتے ہیں۔ یہاں کا دکاندا ر اتنا دیانتدا ر ہے کہ دنوں کا سفر طے کرکے اپنی دکا ن پر سامان اس لیے لاتا ہے کہ اس کی بستی والے ز ندگی کی ضروریات حاصل کر سکیں۔ راہ چلتے لوگوں کے چہرے اطمینان ا ور سکون کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ سکولو ں ا ور کالجوں کو جاتے طلبا کے قدم ترقی یافتہ بلوچستان کی طرف بڑھتے قدم ہیں۔
یہاں کے سرکاری اہلکار اپنی ذمہ دا ریوں کے انتہائی پابند ہیں۔ سیلوٹ ہے یہاں کے قانون لاگو کرنے والے ادا روں کو جنھوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر یہاں کا امن قائم رکھا ہوا ہے جس کی بدولت پورے سفر میں کہیں بھی کوئی ڈر خطرہ محسو س نہیں ہوا۔ حکومتِ بلوچستان بلا شبہ داد کی مستحق ہے کہ جس نے پورے صوبے میں موٹروے کی طرز پر سڑکوں کا جال بچھایا ہوا ہے۔ تربت کانام سنتے ہی میرے ذہن میں پسماندگی کا ایک خاکہ بنا ہوا تھا جو تربت کو د یکھ ادل پارہ پارہ ہو گیا۔ تربت تو ایک ایجوکیشن سٹی ہے ا ور اس کا مقابلہ ملک کے کسی بھی ترقی یافتہ شہر سے کیا جاسکتا ہے۔ اس سارے سفر نے میرے دل پر مہر لگا دی کہ بلوچستان ایک پْرامن خطہ ہے۔
محفوظ بلوچستان کے پیچھے جو عوامل کار فرما ہیں وہ فلاح و بہبود، امن ا ور ترقی ہیں۔ پہلی سیڑ ھی عوا م کی فلاح و بہبود ہے جس میں لوگو ں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جانا ہے۔ تب امن قائم ہوتا ہے۔ ا ور امن سے ترقی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ تقریباً چار ہزا ر کلومیٹر کے اس سفر نے مجھے یہ یقین دلادیا ہے کہ بلوچستان اپنی ترقی کی جانب گامزن ہے۔ ترقی کا یہ سفر مزید آسان ا ور تیز ہو سکتا ہے اگر اس میں ایمان، احسان ا ور اخلاص کو شاملِ سفر کیا جائے۔ یعنی اللہ تعا لیٰ کی ذات پر کامل ایمان کہ و ہی جو ہر چیز پر قادر ہے۔ ایمان کے ساتھ کی گئی کوششوں کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
کوشش اس حسن کے ساتھ کی جائے کہ کامیابی کا معیار انتہائی اعلیٰ درجے کا ہو۔ ا ور یہ سب کچھ اخلاص سے ہو یعنی صرف ا ور صرف اللہ کی رضا کے لیے۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ فلاح و بہبود، امن ا ور ترقی کے ساتھ جب ایمان، احسان ا ور اخلاص شامل ہوں گے تو دنیاایک نیا بلوچستان دیکھے گی انشاء اللہ۔ بلوچستان قدرتی وسائل کے لحاظ سے مالامال صوبہ ہے۔ لیکن جہاں قدرت نے اس صوبے کو وسائل کی دولت سے نوا زا ہے وہاں کچھ مسائل بھی قدرتی طور پر اس کا مقدر بنے ہیں۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ زمینی فاصلے ہیں۔ آبادی بہت کم ہے ا ور رقبہ زیادہ ہے۔ ایک یونیں کونسل کا رقبہ پنجاب کے ایک ضلع جتنا ہے۔
ا ور پورے یونین کونسل کی آبادی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں جتنی ہے۔ ا ن حالات میں انفراسٹرکچر مہیا کرنا حکومت کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ یہاں کے قدرتی وسائل میں سب سے زیادہ حصہ ماربل ا ور قیمتی معدنیات جیسے گرینائٹ ا ور سنگِ سلیمانی ہے۔ پاکستان کے ماربل کے ذ خائر کا نوے فیصدبلوچستان میں پایا جاتا ہے لیکن ماربل کے پروسسنگ پلانٹس کا صرف پانچ فیصد اس صوبے میں موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر بلوچستان کو دیرپا ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو یہاں انْ صنعتوں کا قیام لازمی ہے۔
جن کا خام مال یہاں موجود ہے۔ یہاں کے تازہ ا ور خشک فروٹ کی مانگ پوری دنیا میں لیکن ا ن کے پروسسنگ پلانٹس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کوئٹہ سے واپسی پرژوب میں رستہ پوچھنے کے لیے جب ایک تندور والے کے پاس رکا توتندورچی نے روٹی لگاتے ہوے اپنا کام روک کر رستہ سمجھایا ا ور جب میں نے اس کا شکریہ ادا کیا تو اسکے الفاظ میرے سینے میں پیوست ہوئے کہ مجھے بلوچستان سے نکلتے وقت یقین ہو گیا کیا یہ زمین کل بھی پْرا من تھی ا ور اسکا مستقبل بھی پْرامن ا ور روشن ہے۔ ” ٹھہریں چائے پی کے جائیں “۔ ا ن الفاظ کو بولتے وقت اس تندورچی کے چہرے پر جو محبت ا ور خلوص تھا اس کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔
آخر میں اتنا کہوں گا کہ اگر کسی کے دل میں خدشات ہیں تو ا ن کو نکال باہر کریں ا ور جائیں بلوچستان کے حْسن ا ور ذائقوں سے لطف ا ٹْھائیں۔ یہ خطہ خوبصورتی ا ور روایتی کھانوں میں گلگت بلتستان، کشمیر، نارا ن کاغان، سوات ا ور چترا ل سے بہت آگے ا ور ایسا ہی محفوظ ہے جیسے باقی سارا ملک ہے۔ زیارت کا سیب ا ور چیری، لورالائی کا بادا م، ژوب کا انگور، پنجگور کی کھجور، گوادر کی مچھلی ا ور روایتی بلوچی کھانے کھڈا کباب، دم پختْ، نمکین روسٹ، سجی، لاندھی ا ور پْاؤ آپ کا منتظر ہے۔ ا ور سب سے اہم وہ بلوچ ہے جو آپ کی راہ میں دیدہ و دل بچھانے کے لیے بیتاب ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کو ا ور اس کے ہر خطے کو دشمن کی سازشوں سے محفوظ رکھے ا ور ہماری حفاظت پر مامور جانبازوں کو ہمت ا ور طاقت عطا کرے۔ آمین۔