وہ کہتے ہیں نا تعلق سے، دوستوں سے،انسان کی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے میں تو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کہ کون کس خاندان سے ہے کس قبیلے سے ہے، کس کا کتنا قریبی تعلق ہے کتنا پرانا تعلق ہے اور کیسا تعلق ہے، کیسا رشتہ ہے، ماضی میں ایک دوسرے کے بارے میں کیسے کیسے خیالات کا اظہارہوتا رہاہے، اور اسی بنیاد پر مستقبل کو دیکھاجاتا ہے، حالات بھی بدلتے رہتے ہیں لیکن بنیاد کبھی نہیں بدلتی، اب اگر ہم پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ماضی کو دیکھیں، ان کے تعلق کو دیکھیں اور کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی نفرتیں گنناشروع کریں تو کئی گھنٹے لگ جائیں گے۔
پھر بھی ان کی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں اور نفرتیں گن نہیں پائیں گے، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بہت نازیبا الفاظ کا اظہار بلاول بھٹوزرداری ن لیگ کے قائد نواز شریف کے لئے ادا کرتے رہے ہیں اور مفاہمت و سیاست کے پروفیسر ڈاکٹرآصف علی خان زرداری بھی ایسے کلمات ادا کرتے رہے ہیں کہ نوازشریف اور ان کے چاہنے والوں کی آنکھوں اور کانوں سے خون رستا دیکھاجاسکتاتھا، اور اسی طرح نوازشریف، مریم نواز اور شہباز شریف نے تو ریکارڈ قائم کئے ہوئے ہیں۔پیپلزپارٹی کے شان میں گستاخی کرنے کے۔
اب اگر اس ماضی کو جتنی بھی کوشش کی جائے ذہنوں سے نکالنے کی اور موجودہ اپوزیشن کے اتحاد کی ان دونوں مرکزی جماعتوں کے موجودہ تعلقات کی بنیاد پر پرکھاجائے تو بھی پی ڈی ایم کا مستقبل مضبوط اور طویل نہیں دکھ رہا، ویسے بھی دونوں کی منزل میں بڑا فرق ہے، اس اتحاد میں اگر سامنے نظرآنے والی دراڑوں کو گناجائے تو پہلی بہت گہری دراڈ میاں نوازشریف کے گجرانوالہ کے جلسے سے خطاب نے ڈال دی تھی، دوسری دراڈ پروفیسرڈاکٹرآصف علی خان زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی ملاقات میں اس فیصلے پر پڑی جب نوازشریف کو کراچی کے جلسے میں خطاب سے روکا گیا۔
یہ بھی اطلاع ہے کہ ایک فون کال نے نوازشریف کی طبیعت خراب کردی ہے، ن لیگ والوں نے غصہ کیا پھر کہا کہ نواز شریف کا تو گلہ ہی خراب ہے وہ تو تقریر کرہی نہیں پائیں گے، اور تیسری دراڈ سندھ حکومت نے صفدراعوان کو ہوٹل کے کمرے سے گرفتارکرکے تھانے میں ٹھکائی لگاکر ڈال دی۔ مریم نواز اپنے شوہر کی گرفتاری کے اس انداز سے اور تھانے میں پیش آنیوالے رویئے پرسندھ حکومت اور اپنے اتحادی قائدین سے احتجاج کرتی رہیں لیکن بات ایک کان سے سنی گئی اور دوسرے سے نکال دی گئی، کیونکہ سندھ حکومت کو اندازہ تھاکہ صفدر اعوان نے آخرکیا کیا ہے۔
اور عوامی دباؤ کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی دباؤ ہیں، اسی لئے قانون نے اپنا راستہ بنایا، اس معاملے پر اکثریت میں پاکستانی قوم نے صفدر اعوان کے قائد اعظم محمدعلی جناح کے مزار کی بے حرمتی پر غصے کا اظہار کیاتھا، اور مطالبہ کیا تھاسخت کاروائی کا، اب معاملہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں کے بیانیے اور مقاصد میں بہت فرق ہے۔ اتحاد میں دکھنے والی دراڑوں کے علاوہ بھی کئی ایسی دراڑیں ہیں جو ابھی تو منظرعام پر نہیں آئیں لیکن قوی امکان ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کے ایک دوسرے پر غصے، نارضگیوں اور پرانے زخموں کی بناء پر اعتماد میں موجودہ فقدان بڑھے گااور اندر کی باتیں سامنے آنے لگیں گی۔
پیپلزپارٹی میں لیگ کیساتھ اپوزیشن اتحاد میں ساتھ چلنے اور ن لیگ کے بیانیئے کا ساتھ دینے پر سینیئر رہنماؤں نے سخت احتجاج کیا ہے اور جیسے جیسے وقت گزررہاہے پیپلزپارٹی کا بیانیہ ن لیگ کے بیانیئے سے واضح طور پرالگ ہوتا جارہاہے۔دوسری طرف ن لیگ کے بعض لیڈران بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ چلنے پر خوش نہیں ہیں، اب ایسے اتحاد کا کیا بنے گا جس کاکوئی پرچم نہیں، کوئی مستحکم اور مستقل بیانیہ نہیں، اور اگر صرف ایک پوائنٹ کو لیا جائے کہ عمران خان کو وزیراعظم نہیں رہنے دینگے، حکومت نہیں چلنے دینگے، چالیس پچاس ہزار یا ایک لاکھ لوگ جمع کرکے حکومت گرانے کی بات کریں ویسے تو ممکن ہی نہیں ایسا ہوبھی جائے۔
لیکن اگر فرض کریں یہ حکومت پی ڈی ایم کے احتجاجی جلسوں سے ختم ہوجائے تو پھر کیا آنے والی کوئی بھی حکومت رہ پائے گی؟ پھر تو ایک لاکھ کے جواب میں پانچ لاکھ لوگ احتجاج کرنے نکالے جائیں گے اور کہیں گے استعفیٰ دو ہم تو زیادہ ہیں، اس لئے ان جلسوں سے حکومت نہیں جانے دی جاسکتی، یہ سب کو علم ہے۔ اب بچا ایک اور آخری راستہ اس کیلئے مولانا فضل الرحمان تو تیارہیں بس ہمت کرنی ہوگی پیپلزپارٹی کوکہ وہ اپنے استعفے مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ میں دے، اور اپنی ساڑھے بارہ سال سے جاری سندھ حکومت کا خاتمہ کرے۔
جوپھر ایک احمقانہ عمل ہوگا پیپلزپارٹی کیلئے، اب اگر استعفے ہی نہیں دیتے تو اگلا مرحلہ کیسے شروع ہو؟ استعفے دیں تو پتا چلے کتنے ہیں اور کیا حکومت ضمنی انتخابات کروا کر اپنی پوزیشن مضبوط کرکے پھر قوم کا پیسہ واپس کرو کی مہم تیز کردیگی؟ تو اپوزیشن کے پاس کیا بچے گا، اپوزیشن پہلے ہی نوازشریف کے بیانیئے کے ہاتھوں اسٹبلشمنٹ سے بہت دور ہوتی چلی جارہی ہے جس سے مسلسل نقصان اتحاد میں شامل مختلف پارٹیوں کے قائدین کو ہورہاہے جو اتنی بڑی قربانی دینے اس اتحاد میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔کراچی کے جلسے میں مقامی لوگوں کا حصہ نا لینا بھی اپوزیشن اتحاد کیلئے سنگین صورتحال ہے۔
اور قائدین کاکراچی کی پسماندہ اور بدحال صورتحال پر تشویش کا اظہار نا کرنابھی کراچی والوں کو اپوزیشن اتحاد سے دور کر رہاہے، جبکہ کراچی کے صنعتکارتو پہلے ہی کراچی کے مسائل کا حل فوج سے طلب کرچکے ہیں، اور بچا مہنگائی کا مسئلہ جو اس وقت حقیقتاً پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جسے پہلے تو میڈیا نے اٹھایاپھر اپوزیشن اتحاد نے آگے بڑھایا اور خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت نے برملا تسلیم کرنا شروع کردیا ہے مہنگائی ہے اور بہت ہے اب دیکھتے ہیں کہ کیسے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مہنگائی پر قابو پاتی ہیں اور جب مہنگائی پر کسی حد تک قابو پالیاگیا۔
تو اپوزیشن اتحاد کے بیانیے میں مزید کمی واقع ہو جائے گی۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان بہت عرصے بعد آستینیں چڑھائے جارحانہ اندازمیں یہ دعویٰ کرتے ہوئے سامنے آئے کہ نوازشریف کو واپس لائیں گے، یہ بہت مشکل چیلنج عمران خان نے لے لیاہے، کیونکہ نوازشریف کو واپس لانا اتنا آسان نہیں یہ وہ خود بھی جانتے ہیں، اور بھی چیلنجز ہیں جن میں سب سے بڑا چیلنج تسلسل کے ساتھ بھارتی سازشوں کا مقابلہ کرنا اور انہیں بے نقاب کرنا ہے، بھارت کھل کر پاکستان کے اندر اور باہر پاکستان کیلئے مسائل پیدا کرنے میں لگا ہوا ہے۔
اورایسے میں حکومت کیلئے ملک میں امن و امان قائم رکھتے ہوئے معیشت کو بہتری کی طرف لیکربڑھنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اس ساری صورتحال میں اپوزیشن کے اتحاد کا اگلا اسٹیشن کوئٹہ ہے دیکھنا ہے کہ اس دوران اور کتنی دراڑیں اپوزیشن اتحاد میں آتی ہیں اور کس طرح اپوزیشن اتحاد کے قائدین اس اتحاد کو فساد سے بچاسکتے ہیں۔
EMAIL:FAYSALAZIZKHAN@GMAIL.COM