پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی احتجاجی تحریک کا آغاز گوجرانوالہ اور کراچی کے بڑے اور کامیاب عوامی اجتماعات سے کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت کو اپوزیشن اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے اور یہ دعویٰ بھی کر رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں کوئٹہ، پشاور، ملتان اور لاہور کے جلسوں میں بھی اسی طرح لوگوں کا ہجوم امڈ آئے گا اور موجودہ حکمرانوں کو دسمبر دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔ گوجرانوالہ جلسہ عام سے خطاب میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے موجودہ آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بنا کر ملکی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ “قمر جاوید باجوہ آپ ہی اس قوم کی مسائل کا موجب ہیں – آپ نے ہماری حکومت کو چلتا کروایا” ججوں سے زور زبردستی سے فیصلے آپ نے کروائے، آپ نے اپنی مرضی سے ایک نااہل ٹولہ اس قوم پر مسلط کیا، جس کے نتیجہ میں ہونے والی بربادی کے ذمہ دار آپ ہیں اور اس کا جواب آپ کو ہی دینا ہوگا۔ پیمرا کی پابندی کے باعث نواز شریف کا خطاب براہ راست قومی میڈیا نے نشر تو نہیں کیا لیکن سوشل میڈیا پر یہ خطاب نشر ہوا جس شدت کے ساتھ اس تقریر پر تنقید ہورہی ہے لگتا ہے اسے سوشل میڈیا کے ذریعہ بڑے پیمانے دیکھا اور سنا گیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا بھی نواز شریف کی تقریر کے خلاف متوقع اور سخت رد عمل سامنے آیا انھوں نے اسلام آباد ٹائیگرز فورسز کنونشن سے خطاب میں کہا کہ یہ حملہ جنرل باجوہ پر نہیں بلکہ پاکستانی فوج پر ہے یہ فوج اور حکومت کے درمیان دراڑ ڈالنا چاہتے ہیں، آج سے میری پوری کوشش ہے کہ تمہیں ملک میں واپس لایا جائے اس مرتبہ کوئی وی آئی پی جیل نہیں ہوگی بلکہ عام جیل میں ڈالا جائے گا۔عمران خان نے جوشیلے انداز میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب انہیں ایک نیا عمران خان نظر آئے گا۔ نیا پاکستان تو ہے اب نیا عمران خان بھی ہو گا۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز پر بھی خوب تنقید کے نشتر چلائے ان کہنا تھا کہ یہ اپنے دونوں باپوں کی حرام کی کمائی پر پلے ہوئے ہیں، ان پر تبصرہ کرنا فضول ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر کے دوران جب انھوں نے اپنے توپوں کا رخ نواز شریف اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کیا تو ان کے چہرے پر غصہ،نفرت اور اشتعال واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا یوں لگ رہا تھا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کی”حکومت گراؤ تحریک“اور نواز شریف کی جارحانہ تقاریر سے سخت پریشان اور مضطرب ہیں۔
اسی طرح ان کے ترجمانوں کی فوج اور وفاقی وزراء کی طرف سے ہر گھنٹے بعد میڈیا ٹاک کرکے اپوزیشن رہنماؤں کو غدار، ملک دشمن، چور، ڈاکو اور کرپٹ قرار دینے اور اس سے بھی زیادہ سخت اور نازیبا کلمات کی ادائیگی سے لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے چلائے جانے والے تیر درست نشانے پر لگ رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے دونوں جلسوں کا تقابلی جائزہ لیں تو سب بڑا اور واضح فرق یہ نظر آئے گا کہ گوجرانوالہ کے جلسہ عام کے انعقاد میں اپوزیشن کو پنجاب حکومت کی طرف سخت مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
گوجرانوالہ جلسہ عام کو ناکام بنانے کے لیے پنجاب حکومت نے وہ تمام ہتھکنڈے اور حربے استعمال کئیے جو غیر جمہوری حکومتوں کے ادوار میں استعمال ہوتے رہے ہیں پہلے تو جلسہ عام کی اجازت نہ دینا،جلسہ سے متعلق بینرز اور بل بورڈز کو اتارنا، کرونا ایس او پیز کو جواز بنا کر کارنر میٹنگز پر پابندی عائد کرنا، خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرنا، کارکنوں اور رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارنا اور گرفتاریاں کرنا جلسے سے صرف دو دن پہلے مشروط بنیادوں پر اجازت دینا لیکن راستوں کو کنٹینرز کے ذریعہ بند کرنا ایسے اقدامات تھے جس سے حکومت سمجھتی تھی کہ شاید اپوزیشن کے کارکنان اور رہنما مرعوب ہوں گے۔
اور عوام بھی شرکت کرنے سے گریز کرے گی لیکن ان کور چشموں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ انھوں نے اپنی اس ناعاقبت اندیشی سے اس جلسہ عام کو ملکی اور بین الاقوامی مسئلہ بنا دیا تھا۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے اس کی مخالفت خود اس کی تشہیر کا سبب بنا اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے جلسہ عام میں شرکت کرکے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کیا۔کراچی کے جلسہ عام کو کامیابی اس لئیے بھی ملی کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع سے بھی لوگوں کی بڑی تعداد کو جلسے میں شرکت کے لئیے لایا گیا۔
اس کے علاوہ جے یو آئی (ف) کراچی میں ایک سیاسی طاقت کی حامل ہے انھوں بغیر کسی اتحاد کے کراچی میں مختلف اوقات میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اب چونکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خود ہیں اس لئیے جے یو آئی کے لئیے بھی جلسہ عام کو کامیاب بنانا ایک چیلنج بن گیا تھا۔ جلسے میں پیپلز پارٹی کے بعد سب سے زیادہ کارکنان جے یو آئی کے نظر آئے جو اس بات کی غمازی کررہا تھا کہ جلسہ عام کو کامیاب بنانے کے لئیے جے یو آئی کی بڑی کوششیں اور کاوشیں شامل تھیں جبکہ مسلم لیگ ن کے نائب صدر مریم نواز کی سندھ میں یہ پہلی سیاسی انٹری تھی اس لئیے ن لیگ کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے نہ صرف ان کا والہانہ انداز میں استقبال کیا بلکہ جلسہ عام میں بھی اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کا بیانیہ نواز شریف کی اے پی سی اور پھر گوجرانوالہ کے جلسہ عام سے تقاریر کے بعد بہت بھاری ہوگیا ہے پھر اس بیانیہ کی دفاع اور پرچار مریم نواز اور ن لیگ کے دیگر رہنماؤں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم اس بھاری بھرکم بیانیہ کو کاندھوں پر لاد کر قوم کو اس مہنگائی کی دلدل سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوگی یا نہیں۔ لیکن اس وقت عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ نواز شریف ملکی صورتحال کا ذمہ دار کس کو قرار دے رہے ہیں وہ کس حد تک درست ہے۔
یا غلط یا وفاقی حکومت نواز شریف کو کب پاکستان لانے میں کامیاب ہوگی اور پھر انھیں کس طرح کی صعوبتوں میں ڈالے گی۔ اس وقت عوام کو مہنگائی نے بدحواس کیا ہوا ہے وہ اس تیزی سے بڑھتی اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ سے سخت پریشان اور نالاں ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتوں نے عوام کو اپنے ایجنڈے کی طرف راغب کرنے میں کامیابی حاصل کی اور اپنے بیانیہ میں عوام کی آواز کو شامل کیا تو اس سے نہ صرف ان کا بیانیہ ہلکا اور اسمارٹ ہوگا بلکہ حکومت گراؤ تحریک میں عام عوام کی شمولیت میں بھی اضافہ ہوگا۔
حکومت گرانے کی تحریک کی کامیابی کا بڑا انحصار پنجاب کے عوام کی اس میں بھرپور شرکت پر ہے جس کے لئیے خاص طور پر ن لیگ کو سخت محنت کرنی پڑے گی۔ ن لیگ کے ورکرز کو سڑکوں پر ڈٹ کر احتجاج کرنے، ریلیاں نکالنے اور دھرنے دینے کا کوئی خاص تجربہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کارکنان میں سے بیشتر کا تعلق شہری علاقوں کی مڈل کلاس سے ہے جو طویل احتجاجوں سے اپنے کاروبار اور زندگی کے دیگر معاملات کو متاثر کرنے کے لئیے تیار نہیں ہوتے۔ لیکن موجودہ حکومت کے دور میں ہوشربا مہنگائی، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے وہ بھی شدید متاثر ہیں۔
یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جسے ن لیگ پنجاب میں نہ صرف اپنے ورکرز بلکہ عام عوام کو بھی حکومت گرانے کی اس تحریک میں متحرک کرسکتی ہے۔ پی ڈی ایم کی تحریک کو مرحلہ وار رکھنے کی بنیادی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ ن لیگ کے ورکرز اور پنجاب کے عوام کو پہلے کارنر میٹنگز اور جلسہ جلوسوں کے ذریعہ آہستہ آہستہ چارج کرنا ہوگا اور اس کے بعد جب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے دینے کا وقت آئے گا تو کارکنان کے ساتھ عام لوگ بھی تحریک کے اس مشکل مرحلے میں بھرپور ساتھ دیں گے۔