|

وقتِ اشاعت :   October 24 – 2020

پی ڈی ایم جس دن سے قائم ہوئی ہے یہ بات طے ہے کہ اس میں شامل گیارہ جماعتیں اگر اکھٹی رہ سکتی ہیں تو اسکا ایک آسان فارمولہ ہے کہ کسی ایک یا زیادہ سے زیادہ دو نکتوں پر اتفاق کرکے تحریک چلائیں کیونکہ تمام امور پر اتفاق ممکن نہیں اور اگر سب کو تمام امور پر اتفاق پر مجبور کیا جایئگا تو اس الائنس کا شیرازہ بکھر جائیگا،اس اپوزیشن اتحاد میں شامل کوئی جماعت پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں گئی ہے جہاں زور دار تقاریر سے سیاسی حکومت کی نالائقیوں اور ان پر مقتدرہ کی جانب سے چپ سادھے جانے پر اپوزیشن ناراض ہے اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہر جماعت اپنی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے۔

گجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں میں پاکستان تحریک انصاف کی غلطیوں پر شعلہ بیانی کرتے ہوئے مقتدرہ کو یاد دلایا کہ یہ تحریک انصاف والے نہ صرف ناتجربہ کار ہیں بلکہ اپنی ضد اور اناکی وجہ سے معاملات کو بگاڑ کی طرف لے جارہے ہیں انکی مدد کرنا چھوڑ دیں ہم گیارہ جماعتیں یہاں موجود ہیں ہمارے پاس وسیع تجربہ بھی ہے ہم اب بھی معاملات کو بہتر بنانے کو تیار ہیں، آپ صرف نظرکرم کریں معاملات اب بھی بہتر ہوسکتے ہیں۔چلیں جو بھی ہو اسکے لئے بیک ڈور رابطے جاری ہیں نتائج جو بھی ہوں سامنے آجائینگے،گجرانوالہ ہو یا کراچی انہیں کامیاب جلسہ نہ کہنا زیادتی ہوگی۔

لیکن مزار قائد پر نعرے بازی کے معاملے پر کراچی میں حلیم عادل شیخ اور علی زیدی نے جو ماحول بنایا اور پھر اسکے بعد مزار قائد کے معاملے پر بالآخر کیپٹن صفدر گرفتار ہوئے، میری ذاتی رائے ہے کہ اس ایف آئی آر اور گرفتاری کا مقصد تھا کہ پی ڈی ایم میں موجود نیچرل فالٹ لائن کو مزید گہرا کیا جائے اور ابتداء میں ہی اسکا شیرازہ بکھیر دیا جائے اور کسی حد تک پیپلزپارٹی پھنس بھی گئی تھی لیکن سندھ پولیس نے جو انداز اختیار کیا اس نے پیپلز پارٹی کو بڑی فیس سیونگ تو دی لیکن فی الحال پی ڈی ایم میں مضبوط بھی کردیا۔

کراچی کے واقعے پر جو ماحول بناخاص کر سندھ پولیس کے معاملے پر تمام جمہوریت اور آئین کو ماننے والے اسے سویلین بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ گیم قرار دے رہے ہیں لیکن جن دو اداروں کی طرف اشارہ کرکے انہیں ذمہ دار ٹہرایا جارہا ہے آئین اور قانون کی رو سے دونوں ادارے وفاقی وزارت داخلہ اور وزیر اعظم کے ماتحت ہیں تو یہاں یہ بتائیں کہ معاملہ پھر بھی اسٹیبلشمنٹ سے جڑرہا ہے۔ لیکن ہمارے آئین اور قانون کے علمبردار پی ڈی ایم کے نقش قدم پر ہیں دیکھ کہیں اور نشانہ کہیں مار رہے ہیں، چلیں جوڑ لیں اسٹیبلشمنٹ سے لیکن اس معاملے پر بھی ہر طرح سے آزاد انکوائری ہونی چاہئے تاکہ مسئلہ خو ش اسلوبی سے حل ہو یہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سندھ کے موجودہ آئی جی پولیس جب وہ سی سی پی او تھے توسپریم کورٹ نے انکے خلاف جعلی اکاؤنٹ کیس میں کیوں کارروائی شروع کی تھی۔

چلیں جو بھی ہو ایک بات طے ہے کہ پی ڈی ایم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر نگاہیں رکھ کر نشانہ کہیں اور لگا نا چاہتی ہے لیکن یہاں بھی مختلف پی ڈی ایم کی جماعتیں متفق نہیں ہیں اسلئے ایک تیر میں تین شکار ممکن نہیں ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں موجود جماعتیں جو بھی کہیں جیسے بھی کہیں زرغون روڈ پر یہ ایک کامیاب جلسہ ہوتا اب سنا ہے جلسہ گاہ تبدیل کردیا گیا ہے ایوب اسٹیڈیم کو کراؤڈ فل کرنا مشکل ہے ناممکن نہیں لیکن دلچسپ بات ہوگی کہ اے ین پی،پی ڈی ایم کے اسٹیج پر بھی ہوگی اور وزیر اعلٰی بلوچستان کے ساتھ کابینہ میں بھی،ایسے ہی موجودہ بی اے پی کے بننے کے مرحلوں کا جب آغاز ہوا تھا۔

تو اسکے لئے جو حکومت گرائی گئی اس میں جے یو آئی ف اور بی این پی مینگل پیش پیش تھے جو کہ جلسے کی اب میزبان بھی ہیں، کم از کم یہ گیارہ جماعتیں بلوچستان میں جس سیاسی جرم کے ارتکاب میں شریک رہے ہیں اور آج بھی سچ نہیں بول سکتے تو کم از کم نواب ثنا ء اللہ زہری کی حکومت کو گرانے اور میر حاصل خان بزنجو کے سینیٹ کے الیکشن ہارنے کے معاملے پر پی ڈی ایم اس جلسے میں احساس ندامت میں کھڑے ہوکر پانچ منٹ کی خاموشی اختیار کرکے اعتراف کرے کہ یہ جو اقدامات تھے جو ہوئے ہم سیاسی لوگ اس پر شرمندہ ہیں جلسہ جیسا بھی ہو یہ جلسہ کرناپی ڈی ایم کا حق ہے، سیاسی اخلاقیات پر بات کرنا اب فضول ہی لگتا ہے لیکن اس جلسے کوجس حکومت کیخلاف منعقد کیا جارہا ہے۔

وہ پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت ہے جلسے کے اعلان سے لیکر اب تک اس معاملے پر وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال پی ڈی ایم پر تیر چلارہے ہیں انکی سپاہ میں اسلام آباد کا مورچہ انوار الحق کاکڑ، سرفراز بگٹی نے سنبھالا یہاں تھوڑی بہت لیاقت شاہوانی اپنی اننگز جمانے کو کوشاں ہیں لیکن بی اے پی اسکے اتحاد میں شامل جماعتوں میں موجود دیگر ہیوی ویٹ الیکٹ ایبلز منظر سے غائب ہیں کیونکہ انکے پرانے مراسم ہیں اور کسی بیانیے کی جنگ میں پرانے سیاسی دوستوں کو کیوں ناراض کریں۔

کیونکہ کل کلاں کچھ ہو گیا تو واپس انہیں جماعتوں میں بھی تو جانا پڑیگا اور ویسے بھی وہ تھوڑی جام کمال کے بیانیے کیساتھ ہیں وہ تو مراعات،وزارت اور فنڈز کیلئے جام کمال حکومت کا حصہ ہیں ایسی ہی صورتحال کیلئے کہتے ہیں ”مرڑاں بھی کھاؤسوں پرڑاں بھی کھاؤسوں“ پی ڈی ایم کی اس تحریک کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے لیکن اگر یہ کامیاب ہوئی تو حکومت کی غلطیوں سے ہوگی اپنے بیانئے سے نہیں۔پچیس اکتوبر کے بعد دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے اللہ میرے شہر میرے صوبے اور اسکی عوام کی حفاظت فرمائے۔