|

وقتِ اشاعت :   October 27 – 2020

اب بات ہوگی
کہاجاتاہے کہ چھوٹے ذہن کے رہنما ہمیشہ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ سیاست کا مطلب صرف اقتدار ہے اور اقتدار نہیں تو ایسی جمہوریت کی ایسی کی تیسی، نا کھیلیں گے نا کھیلنے دینگے، اتنا تنگ کریں گے حکومت کو کہ یاتو ٹیم میں شامل کردیا جائے ورنہ مارشل لاء لگانے تک کی صورتحال پیدا کردیں گے، جمہوریت کی کشتی ہی ڈبودیں گے پھر فوجی امر کے آگے پیچھے گھومتے تلوے چاٹتے بوٹ پالش کرتے دیکھائی دیتے ہیں، اقتدار کے مزے لوٹنے کی عادت ہوجائے تو پھر بغیر اقتدار کے بغیر پروٹوکول کے بغیر زندگی اس پاکستانی جیسی لگنے لگتی ہے جو در در کی ٹھوکریں باربار کھاتا ہے۔

روز کھاتاہے اور اسے کوئی لیفٹ ہی نہیں کرواتا، اور سسٹم کے اتنے دھکے کھانے کے بعد بھی سکون سے زندگی گزارنے کیلئے ترستا ہی رہتاہے، آجکل کا منظرنامہ اگر دیکھیں تو کچھ اسی طرح کی صورتحال ہے، مسلسل اقتدار میں رہنے کی عادت نے کچھ سیاستدانوں کاتو برا حال کردیاہے، سرکاری رہاہش گاہیں، دفاتر اور گاڑیاں نہیں کوئی سلوٹ مانے والا نہیں اور پرانے کرپشن کے کیسز اور سر پر ٹینشن پھیلارہے ہیں، وہ خود تو برے حال میں ہیں ہی، ساتھ میں ان کے ہمجولیوں کی قطاریں بھی شور مچارہی ہیں، پروٹوکول نہیں مل رہا، دکھے لگ رہے ہیں، ہم نے اتنی قربانیاں دیں۔

نہ ایوانوں میں جانے کی اجازت ملی، نہ ہی بیرونی دورے مل رہے ہیں نہ ٹھیکے اور نہ ہی پرمٹ کا کوئی گیم بن رہاہے۔لیکن ہاں سب لوگ اس بیانیے سے اتفاق نہیں کرتے اور سیاست پر جدوجہد کرنے پریقین رکھتے ہیں، عوام کے مسائل کے حل کو ترجیح دیتے ہیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، لیکن اس وقت عوام مسائل کے حل کی آواز تو لگائی جارہی ہے سچ جھوٹ کی چاٹ مارکیٹ کی جارہی ہے، شور میں سمجھ نہیں پارہی عوام کہ کس کی بات سنی جائے اور کیوں۔ اپوزیشن کے اتحاد کے ہر جلسے میں مسلسل ایسی تقاریر کی جاتی رہی ہیں جن میں مسائل کی نشاندہی تو کی گئی۔

لیکن نفرت انگیز تقاریر میں، جمہوری انداز سیاست اب کہیں کھوتا جارہاہے، بدلے کی سیاست کی بو چاروں طرف پھیل چکی اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قوم کو جمع کر کے ملکی سالمیت کے خلاف نعرے اور تقاریر کی جارہی ہیں، حکومت کو گرانے میں لگے ہوئے ہیں، سوال تو ہے کہ کیاجو کچھ ابھی ہورہاہے آئین کیمطابق ہے؟، اس پر ایکشن کی ضرورت ہے کہ نہیں؟ بلوچستان کو الگ ریاست بنانے کے نعرے اور تقریر کرنے والے اور اس کا ساتھ دینے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے کہ نہیں؟ اگر ہم بلوچستان کی بات کریں تو اس میں کوئی شک نہیں وفاق ہمیشہ بلوچستان کو نظرانداز کرتاآیا ہے۔

حکومت کسی کی بھی ہو بلوچستان کے معاملے میں نتیجہ یہی نکلاہے، اس میں قصور بلوچستان کی پارٹیوں کا بھی ہے جو اپنے بیانیہ کا سستاسودا کرلیتی ہیں، بلوچستان میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ مختلف ادوار میں اقتدار میں رہی اور ہمیشہ بلوچستان کیلئے کچھ ایسا نہیں کیاجس کا کریڈٹ لے سکیں، اب چونکہ اقتدار سے باہر ہیں اس لئے انہیں ضرورت پڑی رہی ہے، بلوچستان میں ان کی نمائندگی ناہونے کے برابرہے، ان دونوں بڑی پارٹیوں کو بلوچستان سے سہارا چاہیے بلوچستان کی لوکل اورچھوٹی پارٹیوں کاجن کے پاس اسٹریٹ پاور ہے، یہ جب بھی اقتدار میں آئیں گے بلوچستان کا بیانیہ بھول جائیں گے۔

ماضی میں نوازشریف نے بلوچستان میں حکومت بنائی اور کبھی وعدے پورے نہیں کئے، این ایف سی ایوارڈ کے معاملے پر بلوچستان کشکول لیکراسلام آباد کے درپر بیٹھا رہا، اور نوازشریف حکومت نے کچھ نہیں کیا، ن لیگ مسنگ پرسنز کی بات کرتی ہے اس کی اپنی حکومت کے دوران تین ہزار سے زیادہ افراد لاپتہ ہوگئے تھے، اسی طرح پیپلزپارٹی بھی بالکل اسی رویے کے ساتھ بلوچستان کے ساتھ چلتی رہی ہے، وہ بھی اقتدار میں مسنگ پرسنز کی بات نہیں کرتی، سی پیک جب ن لیگ کے ہاتھ میں تھا تو بلوچستان کو کچھ نہیں دیا سارے منصوبے پنجاب کو دے دیئے گئے بلوچستان میں تو ن لیگ نے ایک ہائی وے تک نہیں بنوائی۔

ماضی میں بلوچستان کی جماعتیں ان مرکزی جماعتوں سے دھوکے کھاتی رہی ہیں، اب بھی اگر اسی طرح رہا تو پھر کیاہوگا؟ کوئٹہ کے جلسے کے بعد دو بڑے امتحان اپوزیشن اتحاد کے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں، ایک یہ کہ جو بیانیہ بنا لیاہے اس بیانیے پر کھڑے رہنا اس اتحاد کا سب سے بڑا امتحان ہے، دوسرا یہ کہ جو تاثر پیدا ہوا کہ گزشتہ تین جلسوں میں کہ اس اتحاد کے پیچھے وہ طاقتیں موجود ہیں جو پاکستان کو آگے بڑھنے نہیں دیناچاہتی ں اور پاکستانی اداروں خصوصا ًفوج کو نشانہ بنانے کے منصوبے پر ہیں اس کو غلط ثابت کرناہے، اور سب اہم یہ کہ پیپلزپارٹی کو چپکاکے رکھناہے کیونکہ اس بیانیے کے ساتھ پیپلزپارٹی کا اس اتحاد میں شامل رہنا وقت کے ساتھ ساتھ بہت مشکل ہوتاچلا جائے گا ویسے بھی بلاول بھٹوزرداری نے کوئٹہ کے جلسے میں شرکت نہ کرکے اپوزیشن اتحاد کے لئے ایک گھنٹہ بجادیاہے۔