2016 میں امریکا کے صدارتی انتخابات سے دس روز قبل انتخابی پیش گوئیاں ہلیری کلنٹن کے حق میں تھیں اور ٹرمپ کی شکست واضح نظر آرہی تھی۔ تاہم یہ پیش گوئیاں بہرحال اندازے ہی تھے اور ووٹر کا فیصلہ بیلٹ باکس سے برآمد ہونا تھا۔ اُن حالات میں بھی میرے آنجہانی دوست فرینک نیومین عمومی فضا کے برخلاف مہینوں پہلے مجھے بتاچکے تھے کہ ٹرمپ صدارتی انتخابات جیت جائے گا۔ امریکا کی مڈویسٹ یا وسط مغربی کہلانے والی ریاستیں مدتوں سے ”ڈیموکریٹ“ تصور کی جاتی ہیں اس لیے ہلیری کلنٹن کا خیال تھا کہ وہاں نتائج جوں کے توں رہیں گے۔
ان ریاستوں میں سیاہ فام اور ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے سفید فام ووٹربالخصوص کم تعلیم یافتہ ووٹر وہ ڈیموکریٹس کے حامی تھے لیکن الیکشن میں ان ووٹرز نے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا۔ ان لوگوں کے نزدیک ہلیری کلنٹن اس اشرافیہ کی نمائندہ تھی جو ملازمتوں، میڈیکل انشورنس جیسے انتخابی وعدے پورے کیے بغیر امیر سے امیر تر ہوگئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے نزدیک ملک کا سیاسی ماڈل غیر موثر اور ناقابل اعتبار ہوچکا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بسنے والے امریکی بڑی تعداد میں ووٹ دینے کے لیے نکلے، اس طبقے کے نزدیک اشرافیہ ان کی پروا نہیں کرتی اور اپنی آواز ان تک پہنچانے کے لیے انہوں نے بڑھ چڑھ کر ووٹ دئیے۔
حالاں کہ وو ٹوں کی تعداد کے اعتبار سے ٹرمپ 20لاکھ ووٹ سے پیچھے تھے لیکن مڈویسٹ کی ان ریاستوں کے ووٹوں نے حساب برابر کردیا اور 2016کی طرح اس مرتبہ بھی صدر ٹرمپ اپنی اُسی حکمت عملی پر کاربند ہیں۔ لوگوں کی تذلیل و تضحیک کرنا ٹرمپ کا وتیرہ ہے، اس پر کبھی وہ نیم دلانہ معذرت بھی کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے بارے میں ٹرمپ کا رویہ کئی پہلوؤں سے متنازعہ رہا ہے۔ لیکن آخری تجزیہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی شخصیت کے یہ مسائل ان کی انتخابی حمایت پر اثرانداز نہیں ہوئے۔ ٹرمپ نے ”امریکا فرسٹ“ یا سب سے پہلے امریکا کا نعرہ لگا کر روزگار فراہم کرنے، صنعتوں کو واپس ملک میں لانے جیسے وعدے کیے۔
اور تارکینِ وطن سے متعلق اپنا سخت گیر مؤقف برقرار رکھا۔ اپنے جارحانہ انداز کے باوجود ٹرمپ نے جنگیں ختم کرنے کا وعدہ کیا۔ ان جنگوں میں نہ صرف عام لوگوں کے بچے مرر ہے تھے بلکہ اِن پر ہونے والے اخراجات نے امریکی معیشت کو بُری طرح متاثر کررکھا تھا۔ غلامی ختم ہونے کے باجود آج تک امریکا کے جنوب میں سفید فام بالادستی کے حامی اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ان کے کم تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے ٹرمپ کا سفید فام بالادستی کی جانب جھکاؤ فطری طور پر پُرکشش ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بڑھتی ہوئی غربت کے باعث اچھے اسکولوں میں تعلیم کئی امریکی خاندانوں کی استطاعت سے باہر ہوچکی ہے۔
گرتی ہوئی معیشت کے ساتھ امریکا کو کئی داخلی مسائل کا سامنا ہے جن کی وجہ سے انتخابی سیاست میں امریکا کو دنیا کا داروغہ (پولیس مین آف دی ورلڈ) بنا کر پیش کرنے والے نعرے اپنی کشش کھو چکے ہیں۔ امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت نے کبھی ملک سے قدم باہر نہیں نکالا اور انہیں باقی دنیا کے بارے میں کچھ خبر نہیں۔ ٹرمپ نے کاروباری ضابطوں کے حوالے سے گزشتہ چار برسوں میں کئی قوانین تبدیل کیے، کارپوریٹ اور انکم ٹیکس میں کٹوتیاں کیں اور مقامی مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے کئی انتظامی حکم نامے جاری کیے۔
اگرچہ ماہرین کے مطابق پیدواری شعبے میں ٹرمپ کی پالیسوں سے نہ تو شرح نمو بڑھی اور نہ ہی اس شعبے کے کئی بنیادی مسائل حل ہوئے تاہم 2017کے بعد اس شعبے میں 4لاکھ 80ہزار ملازمتیں پیدا ہوئیں۔ 2020سے قبل ٹرمپ کو اپنے دوبارہ منتخب ہونے کا پورا یقین تھا۔ آگے بڑھتی ہوئی معیشت کے ساتھ ٹرمپ نے انتخابی میدان میں قدم رکھا۔ وبا کی تباہیوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ ایسٹر(یعنی اپریل) تک معیشت کے دوبارہ سنبھل جانے کی پیش گوئی کی۔ ڈاکٹر فوچی کی زیر سربراہی اپنے ہی ماہرین کے مشوروں کو نظر انداز کیا۔
ہم مغربی فلموں میں جوہن وائن کے انداز کے جو امریکی دیکھتے ہیں اسی انداز میں ٹرمپ نے کورونا سے محفوظ ہونے کے غیر سائنسی دعوے تک کیے۔ ٹرمپ نے لاک ڈاؤن کی مخالفت کرکے ان ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کیں جو اپنے گزر بسر کے لیے ایک دن بھی گھر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ ٹرمپ اپنے پورے سیاسی کرئیر میں امیگریشن کی روک تھام کو مقامی افراد کے لیے زیادہ روزگار سے جوڑنے کے اصول پر جمے رہے۔ اس کے لیے خاندانی بنیادوں پر ترک وطن کی سہولت دینے والی ویزا لاٹری کا خاتمہ کیا اور اس نظام کو ”میرٹ“ سے نتھی کردیا۔ میکسکو سے متصل سرحد پر دیوار کی تعمیر جاری رکھی اور 716کلومیٹر طویل علاقے پر رکاوٹیں تعمیر کرنے کے لیے مالی وسائل فراہم کیے۔
2018 میں ”فرسٹ اسٹیپ ایکٹ“ کے تحت وفاقی سطح پر فوجداری قوانین میں اصلاحات متعارف کروائیں جس کے نتیجے میں ججوں کو سزاؤں اور قیدیوں کی بحالی کے لیے اقدامات کے حوالے سے مزید اختیارات دیے گئے۔ 2016کی انتخابی مہم میں ٹرمپ نے خود کو نفاذ قانون کے پُرزور حامی کے طور پر پیش کیا اور اپنے دورِ صدارت میں بھی یہی موقف رکھا۔ یہاں تک کہ نسلی عدم مساوات کے خلاف امریکا میں پھوٹنے والے حالیہ احتجاج کے دوران بھی ڈٹ کر پولیس کی حمایت کی۔ ان مظاہروں کے دوران ہونے والے دنگے فساد اور املاک کے نقصان سے ٹرمپ کو نفاذ قانون کے حامی حلقوں کی حمایت حاصل ہوئی۔
ہوور انسٹی ٹیوٹ کے ایک جائزے کے مطابق ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کے معاشی ایجنڈے سے امریکا میں روزگار کے مواقعے میں 3فی صد اور فی کس جی ڈی پی میں 8فی صد کمی آئے گی۔ 49لاکھ امریکی بے روزگار ہوں گے اور جی ڈی پی کے حجم میں 2اعشاریہ 6کھرب ڈالر کی کمی واقع ہوگی۔ بائیڈن کی بزنس ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز سے کاروباری لاگت میں اضافہ ہوگا اور چھوٹے کاروبار متاثر ہوں گے۔ حال ہی میں سامنے آنے والے بروکنگز کے جائزے کے مطابق ٹرمپ کا دوبارہ منتخب ہونا مشکل ضرور ہے لیکن خارج از امکان نہیں۔
ڈبلیو اے گیلسٹون نے اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا ہے:”اگرچہ ہر ریاست کے الیکڑول کالج کے نتائج ہی فیصلہ کریں گے تاہم اس بار ریاستی کے بجائے قومی محرکات انتخابی نتائج کا تعین کریں گے۔ ٹرمپ الیکٹرول کالج میں بائیڈن کو حاصل واضح برتری کو شکست نہیں دے سکیں گے۔ اس کے لیے ٹرمپ کو بائیڈن کے پاپولر ووٹ کے ایڈوانٹج کو 2016کے مقابلے میں اندازاً دو پوائنٹ کم کرنا ہوگا۔ بدترین صورت حال یہ ہوگی کہ ٹرمپ مقابلہ برابر کرنے کے بجائے اس کے نزدیک تر ووٹ حاصل کرلیں۔ انتخابی نتائج مشکوک ہونے کی صورت میں امریکا انتشار کا شکار ہوجائے گا۔
“ پہلا صدارتی مباحثہ ٹرمپ کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا۔دوسرا مباحثہ ٹرمپ کو کورونا ہونے کی وجہ سے ملتوی ہوگیا البتہ تیسرے مباحثے میں ٹرمپ کی واپسی جاندار تھی لیکن یہ انتخابی پوزیشن بہتر کرنے کے لیے اول تو کافی نہیں تھی اور اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی کیوں کہ 23اکتوبر تک 4کروڑ 60لاکھ امریکی ووٹ دے چکے تھے۔ قبل از وقت ووٹنگ میں ٹرمپ کو بڑے فرق سے شکست ہوگی اور ٹرمپ اس مقابلے کو ’جعلی‘ قرار دیں گے۔ 2016کے برخلاف اس بار کی شکست صدر ٹرمپ کو بہت بھاری پڑے گی۔ فی الحال ٹرمپ کے خلاف ٹیکس چوری کی تحقیقات رُکی ہوئی ہیں تاہم الیکشن میں ناکامی کے بعد ٹرمپ کو سزا ہونا یقینی ہے۔
اور ظاہر ہے ٹرمپ اس سے بچنے کے لیے ہرممکن کوشش کرے گا۔ بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کا کورونا مثبت آنے کے باوجود نہ تو کوارنٹین ہوئے، ٹرمپ اور ان کے نائب صدر مائیک پنس نے اپنی ریلیوں میں ماسک پہننے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔ انتخابی مہم کے لیے کافی رقم جمع ہونے کے باعث ٹرمپ کو اپنے انتخابی اشتہارات میں بھی کٹوتی کرنا پڑی۔ عین ممکن ہے کہ اگر ٹرمپ کو الیکشن میں شکست ہوئی تو مہم کی ادائیگیاں نہ کرنے کی وجہ سے انہیں جیل جانا پڑے۔ انتخابی مہم میں ٹرمپ تواتر سے جس جو بائیڈن اور اس کے بیٹے ہنٹر کو ”غنڈہ“ قرار دے رہے ہیں۔
بعد میں جیل جانے والا امریکی تاریخ کا پہلا سابق صدر بننے سے بچنے کے لیے ٹرمپ اُسی ’صدر‘ کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ یہ راستہ کھلا رہتا ہے یا نہیں اس کا انحصار ٹرمپ کے رویے پر ہے کیوں کہ فی الحال تو وہ ہر جلسے اور ریلی میں بائیڈن اور اس کے خاندان کو جیل میں ڈالنے کا نعرہ بلند کیے نظر آتے ہیں۔ یہ رویہ ٹرمپ کے لیے ڈراؤنا خواب بھی بن سکتا ہے۔ مڈ ویسٹ یا وسط مغربی ریاستوں میں مسلح ملیشیا بھی متحرک ہیں، انتخابی نتائج پر ہونے والے کسی تنازعے سے صورت حال خانہ جنگی کی جانب جا سکتی ہے۔ یہ افواہیں بھی گردش میں ہیں کہ شکست کی صورت میں صدر ٹرمپ عہدہ چھوڑنے سے انکار کردیں۔
اور 25آئینی ترمیم کے سیکشن 4سے کوئی راستہ نکلے۔ اس مطابق قانونی طور پر نائب صدر اور کابینہ کے کوئی بھی آٹھ ارکان یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ صدر اب فرائض انجام دینے کے قابل نہیں رہا۔ تحریری طور پر یہ فیصلہ وہ اسپیکر اور سینیٹ کے صدر کو ارسال کریں گے۔ اگر صدر اس تحریک کی مخالفت کردے تو اس معاملے پر کانگریس میں رائے شماری کی جائے گی۔ دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے کوئی فیصلہ ہوگا اور اس دوران امور مملکت نائب صدر سنبھال لے گا۔ اس صورت میں بھی اگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو صدر کو عہدے سے مستعفی ہونا پڑے گا۔ فی الوقت ایسے حالات پیدا ہوتے نظر نہیں آتے اور نہ ہی اس سے قبل ایسی کوئی نظیر ہے لیکن دنیا میں کوئی بھی کام پہلی بار ہوسکتا ہے۔
حکومتیں تبدیل ہونے سے امریکا کی خارجہ پالیسی میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آتی لیکن امریکا کے ساتھ تعلقات کے طویل تجربے کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈیموکریٹ کے مقابلے میں ریپبلکن صدر پاکستان کے لیے زیادہ نرم گوشہ رکھتا ہے۔ افغانستان کی جنگ نے عسکری اور اقتصادی دونوں اعتبار سے امریکا پر انتہائی برے اثرات مرتب کیے ہیں۔ صدر ٹرمپ اس جنگ کے خاتمے کے سب سے بڑے حامی ہیں اور اس کے لیے پاکستان کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے طالبان اور افغان حکومت کے مابین حقیقی مفاہمت کے مدد فراہم کررہے ہیں۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ امریکا نے امن عمل میں بھارت کے کسی بھی کردار کے خلاف پاکستان کی پُرزور مخالفت کو تسلیم کرلیا ہے۔ دوسری جانب بطور نائب صدر جو بائیڈن اس رائے کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ روس، شمالی کوریا اور پاکستان کو ایک ہی صف میں دیکھتے۔ اس کے ساتھ وہ بھارت کو افغانستان کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا ذمے دار بھی تسلیم کرتے ہیں۔ بائیڈن کی نائب کمیلا ہیریس ہوں گی۔ ایک بھارتی سکھ ہونے کے ناتے پاکستان کے لیے ان کا مؤقف محتاط ہوگا۔ گزشتہ برس کمیلا ہیرس نے کشمیریوں کے مسائل کا ادراک ہونے کی بات کی تھی اور بھارت سے جموں و کشمیر میں عائد پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
تاہم ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا امور کے سنیئر ماہر مائیکل کوگلمین کے نزدیک کشمیر سے متعلق کمیلا کے بیانات میں ہمدردی تو تھی لیکن ان کا لہجہ پُرزور نہیں تھا۔ یاد رہنا چاہیے کہ ضروری نہیں سیاست دانوں کی زبانی حمایت کسی عملی اقدام کی علامت بھی ہو۔اگرچہ آج امریکا پر پاکستان کے انحصار کی نوعیت وہ نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی تاہم ڈیموکریٹس کی فتح سے توازن بگڑ سکتا ہے۔ انتخابات میں بائیڈن کی فتح ابھی تک سو فیصد یقینی تو نہیں لیکن پچھلی مرتبہ کی طرح الیکشن سے ایک ہفتہ قبل اگر ”اکتوبر سرپرائز“ ہو گیا تو ٹرمپ کی شکست فاش یقینی ہوگی۔
گزشتہ انتخابات میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے ہلیری کی ای میلز پر تحقیقات شروع کردی تھیں جس کے نتیجے میں انتخابی بازی پلٹ گئی تھی۔ ٹرمپ اپنے ساتھ کئی ریپبلکن سینیٹرز اور نمائندگان کو بھی لے ڈوبے گا اور امریکی سینٹ اور ایوان نمائندگان دونوں ڈیموکریٹس کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو ممکن ہے کہ ایک دن پاکستان کو ’صدر‘ کمیلا ہیرس کا سامنا کرنا پڑے۔ اس وقت ٹرمپ سے نفرت جتانے والے اس کے اچھے دنوں کو ضرور یاد کریں گے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)