|

وقتِ اشاعت :   October 30 – 2020

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے کوئٹہ جلسے کے روز سے بھانت بھانت کی بولیاں سن رہا ہوں کسی نے اسے صوبے کی تاریخ کا کامیاب جلسہ کہا تو کسی نے اسے مجلس اور جلسی کہا۔ میری ذاتی رائے میں یہ ایک کامیاب جلسہ تھاسب سے پہلے اسکی کامیابی کا سہرا مولانا فضل الرحمان، سردار اختر مینگل،محمود خان اچکزئی اور دیگر کے سر جاتا ہے اسکے علاوہ اس جلسے میں دیگر جماعتوں کی حیثیت میری نظر میں مہمان اداکاروں کی ہے۔ میرے لئے یہ بات اس وقت انوکھی ہوتی جب مولانا فضل الرحمان تن تنہا یہ مجمع اکھٹا کرتا، سردار اختر مینگل یا پھرمحمود خان اچکزئی کی جماعت ایسا کرتی تو پھر انگشت بدنداں بیٹھا سوچتا کہ یہ کیا ہوگیا۔

بحر حال جلسہ تھا مجلس تھی یا جلسی ہوگئی لیکن ایک بات حیران کن تھی، سیاسی پرچموں سے سجے کوئٹہ کو دیکھ کر خوش ہوئی جہاں پی ڈی ایم کی جماعتوں کے جھنڈے شہر کے ہر چوک پر آویزاں تھے وہیں بلوچستان کی حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے جھنڈے بھی لگے ہوئے تھے،ایسا منظر تو میں نے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں بھی نہیں دیکھا تھا جو بھی ہو میری نظر میں یہ سیاسی گہما گہمی میرے صوبے کے پر امن ہونے کی ایک ضمانت ضرور ہے۔ پاکستان بھر کی قیادت کوئٹہ پہنچی ماسوائے ٹیلی فون کی بندش اور محسن داوڑ کی صوبہ بدری کے بلوچستان کی حکومت نے پی ڈی ایم کو لیول پلئینگ فیلڈ فراہم کی۔

فون کی بندش کو پی ڈی ایم نے سازش جبکہ حکومت بلوچستان نے سیکیورٹی ضرورت قرار دیا جو حکومت چاہتی تھی وہ نہ ہوا، اپوزیشن کی جماعتیں جو چاہ رہی تھیں وہ بھی نہ ہوا اس جلسے میں ایک طرف گیارہ جماعتیں تھیں وہیں انکے مد مقابل بلوچستان حکومت کے سربراہ وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال قرنطینہ میں بیٹھے ہوئے اپوزیشن کو تن تنہاجواب دے رہے تھے۔اگر میاں نواز شریف کی تقریر کے دوران اعلٰی عسکری حکام پر براہ راست الزمات نہ لگے ہوتے تو جام صاحب قرنطینہ میں بیٹھے سوشل میڈیا پر بیٹھے تن تنہاء میدان سنبھالے نظر آتے لیکن میاں نواز شریف کی تقریر کے بعد کچھ حکومتی جماعتوں کے اراکین بھی میدان میں اترے۔

اور پی ڈی ایم کے جلسے کیخلاف بلوچستان اسمبلی سے قرار داد منظور کروالی جیسے جلسے کے روز حکمراں اتحاد کے ہیوی ویٹ اور الیکٹیبلز غائب رہے ویسے ہی اسمبلی میں بھی غیر حاضر رہے جبکہ بلوچستان حکومت کی اتحادی اے این پی نے اس بار حیران کن طور پر پی ڈی ایم کی حمایت میں اپنے اتحادی بی اے پی کی حکومت سے اختلاف رکھا اور اصغر خان اچکزئی نے پی ڈی ایم کیخلاف قرار داد کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اسکے خلاف ووٹ بھی دیا۔ اب تک کے تین جلسوں میں پی ڈی ایم کے بیانیئے کے جواب میں حکمراں اتحاد خاص کر پاکستان تحریک انصاف غدار غدار کھیل رہی ہے۔

اور اس بار غداروں کی فہرست میں بلوچستان سندھ خیبر پختونخواہ کے بعد پنجاب بھی شریک ہے، اس بار تو پنجاب کی قیادت بھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی بدولت اس غدار کلب کا حصہ بناہواہے۔ اس غداری کے لیبل کو لگانے کے بجائے تحریک انصاف آزاد عدالتوں کا رخ کرے، غداری ثابت کرے اور غداروں کو سزا دلوادے تو اس حکومت کی اتنی جگ ہنسائی نہ ہولیکن کیا کریں حکومت سے زیادہ ہوشیار حکومت کے ترجمان ہیں میری ذاتی رائے ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف اپنی کارکردگی اور مستقبل پر توجہ دے تو پی ڈی ایم کا بیانیہ اپنی موت آپ مرسکتا ہے۔

کیونکہ پی ڈی ایم نے تاحال عوامی مسائل کو اپنا ایشو نہیں بنایا،اب تک پی ڈی ایم کا ہدف نیب کے مقدمات میں ریلیف لینا اور اسٹیبلشمنٹ سے پرانے طرز کے تعلقات کی بحالی ہے کیونکہ اسکے واضح ثبوت موجود ہیں۔ میاں شہباز شریف سے ن لیگ کے وفد کی ملاقات ظاہر کررہی ہے کہ نیب کے دفتر میں موجود شہباز شریف ابھی کوئی راستہ تلاش کررہے ہیں اگر انہیں کوئی راستہ نہ ملا تو سندھی کی ایک کہاوت ہے تم مارو میں اٹھاؤں کی پالیسی کے تحت ن لیگ اپنے جارحانہ بیانئے کیساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بلاول بھٹو زرداری کی طرف دھکیلے گی۔

تاکہ بلاول کو اسپیس ملے تو ویسے ہی میاں صاحب اسی طرح ملک لوٹیں جیسے بے نظیر بھٹو جنرل ر پرویز مشرف کے دور میں این آر او لیکر آئی تھیں اور چند ماہ بعد میاں نواز شریف بھی لوٹ آئے تھے چلیں جو بھی ہو پچھلی تحریر میں کہہ چکا ہوں تحریکوں سے حکومتیں نہیں جاتیں بلکہ کمزور ضرور ہوجاتی ہیں اور میرے خیال سے جو بھی ہو اس تحریک کی کامیابی کی ایک وجہ حکمراں اتحاد کی اپنی غلطیاں ہونگی اور یہی غلطیاں صفحہ پلٹ بھی سکتی ہیں۔اپنے صحافتی کیرئیر میں سیاست کو پلک جھپکتے تبدیل ہوتے دیکھا ہے یہاں دو واقعات بیان کرتا ہوں اور یہ دونوں واقعات ٹیلی فون کال سے جڑے ہوئے ہیں۔

د و ہزار آٹھ میں انتخابات کے بعد ملک کی ایک اہم جماعت ق لیگ کا ملک سے صفایا ہو گیا تھا لیکن بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی بائیس نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی لیکن صرف ایک شخصیت کے فون بند ہونے نے اسلم بھوتانی کو کھیلنے کیلئے میدان فراہم کردیا اور پلک جھپکتے میں ق لیگ بلوچستان کا شیرازہ ایسا بکھراکہ پہلے گیارہ اراکین اسلم بھوتانی کے ہمراہ اور نو دیگر اراکین نے نواب اسلم رئیسانی کی حمایت کا اعلان کردیا اور ق لیگ کا ق اڑگیا۔

دوسرا واقعہ ہے جب ن لیگ بلوچستان کے وزیراعلٰی نواب ثناء اللہ زہری کیخلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو میاں نواز شریف نے فون پر انہیں ہدایت کی کہ وہ ڈٹ کر عدم اعتماد کا مقابلہ کریں انکی مدد کیلئے محمود خان اچکزئی اور میر حاصل خان بزنجوکوئٹہ میں موجود ہیں لیکن ایک فون کال پر ایک آواز سنوانے کی دیر تھی کہ نواب ثنا ء اللہ خان زہری نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ ان دو واقعات کو بتانے کا مقصد صاف ہے جو بھی ہوگا پلک جھپکتے ہی ہوگا۔ صفحہ بدل سکتا ہے اس میں کوئی بعید نہیں کیونکہ یہ اعصاب کی جنگ ہے لیکن ڈررہا ہوں کہ سردار اختر مینگل کے دورہ لاہور کے بعد پی ڈی ایم اندر سے کتنی مستحکم ہے اسکا ٹیسٹ کیس پھر بلوچستان نہ ہو۔