|

وقتِ اشاعت :   November 3 – 2020

اب بات ہوگی
ستر سالہ ماسٹر رفیق احمد ایک ریٹائرڈ ہائی اسکول ٹیچرہیں، جو پاکستان کے مختلف ادوار بہت قریب سے دیکھتے رہے ہیں، موجودہ دورکو وہ ایک الگ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بہت ہی خوبصورتی سے سیاست اور ملک میں جاری سیاسی محاذآرائی پربات کرتے ہیں، میں عموماً ان کا تجزیہ لیتا ہوں، ویسے یہ کسی بڑے سینئر تجزیہ کاروں سے ہرگز گم نہیں ہیں۔ سیاست کے مختلف ادوار پر بات کرتے ہوئے ماسٹررفیق احمد کاتجزیہ ہے کہ ایک زمانہ تھالوگ سیاست خدمت کیلئے کرتے تھے قربانی دیاکرتے تھے، عوام کا احساس کرتے تھے، ملک و قوم کے لئے اپنی زندگیاں گزار کربھی سمجھتے تھے کہ کچھ نہیں کیا، اپنی جائیدادیں، ساری جمع پونجی غریب عوام کی فلاح پر لگادیاکرتے تھے، پھر وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آئی، وقت بدلا سیاست میں پیسہ آیا اور سیاست پھر پیسے کیلئے ہونی لگی۔

سیاستدانوں نے خوب پیسہ بنایا، رشوت خوری اور سرکاری پیسہ،عوام کا پیسہ ہڑپ کرنے کا زمانہ آیا، سیاستدانوں نے افسرشاہی کے ساتھ مل کر خوب پیسہ بنایا، اور اداروں کے پاورفل لوگوں کوخوش رکھا ان کو بھی ساتھ ملایا اور قومی خزانے کو خوب لوٹا، اتنا لوٹا کہ ملک کی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا، خود مالدار اور عزت دار بن گئے، پاکستان کے ہربڑے شہر میں گھر بنگلے گاڑیوں کے علاوہ پاکستان سے باہر دبئی، لندن، امریکا، کینیڈا سمیت دیگر ممالک میں جائیدادیں بنائیں اور آف شور اکاوئٹس میں پیسہ چھپایا، بے نامی اکاؤنٹس میں پیسہ رکھااور حوالے کے ذریعے بھی پیسہ باہر بھیجا اور اپنی فیملی کوبچوں کو باہر ہی منتقل کر کے وہاں کے پاسپورٹ دلوادیئے۔

انکا پاکستان سے رشتہ توڑ دیا، باہر بھی شادیاں کیں اوربہت کیں، عیاشیوں میں قوم پر پیسہ ضائع کیا، اوراب جو دور ہے اس میں جو سیاست ہورہی ہے وہ صرف اور صرف پیسہ بچانے اور اقتدار میں رہنے کے لئے ہورہی ہے۔ ماسٹررفیق احمد بہت سادہ طبیت کے ہیں بہت دھیمابولتے ہیں لیکن جب پاکستان کو نقصان پہنچانیوالوں کا زکرکرتیہیں تو شدید غصیمیں آجاتے ہیں اوراونچا بولنے لگتے ہیں، اکثر گفتگو کرتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں، وہ پاکستان بنانیوالوں کی قربانیاں گنوانے لگتے ہیں، کیسے کیسے رہنماؤں نے پاکستان کے لئے کیا کیا کیا؟

کیسے اپنی نسلوں کی خاطر پاکستان کوآگے بڑھانے کیلئے کتنی قربانیاں دیں، یہ مثالیں دیتے ہو اس بار رو پڑے اور روتے روتے چپ ہوگئے، میں نے انہیں تھوڑا سا پانی دیا، اور موضوع تبدیل کردیا، لیکن انہوں نے بہت اعتمادسے اپنی بات یہ کہتے ہوئے مکمل کی کہ آج کے سیاستدانوں سے پاکستان کو خطرہ ہے خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔میں ماسٹر رفیق احمد کے تجزیے کو ایک کھرا اور جذباتی تجزیہ سمجھتاہوں، ان کے تجزیے کی سوفیصدتو حمایت نہیں کرسکتا، ان کی پاکستان سے وابستگی اور لگاؤ کی نوعیت مختلف ہے، وہ پاکستان کے لئے دی گئی قربانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے آج کے پاکستان کو دیکھ کر پریشان ہیں۔

اور گھبراہٹ کا شکار ہیں۔یہ توطے ہے کہ ماسٹررفیق کی اس گھبراہٹ میں کمی نہیں ہونیوالی، وہ کسی بھی صورت مطمئن ہونے کو تیار نہیں ہیں، ان کے دل اور دماغ میں جو پاکستان ہے وہ اب نہیں رہا، اس پاکستان کو ڈھونڈنے کی اور یاد کرنے کی ان کی کوششیں کامیابی تک نہیں پہنچیں گی، وہ قربانیوں سے حاصل کیا گیا پاکستان ہضم کرلیا گیا، اس پاکستان پر قبضہ ہوگیاہے، پاکستان بنانیوالوں کی قربانیوں کو اب کھل کر گالیاں دینا معمول بن چکاہے، اور آج کا پاکستان جھوٹ، فریب، جعل سازی، دھوکہ دہی، رشوت ستانی، غرور وتکبر، جہالت میں بہت آگے نکل چکاہے۔

ہر طرف بے ایمانی ہے لوگ کھل کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑے دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں دھوکے دیتے ہیں، رشوت نظام کا حصہ بن چکی ہے، سرکاری افسران ہر پیمانے پر کھل کر رشوت لیتے ہیں اورڈنکے کی چوٹ پر لیتے ہیں، حکومت میں بیٹھے وزرا میٹنگیں اوراجلاس ہی اس لئے کرتے ہیں کہ کیسے سرکاری خزانہ خالی کیاجائے، دکاندار بھی کہتے کچھ اور دیتے کچھ ہیں، ملاوٹ معمول ہے، درست چیز درست قیمت پرمل جانا، مطلب بہت بڑا کارنامہ انجام دینے کا احساس دلاتا ہے، ہرشعبہ بری طرح تباہ ہوچکاہے، تعلیم کا معیار تباہ کردیاگیاہے۔

ریاست عوام کو تعلیم دے پارہی ہے، نا پینے کاصاف پانی دے پارہی ہے، نا بجلی دے پارہی ہے، نا روزگار دے پارہی ہے، نا صحت دے پارہی ہے، تعصب عام ہے، رشوت کے ساتھ ساتھ کوئی کام کروانے کیلئے تعلقات ہونا بھی ضروری ہوچکاہے، ماسٹر رفیق کا پاکستان دم توڑ چکاہے اور بہت سے ماسٹررفیق موجودہ پاکستان کی خرابی کاذمہ دارسیاسی جماعتوں کو بھی سمجھتے ہیں۔موجودہ صورتحال دیکھیں تو لگتاہے سیاسی جماعتوں کی بنیادوں سے برداشت کھینچ لی گئی ہے، بنیادیں کھوکھلی ہوگئی ہیں، ڈھانچہ بری طرح لرزرہاہے، سیاسی جماعتوں کے اندر سیاست مر چکی ہے۔

آمریت نے ڈیرے ڈال لئے ہیں، سیاسی ورکر ناپید ہوچکے ہیں، سیاسی جماعتوں میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی جگہ ٹھیکیداروں یعنی کونٹریکٹرز نے لے لی ہے، قوم کا پیسہ کیسے کھایاجائے اس کی منصوبہ بندی کے علاوہ کچھ منشور میں نہیں رہا، قربیانیوں اور زیادتیوں کے پیمانے بھی بدل چکے ہیں، اچھے پڑھے لکھے لوگوں کی لائن لگی ہوئی ہے جن کا سسٹم سے اعتماد ختم ہوچکاہے اور وہ پاکستان سے باہرجانے کے خواب دیکھتے ہیں، مڈل کلاس گھرانے اپنے بچوں کو باہربھیجنے کیلئے زندگی کی بازی لگارہے ہیں، کسی سیاسی جماعت میں پاکستان کو ٹھیک کرنیکی سوچ نہیں۔

انا، جھوٹ، مکاری، غرور، دھوکے، جھوٹے وعدوں اورتشدد سے بھری سیاسی جماعتوں میں اب بغاوت بھی ابھر کر آگئی ہے، اس بغاوت کے پیچھے آخرکون سا ایجنڈہ ہے؟ ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت کھل کر ہورہی ہے، ڈرائنگ رومز میں، کارنرمیٹینگز میں، جلسوں میں، پریس کانفرنسز میں، اور اب پارلیمنٹ کی تقاریر میں بھی، سیاسی جماعتیں اختلاف سے جینے اور آگے بڑھنے پر یقین رکھنے کے بجائے انتقام اور بدلہ لینے اور تکلیف پہنچانے پر کاربندہیں، جو رجحان اس وقت قومی منظرنامے میں دکھ رہاہے اس میں حکومت اپنے کام کرنے کے بجائے اپوزیشن کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔

بجائے ادارے اپنے کام میں مصروف ہوں وہ بھی سیاست سیاست اور سازش سازش کھیل رہے ہیں، قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس آئے گا کہ نہیں اس سوال کا جوان عمران خان کی ڈھائی سالہ دور حکومت میں بھی نہیں مل سکا، مہنگائی نے قوم کو دبوچ لیا ہے، دم گھٹ رہاہے، بچانیکی آوازیں ضرور آرہی ہیں لیکن کوئی آنہیں رہا، حد یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ ٹھیک سے کام نہیں کررہا، لوگوں میں مایوسی اسی طرح بڑھ رہی ہے جیسے ماسٹر رفیق میں بھری ہوئی ہے، حکومت اور اپوزیشن ملک کوجس طرف لے جانیکی کوششیں کررہے ہیں وہ کھینچاتانی کوئی نقصان بھی پہنچاسکتی ہے۔

کیونکہ اندرونی ماحول کے ساتھ ساتھ بیرونی صورتحال بھی شدیدتوجہ طلب ہے، ماسٹر رفیق بہت پریشان اور بے چین ہیں وہ کہتے ہیں دشمن اندرونی خلفشار مچانے کیساتھ بیرونی طورپربھی ہمیں اکیلاکرنے میں لگا ہوا ہے، سیاسی جماعتوں کو اگر ہوش نا آیا تو عوام کو کچھ کرناہوگانہیں تو پھر آخری راستہ وہی ہوگاجس کے ہونے پر سیاستدان ناراض ہوتے ہیں اور عوام خوش۔