پاکستانی سیاست طفلانہ دور سے نکل ہی نہیں پا رہی،سیاستدانوں کی حب الوطنی اورعوام دوستی صرف تقا ریر اور میڈیا ٹاکس میں نظر آتا ہے۔یہ خوابوں کے بیوپاری ہیں،جھوٹ مکاری ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ان کی سیاست کا مقصد حصول اقتدار ہی ہوتا ہے۔جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اپوزیشن کاہر عمل ملک اورعوام دشمن نظر آتا ہے۔احتساب کو محض سیاسی انتقام اور اپوزیشن کو دبانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔مخالف سیاستدانوں پر کرپشن کے بڑے بڑے کیسز بنائے جاتے ہیں۔
انھیں جیل بھیج دیا جاتا ہے، مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا،وہی سیاستدان ان کیسوں سے باعزت بری ہوکر جیلوں سے نکل آتے ہیں یا پھر کرپشن کے کیسز سرد خانے کی نذر ہوجاتے ہیں۔جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور مسلم لیگ ن اپوزیشن میں،تو نواز شریف اور شہباز شریف کے جوشیلے تقریر ہمارے ذہنوں میں اب بھی گونج رہے ہیں کہ میں زرداری سے قوم کا لوٹا ہوا پیسہ وصول کرونگا۔جب مسلم لیگ ن کو حکومت ملی تو سب وعدے،دعوے بھول کراقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف رہے۔
اس دفعہ مسلم لیگ ن،پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام ف تینوں کو جب اقتدار میں حصہ نہ ملا تو تینوں تڑپنے لگے،خاص کر مولانا فضل الرحمان وہ تو عمران خان پر سخت سیخ پا ہیں۔یہ تینوں کل کے دشمن آج دوست بن کر اتحادی ہیں۔نواز شریف جو شدید بیمار نظر آرہے تھے،وہ لندن پہنچ کر تندرست ہو گئے ہیں اور وہیں سے حکومت کے ساتھ ساتھ فوج کے خلاف بھی زہرا فشانی شروع کر دی ہے۔اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو،،اس حمام میں سب ننگے ہیں،، والا معاملہ نظر آتا ہے۔
نواز شریف کے سیاسی سفر کا آغاز ہی جنرل ضیاء الحق کی بیساکھیوں سے ہوا۔وہ کس منہ سے فوج کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔آج ان کو فوج اور ادارے برا نظر آرہے ہیں جب انھیں حکومت نہیں ملی۔مولانا فضل الرحمان اب جب حکومت میں نہیں ہیں تو انھیں حکومت اور ادارے غلط نظر آرہے ہیں،اگر انھیں فوج سے الرجی ہے تو اس نے جنرل مشرف کا وردی میں کیوں ساتھ دیا تھا۔اب ان تینوں کو تکلیف یہ ہے کہ یہ حکومت میں نہیں ہیں،اگر ان کو آج بلا کر حکومت دی جائے تو پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائیگا۔
اس دفعہ تو مسلم لیگ ن نے ساری حدیں پار کر دی ہیں،ان کے رہنماء ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں جو تقریر میں انکشافات کیئے ہیں،وہ قطعی ملکی سالمیت اور بقاء کے لیئے سود مند نہیں۔ اس طرح کے ملکی بقاء اور سالمیت کے حوالے میٹنگوں کی باتوں کو سر عام نہیں کرنا چاہیئے، قطع نظر اس کے کہ جھوٹ ہیں یا سچ۔کیونکہ ہمارے ازلی دشمن ہندوستان اس طرح کے الزامات کو لے کر اپنے میڈیا کی زینت بناتا ہے،ہمیں ہرگز ایسے اعمال سر انجام نہیں دینے چاہئیں جس سے ہمارا دشمن خوش ہو۔ہر چیز کی حد ہوتی ہے۔
ایک دوسرے کی مخالفت اور ذاتی انا و لالچ میں اس حد تک نہیں جانا چاہیے کہ ہمارے اداروں کا وقار مجروح ہو۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سیاسی گٹھ جوڑ ان کے اپنے مفادات اور حصول اقتدار کے لیے ہے نا کہ عوام اور ملک کے لیے۔مسلم لیگ ن کے رہنماء ایاز صادق کا حالیہ بیان خاص کر اورجو نوازشریف کے تقاریر ہیں،ان کا بوجھ مسلم لیگ خود بھی اٹھا نہیں پا رہی کیونکہ مسلم لیگ ن کے اکثر اراکین اس حد تک جانا نہیں چاہتے۔پارٹی کے اندر بے چینی بڑھ رہی ہے۔لہذا سیاست کو سیاست ہی کے حد تک رہنے دیا جائے۔