پاکستان میں گلوبل وارمنگ، دہشتگردی جیسے چیلنج سے زیادہ گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ملک میں ہر سال ہتھیاروں سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی سے اموات ہوتی ہیں۔ ایک غیر ملکی تحقیقی ادارے ’انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلوایشن‘ کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 25 ہزار افراد آلودگی سے ہلاک ہوجاتے ہیں جب کہ دہشتگردی کے خلاف برسوں سے جاری جنگ میں اب تک 60 ہزار افراد مارے گئے ہیں۔ پاکستان آلودگی سے ہلاکتوں میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔
گلوبل وارمنگ سے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں جس سے ان کا سارا پانی سمندروں میں آجائے گا جو شہر سطح سمندر سے نیچے ہیں وہ ڈوب جائیں گے۔ اس فہرست میں کراچی کا نام بھی شامل ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050 ء تک کراچی کے مکمل طور پر ڈوبنے کا خدشہ ہے کیونکہیہ سطح سمندر سے نیچے واقع ہے۔ ملک بھرمیں خصوصا ًکراچی میں گلوبل وارمنگ سے حرارت میں دھیرے دھیرے اضافہ ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ مثلاَ حال ہی میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ کچھ سال قبل ہیٹ وے سے بے شمار لوگ جان سے گئے۔ ہیٹ وے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کا سب سے بہترین راستہ جنگلات کی حفاظت اور شجرکاری (یعنی نئے پودوں کو لگانا)ہے۔ درخت اور پودے کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کردیتے ہیں جس سے ماحول میں اس کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔جنگلات کسی بھی ملک یا شہر کی معیشت کا لازمی جز ہیں۔ ملک کی متوازن معیشت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات پھیلے ہوں۔ جنگلات قدرتی وسائل کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ کراچی میں صرف 5% فیصد رقبے پرجنگلات ہیں جن میں مینگرووز (تیمر) کے جنگلات اور ملیر سمیت گڈاپ کے باغات اور زرعی اراضی شامل ہیں۔
کراچی کے ساحلی پٹی سینڈزپٹ سے لیکر قاسم پورٹ تک مینگرووز کے جنگلات موجود ہیں۔ماہرین کے مطابق مینگرووز کے پودے دیگر پودوں کے مقابلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی 18 فیصد زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ نہایت ماحول دوست ہوتے ہیں۔ خاص طور پر کراچی جیسے شہر کے لیے جہاں پہلے ہی فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے۔کراچی میں جنگلات کا رقبہ اس لئے بھی کم ہو رہا ہے کہ یہاں پر جنگلات کو بے رحمی سے کاٹا جارہا ہے۔جہاں بڑی بڑی ہاؤسنگ اسکیمز بنائے جارہے ہیں۔ سینڈزپٹ کے مینگرووز کے جنگلات کو کاٹا جارہا ہے جہاں ہاؤسنگ اسکیمیں بنائی جارہی ہیں۔
اسی طرح نیٹی جیٹی برج کے آس پاس مینگرووز کے جنگلات کو کاٹ کر فائیو اسٹار ہوٹل اور بڑی بڑی عمارتیں بنائی گئیں۔ جبکہ مائی کلانچی روڈ کے اردگرد مینگرووز کے جنگلات پر گھر بنانے کا منصوبہ جاری ہے۔حال ہی میں صدر عارف علوی نے ایک آرڈیننس کے ذریعے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ جس کا مقصد ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی 1050 کلومیٹرکی ساحلی حدود میں جتنے بھی جزائر ہیں، جن میں جزیرہ ہفت تلار، جزیرہ مالان، جزیرہ بدو، جزیرہ بندل، جزیرہ چرنا، کلفٹن صدفہ چٹانیں، جزیرہ خپریانوالہ سمیت دیگر تین سے زائد جزائر شامل ہیں۔
انہیں ترقی کے نام پر قبضے میں لیا گیا۔۔اتھارٹی ان جزائروں پر مینگرووز کے جنگلات کو کاٹ کر ہائی رائز بلڈنگز بنائے گی۔ اصل میں وفاق کے پورے عمل کے پیچھے سندھ اور بلوچستان کے سمندری جزائر پر قبضہ کرنا مقصود ہے جس کی شروعات دو جڑواں ڈنگی اور بھنڈاڑ جزیروں سے کی جارہی ہے۔ یہ دونوں جزائر کراچی کے ساحل پر بحیرہ عرب میں واقع ہیں۔ دونوں جزائر پر مینگرووز کے جنگلات موجود ہیں، ان جنگلات کو کاٹ کر آئی لینڈ سٹی کے نام پر ایک نیا شہر بسایا جائیگا۔ اس سلسلے میں امریکا کے بڑے سرمایہ کار تھامس کریمر کی ایسوسی ایٹ کمپنیاں اوربحریہ ٹاؤن آف پاکستان کے مابین ایک معاہدہ ہواہے۔
آئی لینڈ سٹی میں بارہ ہزار ایکڑ رقبے کو 5سے دس سالوں میں ڈویلپ کر دیا جائے گا۔ دنیا کی بلند ترین عمارت بنائی جائے گی۔ نیٹ سٹی، ایجوکیشن سٹی، ہیلتھ سٹی، رپورٹ سٹی اور دوسرا انفراسٹرکچر بنے گا۔ آئی لینڈ سٹی کراچی ڈیفنس سے ساڑھے تین کلومیٹر سمندر کے اندر بنایا جائے گا۔ سمندر کے اوپر دنیا کا جدید ترین 6 رویہ پل بنا کر اسے کراچی ڈیفنس سے منسلک کیا جائے گا۔جبکہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشینو گرافی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ دونوں جزائر چند سال کے مہمان ہیں۔ یہ جزائر موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر برد ہوجائیں گے۔
اتنی بڑی آبادی کو وہاں شفٹ کرنے کا مطلب لاکھوں لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ ویسے بھی آج کل بلڈرز مافیا کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہیں۔ آئے روز عمارتوں کا وقت سے قبل گرنا اور اموات کا رقص شہر میں عروج پر ہیں۔ ناقص میٹریل کا استعمال کرکے نہ صرف لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ بلکہ ان کی زندگی بھی ک جمع پونچی کو ہڑپ کررہے ہیں۔عمارت گرنے سے بلڈرز کو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ دوبارہ نئی عمارت میں نئے لوگوں کو بسایا جاتا ہے۔ ان مافیا زسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
معمولی کلرک سے کھرب پتی بننے والا شخص، ملک ریاض اور پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کی دوستی کے قصے مشہور ہیں جس کی بنیاد پر سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کو جزائر کی وفاقی حوالگی پر ایک خط لکھ دیا تاکہ یہ دونوں جزائر ملک ریاض کو سیاسی بنیادوں پر مل سکیں اور اس کے بدلے میں انہیں بریف کیس مل جائے۔ تاہم ماہی گیر تنظیموں اور اخبارات میں خبروں کی اشاعت کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے دونوں جزائر کو وفاق کی حوالگی پر حیرانی کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ یہ صوبائی خودمختاری پر حملہ ہے ہم اپنے جزائر پر قبضے کو نہیں مانتے ہیں۔
وغیرہ وغیرہ جیسے بیانات سامنے آگئے۔ دوسرے دن وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی میدان میں آگئے اور اس اقدام کو سندھ دشمن قراردے دیا جبکہ دوسری جانب انہوں نے ملک ریاض کو فائدہ پہنچانے کے لئے دونوں جزائر سے دست برداری کا اعلان کرچکے تھے۔ سندھ حکومت کے دوغلے پن پر وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی طیش میں آگئے۔ انہوں نے سندھ حکومت کی جانب سے جزائرکی وفاق کو حوالگی کا خط سوشل میڈیا پر جاری کرتے ہوئے تہلکہ مچا دیا ہے۔ٹوئٹر پرعلی زیدی نے سندھ لینڈ یوٹیلائزیشن ڈیپارٹمنٹ کا خط پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔
علی زیدی کاکہنا تھا کہ سب دیکھ سکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کتنی منافق ہے، سندھ حکومت نے ان جزائر سے متعلق خط جولائی 2020 کو جاری کیا تھا۔ملیر اور گڈاپ میں قدیم سندھی اور بلوچ گوٹھوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری اور ملک ریاض کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ سندھ حکومت کی آشیرواد سے ضلع ملیر میں زیر تعمیر بحریہ ٹاؤن کو سیاسی بنیادوں پر ہزاروں ایکڑ اراضی اونے پونے داموں الاٹ کی گئی جس کی مالیت 460 ارب روپے بنتی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن کو دی جانے والی ہزاروں ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی تھی۔
جس پر بحریہ ٹاؤن نے 460 ارب روپے واپس کرنے پر آمادگی ظاہر کردی تھی اور رقوم کی واپسی کا عمل تاحال جاری ہے۔سندھ حکومت کی پشت پناہی سے بحریہ ٹاؤن نے ضلع ملیر کی قدیم آبادیوں کا جینا حرام کردیا۔ ان کو گھروں سے بے گھر کیاگیا۔ سندھ پولیس کی معاونت سے گاؤں کے رہائشیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف جھوٹے اور مجرمانہ دفعات کے مقدمے دائر کیے گئے۔جبکہ گاؤں کی خواتین سے سامنا ہونے پر بھی کوئی رعایت نہیں برتی گئی۔گڈاپ اور ملیر کسی زمانے میں باغات اور زراعت کیحوالے سے مشہور تھے اور ان کی خوبصورتی بھی انہی باغات سے تھی۔
بحریہ ٹاؤن سمیت دیگر ہاؤسنگ اسکیموں نے اس خوبصورتی میں داغ ڈال دیا۔ جہاں کسی زمانے میں جنگل ہوتا تھا۔ جس سے ماحولیاتی آلودگی کنٹرول ہوتی ہے۔ ان جنگلات کی کٹائی سے کراچی میں ماحولیاتی آلودگی بڑھ گئی۔ جس کی وجہ سے کلائمیٹ چینج سے ”موسمیاتی تبدیلیاں“ رونما ہورہی ہیں۔ شہر میں ہیٹ وے میں اضافہ ہواہے جس سے صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوگئے ہیں اور سائنسی ریسرچ کے مطابق انہی بنیادی وجوہات کے تحت اب کراچی میں قدرتی آفات اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، سونامی، سمندری طوفان اور سیلابوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔
ماحولیاتی ماہرین نے اب انسانی ہاتھوں کے تحت تباہ ہوتے قدرتی ماحول کو کرہ ارض میں ہر جگہ ہر مقام پر دوبارہ بہتر کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں اور اس عمل میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ہماری حکومتیں ماحول دشمن اور پیسہ دوست پالیسیاں مرتب کررہی ہیں۔ ان کو عوام کی صحت اور قدرت کی حفاظت سے کوئی سرورکار نہیں ہے۔ جبکہ حکمرانوں کو موسمی مسائل کو اولین ترجیح دیتے ہوئے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ ملکی سلامتی کو قدرتی آفتوں کے درپیش خطرات سے بچایا جاسکے۔