|

وقتِ اشاعت :   November 9 – 2020

قانون بنانیکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ملک کو دہشتگردی اور لوٹ مار وغیرہ سے پاک کیا جائے۔ کہنے کو پاکستان ریاست مدینہ بننے کی کوشش کررہا ہے۔ مگر یہاں کے حکمران شاید یہ بھول چکے ہیں کہ ریاست مدینہ میں انصاف کیسے ہوتا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی تعالیٰ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی تعالیٰ کے انصاف کو بھول چکے ہیں۔ یا انکے انصاف کرنے کے طریقوں کا انہیں کوئی علم نہیں ہے۔پاکستان کے قانونی نظام میں شروع دن سے بگاڑ تھا جو اب تک ہے۔ یہاں قانون غریبوں اور لاچاروں کے لیے بنا ہے۔

طاقتور اورامیر لوگوں کے لیے کوئی قانون نہیں، انکا جو دل چاہے وہ کریں۔ اور ہر روز قانون کی دھجیاں اڑائیں۔ پاکستان میں سب سے پہلے پولیس کا نظام بد ترین بدنظمی کا شکار ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے مگر یہاں اسلامی اصولوں کاپابند کوئی بھی نہیں ہے۔ اسلام نے رشوت دینے اور لینے والے یعنی دونوں کو جہنمی قرار دیا ہے مگر پاکستان کی پولیس رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتی۔ انکے پاس جب کوئی بھی شخص اپنی عرضی لے کر جاتا ہے FIR درج کرنے کے لیے انکے منہ سے سب سے پہلے یہی الفاظ نکلتے ہیں کہ چائے پانی دو۔

مطلب رشوت دو پھر FIR درج ہوگا ورنہ نہیں۔جب پولیس کسی عام شخص کی عرضی پر کسی طاقتور انسان کے خلاف FIR درج کرتا ہے تو اس میں ایسے دفعات لگاتاہے کہ وہ FIR بے ضرر ہو جاتا ہے اور طاقتور مجرم کو اس FIR سے کوئی فرق نہیں پڑ تا اور جسکے ساتھ ظلم ہوا ہوتا ہے وہ بیچارہ کچھ بھی نہیں کر پاتا۔اگر پولیس کسی مجرم کو رنگے ہاتھوں پکڑ بھی لیتا ہے اس سے رشوت لے کر بغیر FIR کے چھوڑ دیتا ہیجسسے مجرم کومزید شہ مل جاتی ہے اور وہ معاشرے میں مزید غلط کاموں کا مرتکب ہوتا ہے۔
پولیس کے بعد ہمارے ملک پاکستان کے عدالتی نظام کا حال بھی کوئی بہتر نہیں ہے۔

عدالتوں میں لوگ انصاف کے لیے جوانی سے بڑھاپے تک انتظار کرتے رہتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا۔ ایک چھوٹا سا کیس بھی کہیں سالوں تک چلتا رہتا ہے اسکا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ اقتدار اعلیٰ کو چاہیے ملک بھر میں پولیس تھانوں میں کیمرے لگوادیں اور اسکی مکمل مانیڑنگ کریں۔پولیس کی بہتر کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے ایک سرکاری کمیٹی تشکیل دی جائے۔کسی بھی پولیس تھانے میں کسی بھی شخص کی مدعیت میں FIRدرج کیا گیا ہو، اس مدعی سے پولیس کے علاوہ اس سرکاری کمیٹی کے ممبران بھی تفتیش کریں اور عدالتوں میں ہر کیس کے لیے ایک خاص مدت مقرر کی جائے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے جائیداد کے کیس کا فیصلہ تین ماہ کے اندر ہو، قتل کے کیس کا فیصلہ دو ماہ کے اندر ہو۔ اس طرح سے ہر کیس کے لیے وقت مقرر کیا جائے کہ اتنی مدت میں کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔اگر فیصلہ مقررہ وقت میں نہیں ہوتاتو اس کیس کے جج کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس سے عدالتوں پر کیسز کا بوجھ کم ہو جائے گا اور لوگوں کو بروقت انصاف ملنے لگے گا۔