|

وقتِ اشاعت :   November 14 – 2020

آپ بخوبی واقف ہیں کہ بلوچستان جہاں تک روایات کا امین خِطّہ ہے اسی طرح خوبصورت سیاسی روایات کا پاسدار دھرتی بھی ہے۔قبائلی تنازعات کی حد تک دیکھاجائے تو یہاں جنگی میدان ضرور سجتے رہے ہیں مگر تاریخ میں ہم نے کسی مْہذّب بلوچ اکابر کو اپنے مخالفین پہ غیراخلاقی فقرہ کستے نہیں دیکھا۔ جہاں تک بلوچ سماج کے سیاسی تاریخ کی بات ہے تو ماضی بعید کی شاندار سیاسی روایات تو عظیم تر رہی ہیں۔ دو دہائی کے قبل سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے توبلوچ سیاسی تاریخ میں اکابرین سے لے کر سیاسی کارکنوں تک کے درمیان نکتہ نظر اور جدّ وجہد کے طریقہ کار پہ اختلاف تو ہوتی رہی ہے مگر اس میں کسی قسم کا سطحی فقرہ بازی اور سیاست کی بنیاد پر ذاتی عِناد نہیں دیکھی گئی ہے۔

مختصراً بلوچ سیاست پہ بات کی جائے تو قبائلی تنازعات کے ہوتے ہوئے فراست، سیاسی تدبّر، اور رواداری و بردباری بلوچستان کی سیاست کے حْسن کو دوبالا کرنے والے خاص عوامل رہے ہیں۔ بلوچ سماج کی سیاست میں بڑی وضع داری اور شائستگی رہی ہے، سیاسی رہنما یہاں کی روایات اور قبائلی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے تقاریر کیاکرتے تھے، سردار عطاء اللہ خان مینگل، نواب خیربخش مری، میرغوث بخش بزنجو، شہید نواب اکبرخان بگٹی، میرگل خان نصیر و دیگر کئی سیاسی رہنما سخت ترین سیاسی مخالفین کے بارے میں نکتہ نظر پیش کرتے وقت شائستگی اور وضع داری کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھتے تھے۔

لیکن! انتہائی درد کیساتھ کہنا پڑتاہے کہ چند برس پہلے بلوچ سیاست کی موت کے اسباب نمودار ہونے لگے مثلاً سیاسی مخالفین کو قتل کرنا، سیاسی کارکنوں کو زد کوب کرنا اور زیادہ تر حلقوں میں جب بچی کْچِی سیاسی غیرت کی موت واقع ہوئی تو وہاں سیاست میں گالم گلوچ نے جنم لیا جو اب پورے شباب میں ہے، ایسا لگتاہے کہ یہ اپنی موت سے پہلے پورے بلوچ خطّے کی سیاست کو مارکر چھوڑنے والی ہے۔ موجودہ وقت میں بلوچ سماج کی سیاست میں جو لب و لہجہ استعمال ہورہا ہے سیاسی روایات تو کیا بلوچی روایات کی پامالی کے ساتھ ساتھ قوم کی ناک کٹنے کے مترادف عمل ہے۔

سیاسی اختلافِ رائے میں شخصیات کی قبائلی حیثیت پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ دستار اچھالے جارہے ہیں، روایات کو روندا جارہاہے، تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سماجی ضابطوں، بلوچی و سیاسی اقدار و روایات کو مدنظر نظر رکھنے کے بجائے ہلکا پن کا مظاہرہ ہورہاہے۔بد قسمتی سے سیاسی اختلافات، ذاتی ناراضگیاں، غْصّہ، عِناد، بغض و نفرت کی شکل اختیار کرچکے اور مزید کررہے ہیں جن کے نتیجے میں مختلف سیاسی و قبائلی اکابرین کے مداحِین جو ایک مٹی سے جنم لینے والے ایک ہی بلوچ ماں کے فرزند ہیں۔

ایک دوسرے کے ذات کو بْرا بھلا کہتے پھر رہے ہیں، گالم گلوچ کرتے ہیں۔ غیر شائستہ و غیر مْہذّب بیانات و پوسٹس جاری ہوتے ہیں جو نہایت مایوس کْن و افسوس ناک رویہ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ قبائلی تنازعات اپنی جگہ، ان کا حل ہونا نہ ہونا ایک الگ معاملہ مگر عظیم سیاسی روایت یہ ہے کہ چاہے کتنی ہی مجبوری کیوں نہ ہو، کسی وقت کے سیاسی مخالفین کو اتنی جگہ چھوڑنی چاہئے کہ وقت آنے پر کسی مشترکہ ایجنڈے پر ایک ساتھ ہوسکیں۔ معاملہ فہم سیاسی کارکن کا تو شیوہ ہے کہ کبھی بھی سیاسی مخالفین کے لیے تمام کے تمام دروازوں کو بند نہیں کرتا۔

وطن واسیو! غازی نورا مینگل بلوچ، سردار نورالدین مینگل،شہبازخان گرگناڑی، سردار رسول بخش ساسولی، میرخان محمد گرگناڑی، لالو مینگل، غازی سلیمان گرگناڑی، گہرام مینگل، نواب نوروزخان زہری، شہزادہ عبدالکریم احمدزئی، نواب خیربخش مری، نواب اکبر خان بگٹی سمیت تمام شہید اکابرین و جْہد کاران اور سردار عطاء اللہ خان مینگل، سردار اخترجان مینگل، ماما قدیر بلوچ، حسیبہ قمبرانی بلوچ، سیما بلوچ، حوران بلوچ، سمی بلوچ، ماہ گنج بلوچ، ماہ رنگ بلوچ، مہلب بلوچ سمیت تمام زندہ و حیات اکابرین و جْہدکاروں کے قربانیوں کی لاج رکھنے کی ضرورت ہے۔

بلوچ قوم کے عظیم فرزندو! قوم کے جگرگوشے جانانِ پِدر و مادر شہید و لاپتہ ہیں، وطن کی مائیں بیٹیاں سڑکوں پہ بھٹک رہی ہیں۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی کا فقدان ہے۔ ساحل و وسائل دسترس سے باہر ہیں۔ الغرض! بلوچ قوم اور بلوچ دھرتی جس کربناک منزل سے گزررہی ہے اِسے وقتی مراعاتی سیاست کی قطعاً ضرورت نہیں بلکہ بہترین حکمتِ عملی کے تحت سیاسی تدبّر، سیاسی رواداری، بردباری کے ساتھ ساتھ حالات کا ادراک کرتے ہوئے فہم و فراست کے ساتھ حقیقی سیاست کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

میں بلوچ سیاسی و قبائلی عمائدین بالخصوص جھالاوان کے عظیم قبائلی و سیاسی اکابرین اور کارکنان سے مْلتمس ہوں کہ بلوچ سماج کو مزیدنفرتوں کی بھینٹ چڑھنے مت دیجئے۔ قبائلی تنازعات کو خالص فریقین کی حد تک رکھ کر اپنی بساط کے مطابق جلد حل کرنے کی کوشش کیجئے۔سب صبر و تحمل سے کام لیں، گالم گلوچ کی سیاست کو موت دینے کی ہرممکن کوشش کریں، ہر بلوچ سیاسی کارکن اپنے جماعتی پیغام کو لیکر بلوچ قوم کے حق میں مثبت سیاست کرے اور بلوچ سماج کے قبائلی عمائدین قبائلی تنازعات کو جلد حل کرنے کی حتّی الاِمکان کوشش کریں۔
“وائے وطن ہْشکین دار”