|

وقتِ اشاعت :   November 14 – 2020

بلوچستان پاکستان کا وہ خوبصورت اور خوش قسمت صوبہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی سرزمین پر قائم کیا ہے جس کی سرحدیں پڑوسی ممالک سے لگتی ہیں تو اپنے محل وقوع اور وسیع ساحل وسائل کی بدولت یہ صوبہ دیگر صوبوں کی نسبت ملک عزیز کو آمدنی کی صورت میں بہت کچھ دے رہا ہے۔ اس کے خوبصورت ساحل کو جوگڈانی سے گوادر اور جیونی تک سات سو کلو میٹر طویل سمندری رقبہ ہے اس قدر خوبصورت سمندری ساحل اور وسائل کے باوجود اس صوبے کی پسماندگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ہر آنے والی حکومت نے بلندو بانگ دعویٰ کیے ہر حکمران نے شہد اور دودھ کی نہریں بہانے کی قسمیں کھائیں۔

لیکن ہماری ان گناہ گار آنکھوں نے ایسی کوئی خاص ترقی اس صوبے کی ہوتے نہیں دیکھی کہ جسے مثال دے کر اس کا ذکر یہاں کیاجائے۔اگر یہ ساحل جاپان‘کوریا‘ سمیت دیگر یورپی ممالک کے پاس ہوتاتو اس خطے کی قسمت چمک اٹھتی، یہاں کے مکین دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار کیے جاتے، جدید طرز تعمیر کے شہر آباد ہوتے،جدید نظام کے تحت یہاں کے مکینوں کو تعلیم‘صحت‘ پختہ سڑکوں سمیت دیگر سہولیات حاصل ہوتیں لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں۔گڈانی کو چھوڑ کر جیونی‘ تربت‘ پنجگور‘ مکران ڈویژن کہلاتا ہے۔

لیکن اس خطے کی حالت زار پر دل ماتم کرنے کو کرتا ہے محض ایک سی پیک کی سڑک کو ترقی سے منسوب کرنا یہاں کے لوگوں کے جذبات سے نہ صرف کھیلنے کے مترادف ہے بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے بلکہ یوں کہیے کہ بلوچستان کے لوگوں کا اپنے لفظوں میں مذاق اڑانے کے متراد ف ہے کیونکہ بلوچستان خصوصاً اس خطے کی ترقی کی باتیں سن سن کر ہم نے نوجوانی سے لے کر بڑھاپے میں قدم رکھتے ہوئے کئی بار سنا لیکن آج بھی اس خطے کی محرومیوں کو لفظوں میں بیان کرنا میرے لیے نا ممکن ہے کیونکہ یہ خطہ وسیع وسائل رکھنے کے باوجود شدید ترین پسماندگی کا شکا رہے۔

لسبیلہ ضلع کا بلوچستان کے دیگراضلاع سے مقابلہ یا جائز ہ لے کر بتایاجائے تویہ بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع قرر پانے کا اعزاز حاصل کرکے ”گولڈ میڈل“ حاصل کر سکتا ہے کوئٹہ کے دارالحکومت سمیت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے کئی سو کلو میٹر دور ہونے کا نتیجہ پہاڑ اوجھل نظر اوجھل والی بات ہے یعنی اس کی ترقی کاغذوں تک محدود رہی، خود اس خطے کی سرزمین پر پسماندگی،لا چاری اور بزگی کے سوا کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا۔اس وسیع ساحل کو ترقی یافتہ بناتے ہوئے یہاں کی نایاب مچھلیوں کا شکار کرکے انہیں جدید ترین نظام کے تحت باہر ملکوں کو بھیجا جاتا تو نہ صرف ملک بلکہ یہ صوبہ بھی ترقی کرتا لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہ تو آج تک دیکھنے کو ملا ہے۔

نہ ہی مستقبل میں ایسا کچھ دیکھنے کو ملے گا اس لیے کہ حکومتیں اور حکمران دونوں اس صوبے اور خصوصاً اس خطے کے ساتھ مخلص ہی نہیں ہیں انہیں بلوچستان کے وسائل اور حکومت کرنے سے غرض ہے نہ کہ یہاں کے مکینوں کی ترقی سے‘ یہی وجہ ہے کہ گڈانی کے ساحل پر جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو یہاں کے مچھیروں کی بود وباش اور طرز زندگی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ یہ مخلوق کس طرح پسماندگی کا شکار ہیں۔حب کی سرزمین کو کارخانوں کا شہر کہا جاتا ہے جہاں دنیا بھر کی چھوٹی بڑی فیکٹریاں قائم ہیں ان کے قیام سے بلوچستان کو وہ فوائد حاصل نہیں ہوئے جو ہونے چاہئیں تھے۔

ہاں البتہ چند علاقائی شخصیتوں یا میر و معتبرین کو شاید ذاتی فوائد دئیے جارہے ہوں البتہ عوام الناس کو ان کا رخانوں میں ملازمتیں دینے اور انہیں ٹریننگ دینے کی سہولت دور دور تک نظر نہیں آتی۔یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں ایک طرف بے روزگاری کا دور دورہ ہے دوسری طرف پسماندگی کا شکار لوگ بس اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں سے صرف”زندہ“ ہیں ان کی طر ز زندگی دیکھ کر لگتا نہیں کہ یہاں زندگی کے کچھ آثار ہیں۔ گڈانی کے ساحل کو دیکھ کر دکھ ہوا اوردل رنجیدہ بھی کہ آج اس ساحلی علاقہ کو سالوں بعد دیکھا تو بھی جوں کا توں‘ وہی پرانی سنگل اور ٹوتی ہوئی سڑک۔

آس پاس کے مکانات کی حالت زار اور اجھاڑ پن دیکھ کر ساری کہانی سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ علاقے کے لوگ ایک سازش کے تحت مسلسل پسماندہ رکھے جارہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھا جو ہر آنے والی گاڑی مالکان کے آگے ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ان بچوں نے اور انکے والدین نے ”زندہ رہنا ہے“ اس لیے ان بچوں کو وہ سکولوں میں بھیجنے کی بجائے ساحلی پٹی پر بھیجتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگ کر دن اور رات کی روٹی کا بندو بست کرسکیں ورنہ ان کی زندگی کا خاتمہ ہوگا۔

میں نے ایک غریب اونٹ کی سیر کرانے والے کو محض پانچ سو روپے پکڑائے یقین جانئیے اس بوڑھے شخص کو میں نے پہلے تو حیران و پریشان پایا پھراسکی آنکھوں میں شکریہ کیلئے ایک چمک بھی پیدا ہوتے دیکھا جس نے دبے الفاظ میں میرا شکریہ ادا کیا کیونکہ یہ رقم اس کے اونٹ کے ایک پھیرے یعنی چکر کا کرایہ کی صو رت میں بہت زیادہ تھی اس لیے اسے پہلے حیرانی ہوئی پھر اسکی آنکھوں کی چمک دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ وہ تشکرانہ نظروں سے مجھ سے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہہ رہا۔

ہے میں اس کی آنکوں کی چمک کو دیکھ نہ سکا بلکہ میں ان کی بے بسی کو دیکھ کر پریشان ہوا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے کہ آج یہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔ایک ہم جیسے لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دے رکھا ہے اس کے باوجود ہم ”اور“ چاہیے میں اس قدر مگن ہیں کہ معاشرے میں ان لوگوں پر نگاہ تک نہیں ڈالتے۔بہر حال یہ قدرت کی طرف سے ہرگز پسماندہ نہیں قدرت نے اس صوبے کو اور خصوصاً اس خطے کو اس ساحلی پٹی کو بہت کچھ دے رکھا ہے لیکن کیا کیا جائے حکومتوں اور نا اہل حکمرانوں کو جن کی منفی اور انفرادی سوچ نے اس صوبے اور اس ساحلی پٹی کو پسماندگی سے دو چار کررکھا ہے۔

اس پسماندگی کو کب ختم ہونا ہے اس بارے میں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں ورنہ حالات اور قرائن سے تو لگتا نہیں کہ کبھی ان مفلوک الحال عوام کی حالت زار بدلے گی۔ حب شہرکو ”انڈسٹریل زون“ کے نام سے جانا جاتاہے اس کی ایک اکلوتی سڑک پر ٹریفک کا جم غفیر رہتا ہے قریب سے گزرنے والی گاڑیوں کی دھول اورمٹی ہر وقت اڑاڑ کر قریبی دکانوں میں چلی جاتی ہے اب اندازہ لگائیں کہ ان لوگوں کی صحت کیسے ہوگی انہیں کن کن بیماریوں نے اپنے شکنجے میں جھگڑا ہوگا،بلا اس سے ہماری حکومتوں اور حکمرانوں کا کیا واسطہ‘ان کی ایسی شاہانہ طرز زندگی ہی سب کچھ ہے۔

ان کی اس سوچ کے گرد ہی تو علاقے کی پسماندگی نظروں کے سامنے واضح ہوجاتی ہے ایسے میں مجھے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ بے ساختہ یاد آئے جنہوں نے ڈھائی سالہ وزارت اعلیٰ شپ میں تربت کو جدید سہولیات دے کراپنے نام کو ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔ سوشل میڈیا پر تربت شہر کی تصویر دیکھ کر میری آنکھوں نے دھوکہ کھایا میں سمجھاکہ یہ کوئی بیرونی ملک کا کوئی شہر ہوگا لیکن یقین جانئیے کہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے ایک سیاسی ورکر کی حیثیت سے اور تربت کا سپوت ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے بہترین مثال قائم کی ہے۔

اللہ کرے جام صاحْب بھی اپنے دور وزارت اعلیٰ میں ”حب بائی پاس“ کا افتتاح کریں جس کی تکمیل مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی،تاریخ پر تاریخ بدلتی جارہی ہے عوام اس سلسلے میں شدید مایوس ہیں اگر یہ بائی پاس بن جائے تو حب کے شہریوں نے بتایا کہ وہ اس خوشی میں خیرات کی صورت میں دیگیں تقسیم کریں گے کیونکہ بڑی بڑی گاڑیوں کی وجہ سے اس شہر کے مکین شدید نالاں ہیں وہ اس بائی پاس کے افتتاح کے ایک ایک دن کو گن رہے ہیں کہ کب این ایچ اے حکام بائی پاس کا افتتاح کریں گے اور انہیں اس عذاب سے نجات دلائیں گے۔

حکام اس کی تعمیر میں اس طرح سنجیدہ نظر نہیں آرہے یہی وجہ ہے کہ اس کی تکمیل مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ انڈین فلم کی طرح تاریخ پے تاریخ اور پھر تاریخ پے تاریخ۔