|

وقتِ اشاعت :   November 17 – 2020

اپنے سیاسی اہداف کے حصول میں جمہوری، پارلیمانی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرکے میثاق جمہوریت کی دھجیاں اڑا کر ن لیگ اور پیپلز پارٹی اب ایک نئے میثاق کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ گو کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں میثاق جمہوریت پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان ہوا تھا لیکن نیا میثاق جمہوریت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل گیارہ جماعتوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہوگا۔ 2006 میں شہید بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ایک تاریخی چارٹر پر اتفاق ہوا تھا آٹھ صفحات پر مشتمل اس تاریخی دستاویز پر اگر من و عن عمل کیا جاتا تو آج ملک ان سیاسی مسخروں کے ہاتھ نہ آتا اور یہ باہر بیٹھ کر اپنے زخموں کو نہ چاٹ رہے۔

ہوتے لیکن عادت سے مجبور دونوں جماعتیں چارٹر کی موجودگی میں 2008 سے لے کر 2018 تک مقتدر حلقوں کے اشاروں پر ایک دوسرے کی منتخب حکومتوں کو گرانے کی گھٹیا سازشیں کرتی رہیں۔ برطرف ججوں کی بحالی کی تحریک، میمو گیٹ، ڈان لیکس، بلوچستان کی صوبائی حکومت کو گرانے اور ایک ڈمی چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے کے علاوہ کئی اور ایسی سنگین سازشیں جو جمہوری اور پارلیمانی نظام کو شدید نقصان پہنچنے کا موجب بنی ہیں۔ یہ دو بڑی سیاسی جماعتیں ان سازشوں کا بلواسطہ یا بلا واسطہ حصہ رہی ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان سازشوں کے تانے بانے کہیں اور جا کر ملتے ہیں۔

لیکن ہوس اقتدار اور ایک دوسرے کو زک پہنچانے کی روش نے نہ صرف میثاق جمہوریت کو شدید نقصان پہنچایا اور سویلین بالادستی جس کے آج یہ خود مدعی بنے ہوئے ہیں کو مزید کمزور کیا،ان سیاسی کھینچا تانیوں اور آپس کی کشمکش سے فائدہ اٹھا کر مقتدر حلقوں نے ان دو جماعتوں کے مقابلے میں ایک تیسری سیاسی قوت کو سامنے لانے کا اصولی فیصلہ کیا جو کٹھ پتلی بن کر صرف ان کے اشاروں پر کھیل تماشہ دکھائے باقی حکمرانی کے مزے وہ لوٹتے رہیں۔ اور ہم سب نے دیکھا کہ ن لیگ کی حکومت کے دور میں مقتدر قوتیں کس طرح پی ٹی آئی پر مہربان ہونا شروع ہوئیں اور 2018 کے انتخابات میں اسے زبردستی کامیابی سے ہمکنار کرکے مسند اقتدار پر براجمان کرایا۔

پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی طرف سے بعض ایسے جمہوری اور پارلیمانی آداب اور روایات کے منافی اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے جمہوریت اور پارلیمانی سیاست کو نقصان پہنچا تو وہیں دونوں جماعتوں نے بردباری اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میثاق جمہوریت پر عمل کرکے اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعہ 1973 کے آئین کو اس کی اصل حالت میں بحال کرایا جس سے کسی حد تک صوبوں کو مالی اور انتظامی خودمختاری ملی لیکن باقی صوبوں کے برعکس جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے جبر سے پیدا ہونے والی انسرجنسی نے بلوچستان کو اس کے مثبت ثمرات سے محروم رکھا۔

کیونکہ جنرل مشرف کی آمریت کے بعد بھی آنے والی سویلین حکومتوں نے وہی جبر کی پالیسیاں جاری رکھیں۔ سی پیک معاہدہ میں گوادر کو مرکزیت کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود وہاں کے لوگ اس کے ثمرات سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ وہ اقلیت میں تبدیل ہونے کے خوف کا شکار ہیں۔ اسی طرح صوبائی خود مختاری پر شب خون مار کر ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر وفاق نے قبضہ کرلیا اور اب جنوبی بلوچستان کی اصطلاح کو بروئے کار لاکر بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی مذموم کوششوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔

پی ڈی ایم میں شامل بلوچستان سے تعلق رکھنے والی دو بلوچ قوم پرست جماعتیں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی یہ آس لگائے بیٹھی ہیں کہ نئے میثاق جمہوریت میں خصوصی طور پر بلوچستان کی محرومیوں کو دور کرنے سے متعلق اہم نکات شامل کیے جائیں گے اور جب اپوزیشن جماعتیں اقتدار میں آئیں گی تو ان نکات پر عمل درآمد کرایا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق ان نکات کی تیاریوں سے متعلق دونوں جماعتوں میں مشاورت کا آغاز ہوگیا ہے، بلوچستان کے عوام کے لئیے یہ یقیناً ایک خوش آئند بات ہے۔

اس لئے کہ نہ صرف دونوں جماعتیں بلوچستان کے اہم مسائل سے متعلق نئے چارٹر میں اہم نکات شامل کرنے کے لئے ہم گام ہیں بلکہ ان کی ہم آہنگی سے مستقبل میں اتحاد و یگانگت کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں جس سے بلوچستان میں ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کی طرح قائم بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کو داخل ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی نئے میثاق جمہوریت میں جن نکات کو شامل کرنے کے لئے مشاورت کر رہی ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں

٭گوادر کے عوام کو اقلیت میں تبدیلی ہونے سے بچانے کے لئے قانون سازی کی جائے
٭ لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور مستقبل میں اسے ایک سنگین جرم قرار دینے سے متعلق قانون سازی کی جائے
٭ گوادر پورٹ کو صوبائی حکومت کے حوالے اور پورٹ میں مقامی افراد کو روزگار کی سہولتوں میں ترجیح دی جائے
٭ جنوبی بلوچستان کے نام پر بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازشوں کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے
٭ بلوچستان میں سیاسی اور انتخابی عمل میں ریاستی اداروں کی مداخلت کو ختم کیا جائے
٭ بلوچستان اور سندھ کے جزیروں کو وفاق کی تحویل میں دینے سے متعلق صدارتی آرڈیننس کو واپس لیا جائے
٭ بلوچستان کا مسئلہ طاقت کے بجائے سیاسی مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جائے ٭ ملک سے باہر بیٹھے بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کیا جائے۔

بلوچستان کے اہم مسائل سے متعلق یہ وہ بنیادی نکات ہیں جنہیں نئے میثاق جمہوریت کا حصہ بنانے کے لئے بلوچ قوم پرست جماعتیں کوشاں ہیں، اپوزیشن جماعتیں نئے میثاق جمہوریت کے علاوہ ایک ٹروتھ کمیشن بنانے اور قیام پاکستان سے لے کر آج تک جتنے بھی قومی المیہ اور سانحات پیش آئے ہیں ان کی مکمل تحقیقات کرکے رپورٹ قوم کے سامنے لانے کے مطالبے پر بھی غور کر رہی ہیں۔ اسی طرز پر نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی بھی جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے دور میں بلوچستان میں ہونے والے ریاستی جبر پر ایک ٹروتھ کمیشن بنانے کا مطالبہ۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قائدین کے سامنے پیش کرنے کے لیے مشاورت کر رہی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کے ذریعہ نواب اکبر بگٹی کو شہید کیا گیا، سیاسی کارکنوں، طالب علموں، شاعر اور دانشوروں، انسانی حقوق کے کارکنوں، اساتذہ اور طالب علموں کی جبری گمشدگی میں شدت آئی اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ شروع ہوا، مقامی گماشتوں پر مشتمل ڈیتھ اسکواڈ قائم کیے گئے جو درندوں کی طرح اپنے اور اپنے آقاؤں کے مخالفین کو چن چن کر بے دردی سے قتل کرکے ان کی لاشیں اجتماعی قبروں میں دفناتے تھے، بلوچستان کو اس نہج پر پہنچا دیا گیا تھا۔

جہاں سیاسی ڈائیلاگ کے بجائے بندوق کے ذریعہ اپنی بات منوانے کے رجحان نے فروغ پایا جس کی وجہ سے برادر کشی کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس کی زد میں آکر کئی اہم سیاسی رہنما شہید کر دئیے گئے۔ بلوچ قوم پرست جماعتوں کو اپنی سیاسی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہوکر بلوچ قوم اور بلوچستان کے عظیم تر مفاد کے لئے اتحاد و یکجہتی کے ساتھ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے موثر انداز میں استعمال کرنا ہوگا۔نئے میثاق میں بلوچستان کے مسائل کے حل سے متعلق تیار کیے جانے والے نکات کو اپنا ہدف بنا کر ہر صورت انہیں میثاق جمہوریت کا حصہ بنانا ہوگا۔


اور خاص طور سے ٹروتھ کمیشن کے قیام اور جنرل پرویز مشرف دور میں ریاست کی سرپرستی میں بلوچستان میں ہونے والے جرائم کی شفاف تحقیقات کرانے کا مطالبہ نہایت اہم ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی تلخ حقیقتوں کا ادراک ہونے کے باوجود اور حال ہی میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی طرف سے سیاسی قلابازیاں لینے کے بعد بھی بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو اپنے موقف پر ثابت قدم رہنا ہوگا،مستقل مزاجی، ثابت قدمی اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد سے ہی کامیابی کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں کیوں کہ اس وقت بلوچستان کے کرب اور اذیت کو کم کرنے کے لئے اتحاد و یکجہتی کے ساتھ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو موئثر انداز میں استعمال کرنا ہی بہتر ین حکمت عملی ہے۔