گزشتہ دنوں چیف آف جھالاوان سردار ثناء اللہ زہری اورریٹائرڈ جنرل قادر بلوچ نے ایک تقریب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کیا۔بظاہر انھوں نے پارٹی چھوڑنے کی جو وجوہات بیان کیں وہ روایتی الزامات ہیں۔سردار ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ ہم نے بلوچستان میں ن لیگ کوفعال کیا،مگر نواز شریف نے ہمارے ساتھ بے وفائی کی،ہمیں اہمیت نہیں دی۔ریٹائرڈ جنرل قادر بلوچ نے بھی کچھ اسی قسم کے وجوہات کا اظہار کیالیکن پس پردہ جو وجہ ہے جس کا ہر کوئی گمان کر رہا ہے وہ میاں نواز شریف کا سخت بیانیہ یا الزامات ہیں۔
جس میں انھوں فوج پر الزامات لگائے ہیں،جس کا بوجھ پارٹی کے رکن اٹھانے کو تیار نہیں،جس کی وجہ سے بلوچستان سے دو نوں رہنماء میاں نواز شریف کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔لگتا یہ ہے میاں نواز شریف کی اس سخت بیانیہ اورایوان میں ایاز صادق کی تقریر کی وجہ سے پنجاب سمیت اور صوبوں سے مسلم لیگ کے اراکین کا میاں نواز شریف کا ساتھ دینے میں قدم لڑکھڑانے لگے ہیں۔پاکستان میں یہ روایت رہی ہے ہم جانے والوں کو گالیاں دیتے ہیں اور ہر نئے آنے والے کی خوش آمد کرتے ہیں۔ اسی طرح ان دونوں رہنماؤں کا اپنے سابق قائد میاں نواز شریف پر الزامات لگانا یا برا بھلا کہنا کوئی انہونی نہیں۔
بلوچستان میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے،یہاں قبائلی نظام مضبوط ہے،سردار یا کوئی شخصیت اپنا پارٹی بنائے یا مسلسل پارٹیاں بدلتا رہے مگر ان کے ووٹ بینک پر خاص فرق نہیں پڑتا،جہاں بھی ہوں لوگ اسی کے ساتھ رہتے ہیں۔بلوچستان میں دو قسم کے سیاستدان ہیں ایک وہ جہاں ان کو موقع ملے حکومت میں شامل ہوجاتے ہیں،پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں،مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے اعمال کا دفاع کرتے رہتے ہیں۔اور دوسرے وہ جو خود کو کٹر قوم پرست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ ہر وقت وفاق سے شاکی رہتے ہیں۔
مگر جب حکومت میں جاتے ہیں تو ان کے قوم پرستی کے دعوے سست پڑ جاتے ہیں۔مثال کے طور پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور حاصل بزنجو م مرحوم 2013 الیکشن کے بعد جب حکومت میں شامل ہو رہے تھے تو اس وقت ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم عوام کو ڈیلیور نا کر سکے اور اگر وفاق ہمارا نہیں سنا تو ہم فوراََ حکومت سے علیحدہ ہوجائینگے۔مگر جب انھیں حکومت کا چسکا لگا تو انھیں کچھ یاد نا رہا،اور آخر تک حکومت میں رہے۔اب محسوس یہ ہوتا ہے کہ بلوچستان کے سیاستدانوں میں ماضی کے جاہ و جلال اور سخت گیریت نا رہی،ان کی قوم پرستی اب صرف بیانات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
جمہوری وطن کے پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نوابزادہ شازین بگٹی نے بھی جب عمران خان کی حکومت سے علیحدگی دھمکی دی اور وفاقی حکومت کو بجٹ بھی پاس کرنا تھا تو اس تعاون کے بدلے میں سر فہرست او جی ڈی سی ایل سے اپنے زمینوں کے رینٹ کے پیسے مانگ لیئے،حالانکہ اس کے بدلے میں عوام کے لیئے بھی حکومت سے کچھ لے سکتا تھا۔ان کا ضلع 4گیس فیلڈکے ہوتے ہوئے بھی اب تک گیس،بجلی اور دوسرے بنیادی سہولتوں کے مسائل سے دوچار ہے۔جاننے کی بات یہ ہے کہ بلوچستان میں عوام دوست اور قوم پرست رہنماء نہیں رہے،بلکہ ان کے دعوے صرف دکھاوے کے ہیں،عوام کی آڑ میں اپنے ہی مفادات کے حصول ان کا مقصد ہے۔عوام کی خیر خواہی صرف نعروں اور بیانات کی حد تک ہے۔