موٹروے گینگ ریپ سانحے کے بعد کشمور میں ماں اور بیٹی سے زیادتی کے دلسوز واقعے نے انسانیت کے دل دہلا دیے ہیں،اس واقعے نے ہم سب کو اس طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ جس کا نہ تو قلم کے ذریعے افسوس کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی چند لفظوں کے لکھنے سے اس ماں،بیٹی پر گزرنے والی قیامت، ظلم و بربریت،دکھ،پریشانی اور تکلیف کا مداوا کیا جاسکتا ہے۔بچوں کے ساتھ ایسے درد ناک واقعات و سانحات ہوتے ہیں جن کو لکھتے ہوئے قلم تھرتھرا اٹھتا ہے میں کافی دیر سے کالم لکھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر ہاتھ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔کیونکہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں۔
بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔اس واقعے پر کالم لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں پتا نہیں وہ کیسے بھیڑیے نما درندے ہیں جو ایسے معصوم بچوں کو ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس واقعے نے جہاں شرافت اور انسانیت کا لبادھا اوڑھ کر لوگوں کی عزتوں سے کھیلنے والے گدھ جیسے درندوں کو بے نقاب کیا وہاں حقیقی انسانی روپ میں نرم دل رکھنے والے فرشتہ صفت پولیس ملازم محمد بخش برڑو کی غیرت، بہادری، جوانمردی کی قابل فخر کہانی نے لاکھوں لوگوں کے دل جیت لیے ہیں جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
جہاں انسانی روپ میں حیوانوں سے بھی بدتر کچھ درندے صنف نازک کے جسموں کو نوچ نوچ کر اپنی ہوس مٹاتے ہیں، اپنے لیے جہنم کا ایندھن پیدا کرتے ہیں۔وہاں کچھ فرشتہ صفت انسان محبت و شفقت کا پیکر بن کر کئی لوگوں کے دلوں کی دھڑکنیں بن جاتے ہیں اور انہیں ان کے ایسے ایک اچھے کام سے اللہ اتنی شان و شوکت عطاء کرتا ہے جس کا انہیں کبھی گمان بھی نہیں ہوتا۔شاید ایسے نیک سیرت لوگوں کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے اور لوگ سکون کا سانس لے رہے ہیں۔واقعہ کچھ اسطرح ہے کہ کراچی سے ایک خاتون کو نوکری کا جھانسہ دے کر 4 سالہ بیٹی کے ہمراہ کشمور لے جایا گیا۔وہاں تین ملزمان عورت کو مسلسل زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔
پھر ملزمان نے بچی کو اپنے پاس روک کر خاتون سے کہا کہ کراچی میں آپ کے ساتھ جو دوسری خاتون تھی،اس کو لاؤ تو بچی آپ کو واپس کریں گے۔خاتون وہاں سے نکل کر پولیس کے پاس جا پہنچی ڈیوٹی پر موجود اسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش برڑو نے اس کی روداد سنی اور ملزمان تک رسائی کا فیصلہ کیا جو ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔اس نے گینگ ریپ کا شکار بننے والی کمسن بچی کو بازیاب کروانے اور ان درندوں تک پہنچنے کیلیے لیڈی پولیس اہلکار کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔جب لیڈی پولیس اہلکار نہ مل سکی تو اے ایس آئی محمد بخش برڑو نے رضاکارانہ طور پر آپریشن کے لیے اپنی اہلیہ اور بیٹی کا نام دیا۔
بہادر باپ کی دلیر بیٹی نے اپنے والد کی ہر ممکن مدد کرنے کا عزم کر لیا۔اس طرح پولیس ملازم محمد بخش برڑو کی بیٹی کو دوسری خاتون بنا کر متاثرہ خاتون کے ساتھ روانہ کر دیا اور خود نفری کے پیچھے چل پڑے،جیسے ہی دونوں خواتین اندر گئیں پیچھے سے پولیس بھی گھس گئی۔ایک ملزم موقع سے گرفتار ہو گیا اور دو بعد میں گرفتار ہو گئے مگر درندے اس دوران 4 سال کی معصوم بچی کا بھی ریپ کر چکے تھے۔ ان درندوں نے ماں اور اس کی 4 سالہ بیٹی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔ان پر جانوروں کی طرح وحشیانہ اور بہیمانہ تشدد کیا۔
بچی کے دانت توڑ دئیے،یہ درندے اس معصوم کا گلا دباتے رہے وہ چیختی رہی ہو گی چلاتی رہی ہوگی لیکن انسانی شکل میں موجود ان شیطانی درندوں کو اس پر ترس نہیں آیا اس معصوم کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ہمارے وطن عزیز میں آئے روز ایسے خوفناک واقعات سامنے آتے ہیں جن کو شیطانیت و درندگی کے کھلے عام مظاہرے کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اب اسلامی نظریہ کی بنیاد پر بننے والے اسلامی ملک میں ہوس کے پجاری اب پھولوں کی طرح کھلنے والے معصوم کلیوں جیسی بچیوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔درندوں سے کیا شکوہ ان کا کام تو اپنی ہوس کو مٹانا ہوتا ہے۔
وہ تو گمراہ ہو چکے ہوتے ہیں۔لیکن افسوس اس بات کا ہے جب زیادتی و درندگی کا شکار ہونے والے معصوم بچے، بچیوں کے ورثاء قانونی چارہ گوئی اور انصاف کے لیے تھانے جاتے ہیں تو انہیں ان کی بے بسی و غربت کی وجہ سے تھانے سے دھکے دے کر نکال دیا جاتا ہے۔ان کی آہوں،سسکیوں کو خاک میں ملا دیا جاتا ہے۔انہیں انصاف دینے کی بجائے دھکے دے کر انصافی ایوانوں سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔تو وہاں ایسے جرائم کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔لیکن جہاں کچھ مجرمان کی سرپرستی کرنے والے فرعون ہوتے ہیں۔
وہاں کچھ محمد بخش برڑو جیسے خود دار،غیرت مند،بہادر،نیک فرشتہ صفت انسان بھی موجود ہوتے ہیں۔جو اپنے فرائض کو باخوبی احسن طریقے سے سرانجام دیتے ہیں۔وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کشمور سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکار محمد بخش برڑو اور ان کی جانباز بیٹی کے ساتھ فون پر بات چیت کی اور کہا مجھے بطور پاکستانی آپ پر فخر ہے اور پوری قوم آپ پر نازاں ہے۔سندھ حکومت نے اس بہادر پولیس اہلکار کیلیے 10 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا اور اس کی دلیر بیٹی کے اندرونی اور بیرون ملک تمام تعلیمی اخراجات سندھ حکومت برداشت کرے گی۔
محمد بخش برڑو پاکستانی اداروں خاص طور محکمہ پولیس کے لوگوں کیلیے ایک سبق ہے انہیں اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے مائیں، بہنیں،بیٹیاں دوسروں کی نہیں اپنی ہوتیں ہیں۔جب وہ انصاف کیلیے دروازے پر آئیں تو ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے۔