|

وقتِ اشاعت :   November 19 – 2020

بلوچستان میں ترقی زمین پر نظر نہیں آتی اسکی ایک بنیادی وجہ پچھلے ستر سالوں میں منتخب نمائندوں نے اجتماعی منصوبوں کو ترجیح نہیں دی،ترقیاتی اسکیمات کے نام پر ذاتی اسکیمات منظور کروائی گئیں جسکے نتیجے میں آج بلوچستان پورے ملک سے پیچھے رہ گیا ہے۔دو ہزار دس تک بلوچستان وسائل نہ ہونے کا رونا روتا رہتا تھا اس رونے دھونے کے نتیجے میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ نے بلوچستان کو اتنے وسائل دیئے جتنے صوبے کی ساٹھ سالہ تاریخ میں نہیں ملے تھے لیکن یہ وسائل ایک سیلاب کی طرح آئے اور بہہ گئے، کوئی بند بنا کر ان پیسوں کو بچایا نہ گیا، مال مفت دل بے رحم کی طرح یہ پیسہ اراکین میں بانٹا گیا۔

اور کوئی میگاپراجیکٹ شروع ہی نہیں ہوا تو مکمل کہاں سے ہوتا۔ اس وقت سیکریٹری خزانہ محفوظ علی خان سمری پر سمری بھیج کر پیپلزپارٹی کی بلوچستان حکومت کو بتاتے رہے کہ ان پیسوں کو اس طرح ضائع کرنے کے بجائے اس سے او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے شیئرز خرید کر حکومت بلوچستان ان اداروں کی فیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں لے،تاہم ایسا نہ ہوسکا۔چرواہے کے بلوچستان میں ترقی ایک خواب ہی رہی لیکن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں بلوچستان کے چرواہے نے ایک ایسا خواب دیکھا کہ میری نمائندگی جب تک کسی عوام دوست سیاسی کارکن کو نہیں ملتی تب تک ان سردار نوابوں نے حالات نہیں بدلنے اور پھر چرواہے کے خواب کو تعبیر ملی۔

دو ہزار تیرہ میں بلوچستان میں ایک ایسا عوام دوست وزیر اعلیٰ بنا جو نہ تو سردار تھا نہ نواب بلکہ طلبہ سیاست کی پیداوار بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن سے سیاسی سفر شروع کرنے والے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ کی مسند پر فائز ہوئے۔ چرواہا ان افراد میں شامل تھا جنہیں ان کے وزیر اعلٰی بننے پر بے حد خوشی ہوئی کیونکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ وہ ایک طویل سیاسی سفر طے کرکے اس مقام تک پہنچے ہیں اور وہ صوبے کے مسائل کو حل کرنے کیلئے وژن اور پلان رکھتے ہیں اور وہ چرواہے کی قسمت بدل سکتے ہیں اور پھر مری معاہدے کے تحت ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا ڈھائی سالہ دور مکمل ہوا۔

ان ڈھائی سالوں میں بلوچستان میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی، امن و امان کا قیام انکا اور انکی جماعت کا دعویٰ ضرور ہے لیکن اسکے لئے قربانیاں بلوچستان کی عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دیں۔ لیکن جب یہ ڈھائی سالہ دو رمکمل ہوا تو ڈاکٹر مالک بلوچ نے دنیا کے سامنے اپنے ہاتھ کو اوپر کرکے تربت کی ترقی دکھائی، اس ترقی میں تربت سٹی ڈویلپمنٹ پیکج،کیچ یونی ورسٹی، مکران میڈیکل کالج انکے دائیں ہاتھ پر رکھے ہوتے جب کہا جاتا کہ باقی بلوچستان کے تیس سے زائد اضلاع میں کیا بہتری آئی تو ڈاکٹر مالک بلوچ دوسرا یعنی بایاں ہاتھ اٹھا کر اتحادی حکومت کی سیاسی مجبوریاں دکھاتے اور بتاتے کے کیسے انہیں۔

نواب زہری یا زیارتوال بلیک میل کرتے رہے اسلئے وہ وہاں کچھ نہ کرسکتے تھے یہاں تک کہ دبے لفظوں میں بتادیتے اتحادی تو چھوڑیں انکی اپنی جماعت کے ایم پی ایز بھی اپنے علاقوں میں مداخلت برداشت نہیں کرتے تھے اسلئے وہاں وہ ترقی نہ آسکی جو تربت سٹی میں آئی۔ میرا چرواہا چند دن قبل اپنا ریوڑ لے کر گرم علاقوں کو جارہا تھا اور اس نے سوچا کہ اس بار وہ پنوں کے شہر کیچ ضرور جائیگا، اسکا باقی بلوچستان تو کہیں پیچھے رہ گیا ہے سنا ہے تربت میں ڈاکٹر مالک بلوچ نے تاریخ بدل دی،چرواہا جب تربت پہنچا تو شہر کے درمیان میں کھڑا خوش ہورہا تھا کہ دیکھا میں نہ کہتا تھا یہ شخص ہم میں سے ہے۔

یہ اس علاقے کی تقدیر بدل سکتا ہے اور اس نے بدل دی۔ اگر محمود خان اچکزئی نواز شریف کو اسکی مرضی کا فیصلہ کرنے دیتا تو پانچ سال میں یہ شہر اور یہ صوبہ بلوچستان ترقی کرجاتے،وائے قسمت ایسا نہ ہوسکا۔ابھی چرواہا اس خوشی میں جھوم ہی رہاتھا کہ کیچ کے ایک بزرگ سے ملاقات ہوگئی اس نے چرواہے کو مسافر سمجھ کر پوچھ لیا کہ کہاں سے آئے ہو اور کیوں اتنے خوش ہوچرواہے نے بتایا کہ وہ عوام دوست وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے انقلابی اقدامات کو دیکھنے آیا ہے جس نے یہ شہر ایک ماڈل شہر بنا دیا ہے۔پنوں کی سرزمین کا وہ بزرگ مسکرا دیا۔

اور کہا دیکھ لی پانچ کلو میٹر کی ترقی،یہ تھا تمہارے عوام دوست وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا ویژن اب بتاؤ کیسا لگا ہمارا ترقی یافتہ کیچ۔چرواہا بول پڑا کیا مطلب؟بزرگ بولا بیٹے تم مسافر ہو اور تم جیسے مسافروں نے اور سرکاری عہدیداروں اور افسروں نے تربت میں جس مقام پر آنا ہوتا ہے وہ علاقہ اس پانچ کلومیٹر میں شامل ہے جہاں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کام کئے ہیں،اسلئے میں اسے پانچ کلو میٹرکے ویژن والا وزیر اعلیٰ کہتا ہوں۔ چرواہا بولا بابا ایسا بھی نہیں ہے تربت میں میڈیکل کالج اور یونی ورسٹی بھی تو بنی ہے۔

بزرگ نے کہا چلو چلتے ہیں پہلے کہاں چلیں یونی ورسٹی جاؤگے یا میڈیکل کالج چلیں۔پہلے میڈیکل کالج چلتے ہیں اور پھر اس بزرگ نے بتایا کہ اگر مکران میڈیکل کالج کی بات کرتے ہو تو دیکھو میڈیکل کالج بنانا بہترین اقدام ہے لیکن اسکا ہسپتال کہاں ہے ہسپتال نہیں بنایا لیکن اس میڈیکل کالج کے اندر رہائش کیلئے اسی کے لگ بھگ بنگلے ضرور بنائے ہیں،ان اسی بنگلوں کے بجائے اگر پچاس بستروں کا ہسپتال بنا دیتے تو کیا ہی بات تھی، میڈیکل کالج بھی مکمل ہوجاتا آج ان اسی بنگلوں میں دس یا پندرہ زیر استعمال ہونگے باقی سڑ رہے ہیں۔

اور پتہ نہیں کب تک سڑتے رہینگے اور یونی ورسٹی کا کریڈٹ نیشنل پارٹی لے یا ڈاکٹر مالک بلوچ حقیقت یہ ہے کہ اس یونی ورسٹی کی تعمیر میں ڈاکٹر عبدالمالک کا ایک حصہ ہے۔دوسرا یہ یونی ورسٹی منظورنواب رئیسانی کی حکومت میں ہوا اور اس یونی ورسٹی کا پراجیکٹ ڈائیریکٹرمنظور احمد کو اسی وقت بنایا گیا،یہ منظور احمد اس یونی ورسٹی کی تکمیل کو یقینی بنانے والا گمنام ہیرو ہے ایسا ہی ایک گمنام ہیرو اس یونی ورسٹی کا وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر ہے جس نے اس یونی ورسٹی کو ایک کامیاب ادارہ بنایا۔اس بزرگ نے پانچ کلو میٹر کی ترقی اور میڈیکل کالج اور یونی ورسٹی کی جو داستان چرواہے۔

کو سنائی تو چرواہا حیران پریشان سوچتا رہا،بزرگ کہہ تو درست رہا ہے بزرگ نے چرواہے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ کیا ابھی تمپ، مند،بلیدہ، دشت،چلوگے؟چرواہے نے ایک لمبی سانس بھر کر کہا بابا چلو واپس چلیں میرا خواب ٹوٹ چکا ہے سیاسی خواب اس وقت ٹوٹے جب مری معاہدے پر عمل ہوا اور ڈھائی سالہ تاریک ترین دور شروع ہوا تھا،آج ترقی کا خواب ٹوٹ چکا لیکن ابھی چرواہا بڑ بڑا رہا تھا کہ بزرگ نے سرگوشی کی کہ مایوس نہ ہو بہت کچھ بدلا ہے،موجودہ صوبائی حکومت نے ماضی کی حکومتوں کے برعکس اس پانچ کلو میٹر کی ترقی کو وسعت دینے کا کام شروع کردیا ہے۔

تربت ڈویلپمنٹ پیکج فیز ٹو کیلئے وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال نے تین ارب روپے مزید مختص کئے ہیں ہو سکتا ہے اگر یہ عمل اگلے دس پندرہ سال اسی طرح مرحلہ وار جاری رہا تو کم ازکم یہ ضلع کیچ ایک ترقی یافتہ ضلع کہلائے گا۔میں اور تم نہ سہی،ہماری اگلی نسل ترقی یافتہ بلوچستان ضرور دیکھے گا کیونکہ پانچ کلومیٹر کے وژن کیساتھ ترقی کا سفر بڑا طویل رہیگا۔ چرواہا مڈل کلاس عوام دوست رہنماء کی سیاست کو دیکھ کر مایوس سا چہرہ لئے پنوں کے شہر کیچ سے چلا آیا۔