|

وقتِ اشاعت :   November 20 – 2020

کسی بھی قوم کوجانچنے کا بہترین نمونہ اس کا کردار ہوتا ہے بد قسمتی سے آج کل ہماری پوری قوم (چند سو یا ہزار کو چھوڑ کر) مجموعی طورپر اس کی کمی کا شکار ہو گئی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ لیں اس میں اخلاقی انحطاط کو اس قدر پائیں گے کہ ا لامان الحفیظ۔ کردار ہی انسان کے وجود کا وہ اہم جز ہوتا ہے جس سے قوموں کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے آج کل ہم ہر چھوٹی بڑی مثال پر گوروں (انگریزوں) کی بات اپنے دماغ سے نکال کر اس طرح بیان کرتے ہوئے ان کے بارے میں ایسے تعریفی کلمات ادا کرتے ہیں جیسے کہ یہ کلمات صرف ان غیر ملکی گوروں ہی کے لئے ہیں۔

جبکہ ہم بحیثیت مسلمان اس کردار سازی کے عمل سے چند اں واقف ہی نہیں ہیں کہ یہ کس بلا کا نام ہے۔ چند سال قبل میرا ایک دوست امریکا سے واپس آ کر حسب روایت گوروں کی ایمانداری، وطن سے محبت سمیت دیگر موضوعات پر بات چیت کرتے ہوئے اچانک اپنی قوم یعنی پاکستانیوں کے بارے میں یہ کہہ ڈالا کہ ہم ”نا قابل اصلاح قوم“ ہیں ہم نے طے کررکھا ہے کہ ہم اخلاقیات سے کوسوں دور تھے اور ہمیشہ کے لئے دور رہیں گے،ہمارے علمائے دین جن میں مولانا طارق جمیل صاحب سے لے کر درجنوں دیگر علماء کرام ہر وقت اس بات کا درس دیتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان ہم پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

مسلمان کی شان اور پہچان دیگر قوموں سے الگ نظر آنی چائیے لیکن بد قسمتی سے ہماری الگ پہچان بیرون ملک‘ دروغ گوئی، دھوکہ بازی سمیت دیگر شعبدہ بازیوں پر جا کر ٹوٹتی ہے، یہ صورت حال ہمارے ملک میں نظر آتی ہے، قدم قدم پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے جھوٹ‘ فریب اور مکاری میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے۔مجھے قوموں کی کردار سازی بارے اس لیے قلم اٹھانا پڑا کیونکہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر سریاب روڈ پر ایک مجسٹریٹ صاحب نے ایک آئل فیکٹری پر چھاپہ مار کر مردہ جانوروں کی آلائشیں اور دیگر اعضاء سے بوائلرز کے ذریعے گرم کرکے گھی نکالنے کے دوران چھاپہ مار کر ملزمان کو گرفتار کر لیا۔

تصاویر دیکھ کر اس قدر کراہت محسوس ہوئی کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔آلائشوں کو لکڑی کے ایک اسٹینڈ پر اس طرح لٹکایا گیا تھا جیسے ان سے انسانی جانوں کے لئے بے حد مفید تیل نکالا جارہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ یہ انتہائی مضر صحت تیل ہے جو مارکیٹ میں خوبصورت لیبل لگا کر فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہ کتنے سالوں پہلے شروع کیا گیا تھا تفصیلات وقت بتائے گی لیکن میری سوچیں اس بات پر اٹک گئیں کہ ہم انسان یا ہم مسلمان کس حد تک اخلاقی پستی کا شکار ہوگئے ہیں کہ کیسے ایک انسان کو مرے ہوئے جانوروں کے اعضاء سے تیل کشید کرکے کھلا رہے۔

ہیں نہ تو ہمیں خوف خدا ہے اور نہ ہی معاشرے کے کسی ادارے کی گرفت میں آنے کا۔ بس دولت کمانے کے لئے حلال ہو یا حرام جس طرح سے ہو، دولت اکٹھی کرکے اپنے بچوں کے لئے روزی کا بندو بست کرنا ہے ایسے میں ہم ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ کیا ایسی دولت کمانے سے ہمارے گھروں میں خوشحالی آئے گی،ہماری آنے والی نسلیں پرسکون زندگی گزاریں گی یہ تو ہمارا دل بھی اس کی گواہی دے گا کہ نہیں ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو ستا کر کوئی خوشحالی حاصل کر سکتے ہیں نہ ہی اللہ تعالیٰ ہماری ان بد بختیوں کو نظر انداز کرے گا۔ انکی پکڑ کس صورت میں ہوگی یہ ہمارے تصور سے بھی بالا تر ہوگا۔

اس کی مثال ابھی حال ہی میں کشمور میں ایک عورت اور اس کی بچی کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز سلوک کا واقعہ ہے جسے سن کر ہر ذی شعور انسان کانپ اٹھا کہ اس معصوم بچی کے ساتھ کس طرح انسانیت سوز سلوک کیا گیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس گناہ کے مرتکب انسان کو کس طرح موت کی ”آغوش میں گھنٹوں میں پہنچا دیا جسے سن کر ہر انسان کا دل خوشی سے جھوم اٹھا کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ غلط ہوا یا اس کو سزا دینے کا طریقہ درست نہیں تھا۔

جب کسی مظلوم کی آہ عرش پر چلی جاتی ہے تو پھر اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی مائل نہیں ہوتا،پھر عرش سے جو فیصلے آتے ہیں وہ بھی ہم وقتاً فوقتاً اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔آج ہمارا معاشرہ جس تیزی کے ساتھ پستی کا شکار ہوچلا ہے اس کی سابقہ ادوار میں مثال نہیں ملتی، پہلے لوگ اپنی عزتوں کا بھرم رکھتے تھے، بلوچستان کے مقامی لوگ اپنی پرانی روایات کے امین ہوا کرتے تھے جن کے بارے میں باقی صوبوں کے لوگ بخوبی جانتے تھے کہ بلوچستا ن کے لوگ کس نیچر کے مالک ہیں لیکن آج صورت حال اس کے برعکس ہے میں نے یہ محسوس کیا کہ جب سے بلوچستان میں پڑوسی ملکوں سے آنیوالے مہاجرین نے اس صوبے کو اپنا مسکن بنایا ہے۔

اس دن سے صوبے کے نہ صرف حالات امن وامان کے حوالے سے بلکہ قبائلی و ثقافتی ٹوٹ پھوٹ بھی تواتر کے ساتھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اب آپ خود دیکھیں کہ سریاب کا علاقہ ہو یا نواں کلی کا یہاں مقامی افراد رہائش پذیر ہیں جہاں اس طرح کی دو نمبری کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا یہاں کے مکین اپنی دھن میں مگن ہیں ایسے میں یہ خبر کہ سریاب میں اس طرح کی آئل فیکٹری پکڑی گئی یہ مجھ سمیت ہر شخص کے لئے اچھبنے کی بات تھی لیکن جب آپ تقابلی جائزہ لیں تو آپ کے سامنے تمام حقائق سامنے آجائیں گے کہ آج کل شہر میں کوئی شے آپ کو خالص ملنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔

ادویات سے لے کر خوراک کی جعلی اشیاء تک کو مارکیٹ میں سپلائی کی جارہی ہو تو پھر کس بارے میں ہم بتائیں کہ یہ شے ٗصاف اور خالص ہوگی۔ تر بور‘ خربوزہ‘ کھیرا کی فصل میں اسٹرائیڈ کے انجکشن لگا کر ان کے سائز بڑھائے جارہے ہیں۔گندے پانی سے ہماری سبزیاں کاشت کی جارہی ہوں تو ایسے میں ہم سوچیں کہ ہماری صحت کا کیا حال ہوگا۔ میرے ایک دوست کو ایک ٹریننگ کے سلسلے میں جاپان جانا پڑا جہاں ایک 90سالہ جاپانی انسٹریکٹر سے واسطہ پڑا۔ میرے اس دوست کے مطابق وہ جاپانی اس قدر چست اور صحت مند تھا کہ دوران ٹریننگ وہ گھنٹوں کھڑے ہو کر لیکچر دیتا تھا۔

یہ صورت حال دیکھ کر میرا دوست پریشان ہوا اور اپنے لوگوں کی جن کی عمریں 90سال ہوگی کا موازنہ کیا۔یہاں کے لوگ آج طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہیں یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ میں آج آپ کو صبح کی سیر یا واک کیلئے کوئی ایک پارک صحیح حالت میں نہیں ملے گی۔ ایوب اسٹیڈیم‘ ریلوے ہاکی گراؤنڈ‘ اسپیشل سکول‘ سائنس کالج کے علاوہ کوئی جگہ تک نہیں۔درجہ بالا مقامات پر میدان ہیں واکنگ ٹریک نہیں ہیں۔اس کے علاوہ شہر بھر میں جس قدر تیزی سے ہاؤسنگ اسکیمات پایہ تکمیل تک پہنچائی جارہی ہیں ان میں کھیلوں کے میدان تک موجود نہیں مطلب ان کے نقشہ میں واکنگ ٹریک شامل تک نہیں۔

لے دے کے کوئٹہ کی خوبصورتی اور واکنگ ٹریک کیلئے شہری”کوئٹہ کینٹ“کے محتاج ہیں جہاں تمام لوازمات موجود ہیں۔ اس کے برعکس کوئٹہ میونسپل کارپوریشن کے پارک اور خواتین کی پارک پر نظر دوڑائیں جہاں سبزہ جات کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا یہاں گرین بیلٹ عدم توجہی کے باعث تقریباً ختم ہوچکا ہے، مٹھی اور گھاس پھوس کے علاوہ کوئی سبزہ نظرنہیں آتا۔ خواتین پارک میں پی آئی اے کے جس جہاز کو لا کھڑا کیا گیا اس کی آج تک غلطی سے صفائی بھی نہیں کی گئی جس پر شہر میں چلنے والی گاڑیوں اور رکشوں کے دھویں سے کالک کی تہہ جم گئی ہے جو دور سے نظر آتی ہے لیکن یہ ان متعلقہ آفیسروں کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔

انہیں نظر تک نہیں آتا۔ خواتین پاک مکمل طورپر تباہ ہوچکا ہے لیکن کسی آفیسر کو نہیں دیکھا کہ اس کی بحالی کے لئے سرگرم نظر آرہا ہو۔ سوشل میڈیا پر ایک شخص شہر کی حالت زار کو مختلف زاویوں سے دکھانے کا ”ثواب“ تو حاصل کررہا ہے لیکن نتیجہ صفر!حکمران خود کو ان مسائل سے یکسر بیگانہ رکھتے ہوئے کانوں سے بہرہ اور آنکھوں سے اندھا ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔

مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ایسی کوئی خبر چھپی ہو کہ عوام الناس کے نمائندے کیلئے خبر کا نوٹس لے کر کارروائی کے احکامات دئیے گئے ہوں۔یہ ہماری بے حسی کی سب سے بڑی مثال ہے کہ شہر میں کوئی ایک آدھ پارک نہیں اور لگ بھگ چالیس کے قریب پرائیویٹ ہسپتال راتوں رات بنا کر ”کامیابی“ سے چلائے جارہے ہیں پھر کہا جاتا ہے کہ ہم ”زندہ قوم ہیں“ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہم مردہ اور بے حس قوم ہیں اور کچھ نہیں۔مضمون کے آخر میں میں یہاں افریقی ملک کینیا کے اتھلیٹ ہابیل حطائی کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس نے دوڑ کے ایک مقابلے میں اپنے سے کئی گز آگے جا کر وکٹری لائن کے پاس کھڑے ہسپانوی کھلاڑی کو دھکا دے کر آگے لائن عبور کروا کے جتوایا جو غلطی کرکے وکٹری لائن کو سمجھ نہ سکا۔ جب یہ صورت حال وہاں کے صحافیوں نے دیکھا تو وہ اس پر ششدر رہ گئے،اگر یہ کھلاڑی خود چاہتا تو وکٹری حاصل کرتا لیکن اس نے ایسانہیں کیا۔

جب ایک صحافی نے ان سے پوچا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو اس کھلاڑی نے جواب دیا کہ ”میرا خواب یہ ہے کہ کسی دن ہم سب انسان مشترکہ معاشرتی زندگی گزار سکیں“ صحافی نے اصرار کیا کہ آپ نے کینیا کے کھلاڑی کو کیوں جیتنے دیا، اس پر اس کھلاڑی نے جواب دیا میں نے اسے جیتنے نہیں دیا وہ خود جیتنے والا تھا ”صحافی نے پھر زور دے کر کہا ”لیکن آپ جیت سکتے تھے اس کھلاڑی نے جواب دیا۔

’میری ایسی جیت کا اخلاقی طورپر کیا جواز و مقام ہوتا اگر میں اس طرح تمغہ حاصل کر لیتا تو کیا وہ اعزاز ہوتا؟ اور میری ماں میری اس حرکت کی بابت کیا سوچتی؟ میں اپنی ماں کو شرمسار نہیں کر سکتا اخلاقی اقدار نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں کیا ہم اپنے بچوں کی کردار سازی کرر ہے ہیں ہم اپنے بچوں کو کون سی اقدار کی تعلیم دے رہے ہیں یہ سوال چھوڑے جارہا ہوں اپنے اپنے گریبانوں میں ہم جھانکیں تمام سوالات کے جوابات مل جائیں گے؟