رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ہے!مالا مال صوبے میں غربت،پسماندگی،ناانصافی اور بیروزگاری کا عالم دیکھنے لائق ہے۔ بلوچستان پاکستان کا وہ واحد صوبہ جس میں معدنیات کی بہتات ہے۔ قدرت نے اس سرزمین کو سونا،چاندی، گیس،تیل،پیڑول،کوئلہ ودیگر معدنیات سے نوازاہے لیکن یہاں کے عوام غربت وکسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔گوادر کو سی پیک کا جھومر کہاجاتاہے۔
ہر طرف گوادر ہی گوادر۔لیکن گوادر کے عوام کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔اس کا اندازہ کوئی لگا نہیں سکتا۔میڈیامیں گوادر کی تعریف سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔گوادر دبئی یا کوئی اور ملک بننے جارہا ہے ‘یہ روز سننے میں آرہاہے لیکن گوادر کے عوام کو صاف پانی پینے کے لئے میسر نہیں ہے۔ہماری مائیں اوربہنیں پانی کے لئے کئی میل کا سفر طے کرتی ہیں ‘ یہ مسئلہ بلوچستان کے ہر علاقے میں ہے۔
لوڈشیڈنگ 20، 20گھنٹے ہوتی ہے۔ بجلی بالخصوص مکران میں اتنی زیادہ ہے کہ پورے مکران کو 24 گھنٹے بجلی دی جائے تب بھی بجلی کی کمی نہیں لیکن پتہ نہیں بیچارے عوام کو کیوں ستایاجارہاہے!
پاکستان کی سب سے بڑی گیس کا ذخیرہ ڈیری بگٹی کے علاقے سوئی میں ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ گیس اسلام آباد،لاہور اور پاکستان کے دیگر شہروں تک پہنچائی گئی ہے لیکن سوئی جہاں گیس نکلتی ہے یہاں اب تک گیس میسر نہیں، یہ ہمارے حکمرانوں کے لئے باعث شرم ہے۔
بلوچستان میں ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور دوائیاں نہ ہونے کے برابر ہے۔اگر کسی کو چھوٹی سی بیماری ہو تواسے کراچی جانا پڑتا ہے کیونکہ یہاں تو ہسپتال نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ہسپتالوں کا سالانہ بجٹ کروڑوں کا بنتا ہے لیکن پتہ نہیں یہ کہاں خرچ ہوتے ہیں۔
تعلیم قوموں کی ترقی میں اہم کردار اداکرتی ے۔جن قوموں نے آج ترقی کی ہے تو اس کا راز تعلیم ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے صوبہ میں تعلیم کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی۔بلوچستان کے بیشتر سکولوں میں کلاس روم اور اساتذہ کی بہت کمی ہے۔کچھ ایسے سکول بھی ہیں جہاں طالب علموں کی تعداد500 سے زیادہ ہے لیکن استاد ایک ہے۔ایک استاد 500 طالب علموں کیسے پڑھا سکتاہے لیکن یہ ہورہا ہے اورپتہ نہیں یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔بلوچستان کے بچوں کوپرھنے کا بہت شوق ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں سہولیات نہ ہونے کے باعث تعلیم سے محروم ہیں۔
آج کے دور میں انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے کام ہورہے ہیں۔بلوچستان کے بیشتر شہروں میں 4G کی سہولت میسر نہیں۔یہ ایک حیران کن بات ہے کہ 21صدی میں 4G میسر نہیں۔ اب تو 5G لانچ ہونے والاہے۔بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر تربت جہاں 3 سال سے زائد 4G معطل کیاگیاہے لیکن یہ کب بحال ہوگا،کوئی نہیں بتا سکتا۔جب بلوچستان کے علاقے چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کیے گئے تواس کے باعث کئی بیماریوں نے جنم لیا۔
اس ایٹمی دھماکے کے بعد کینسر جیسی خطرناک بیماری یہاں بڑھ گئی جس سے کئی پھول جیسے بچے،بچیاں،نوجوان اور بزرگ مرد و خواتین اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی اب تک اس مرض سے زندگی اورموت کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ بلوچستان کے عوام روز احتجاج کررہے ہیں کہ ہمیں کینسر ہسپتال چاہیے لیکن ہمارے حکمران خواب خرگوش میں ہیں۔
اس بیماری کا علاج غریب عوام کی بس کی بات نہیں۔ہم چندہ کررہے ہیں لیکن چندہ کب تک چلے گااور اس کا حل چندہ کرنانہیں ہے۔روز بروز کینسر کے مریضوں کی تعدار بڑھتی جارہی ہے۔بلوچستان میں کینسر ہسپتال کی اشد ضرورت ہے لہٰذاحکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان جلد از جلد بلوچستان میں کینسر کی ہسپتال قائم کریں۔