ایک ایسے وقت میں جہاں کرونا وائرس کی دوسری لہر شدت کے ساتھ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور دن بدن مصدقہ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، ملک ایک ہنگامی صورتحال کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کرونا کی پہلی لہر میں مثبت کیسز کی شرح دو سے تین فیصد تھی لیکن اب یہ شرح مجموعی طور پر آٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے جو کہ ایک الارمنگ صورتحال ہے لیکن افسوس کی بات ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں اس مہلک وبا پر اپنی سیاست چمکا رہی ہیں۔ وفاقی حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ صرف اپوزیشن کے جلسوں کو کرونا پھیلنے کی وجہ قرار دینے میں لگی ہوئی ہے۔
صنعتوں کا پہیہ چل رہا ہے، پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرینیں چل رہی ہیں، تجارتی اور کاروباری مارکیٹیں کھلی ہیں حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ کاروبار بند ہونے سے غریب کے گھر کا چولہا بجھ جائے گا اس لیے کسی صورت بھی کاروبار بند نہیں کریں گے حالانکہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کے باعث غریب کے گھر کا چولہا پہلے سے ہی بجھ چکا ہے۔طبی ماہرین اس سال اکتوبر کے اواخر میں کرونا کی دوسری لہر کو شدت کے ساتھ پھیلنے کا انتباہ دے چکے تھے کہ کرونا وائرس کی پہلی لہر کی طرح دوسری لہر کو روکنا بھی ہمارے بس میں نہیں ہو گا لیکن اب ہم یہ ضرور سیکھ چکے ہیں کہ اس کے پھیلاؤ کی رفتار کم کیسے کی جا سکتی ہے۔
ایسا تبھی ممکن ہوگا جب ہر فرد ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ اجتماعات کے انعقاد اور ان میں شرکت سے گریز کیا جائے اور سماجی فاصلوں کو یقینی بنا یا جائے نیز انفرادی طور پر اپنی حفاظت کے لیے تمام احتیاطی تدابیر پہلے کی طرح برقرار رکھی جائیں۔لیکن اس کے باوجود گلگت بلتستان میں انتخابی دنگل سجایا گیا جہاں اپوزیشن کے ساتھ حکومت نے بڑے بڑے جلسوں کا اہتمام کرایا اور کرونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ گلگت انتخابات کے دوران اور اس کے بعد بھی وزیر اعظم عمران خان خود اور ان کے وزراء متعدد جلسوں اور تقاریب سے خطاب کرنے کا شرف حاصل کرتے رہے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف وزیر اعظم ٹی وی پر آکر کرونا پر قوم کو بھاشن بھی دیتے رہے ہیں اور ہر بار اپوزیشن کو یہ تلقین کرتے رہے ہیں کہ ان کے جلسوں سے کرونا پھیلنے کے خطرات بڑھ رہے ہیں لیکن پھر دوسری طرف یہ اطلاعات بھی موصول ہوتی رہی ہیں کہ وفاقی وزراء کبھی گلگت میں انتخابات میں کامیابی کی خوشی میں استقبالیہ جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں تو کبھی مختلف تقاریب سے مطلب یہ کہ حکومت کوئی جلسہ کرے تو ٹھیک اگر اپوزیشن کرے تو کرونا پھیلانے کا مؤجب۔ وفاقی حکومت کے اس منافقانہ پالیسیوں نے طبی ماہرین کی کرونا کے دوسرے لہر کی تیزی سے پھیلنے کے بیانیہ پر قوم کو متزلزل کردیا ہے۔
اس لیے لوگ سخت انتباہ کے باوجود بھی کرونا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین حکومت دشمنی میں اپنے ہوش و حواس کھو چکے ہیں۔کرونا کی دوسرے لہر کی ممکنہ تباہ کاریوں کا ادراک ہونے کے باوجود وہ ہر صورت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے تحت اعلان کردہ جلسوں کے انعقاد پر بضد ہیں اور منطق یہ پیش کرتے ہیں کہ کوویڈ 19 سے زیادہ مہلک کوویڈ 18ہے“یعنی دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں یہ حکومت دھاندلی کی پیداوارہے”اس لیے ہر صورت اس حکومت کو ختم کرنا ہوگا۔
حالانکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت مختلف اضلاع میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کا اعلان کر چکی ہے اور ساتھ میں تجارتی اور کاروباری مارکیٹوں کو رات آٹھ بجے تک بند کرانے اور ایس او پیز کو مزید سختی کے ساتھ عملدرآمد کرانے کا نوٹیفکیشن جاری کر چکی ہے۔ اسی طرح آزاد کشمیر میں ن لیگ کی حکومت نے لاک ڈاؤن لگا کر کرونا کے بڑھتے دوسری لہر کے پھیلنے کو کم کرنے کے لئے اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک طرف اپنی حکومتوں کو کرونا کی دوسری لہر کی شدت کو کم کرنے سے متعلق تمام حفاظتی اقدامات اٹھانے کے لیے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
اور دوسری طرف اپنے احتجاجی جلسوں کے انعقاد پر بھی بضد ہیں، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خود کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں انھوں نے نہ اپنی ہمشیرہ بختاور بھٹو کی منگنی کی تقریب میں شرکت کی اور نہ ہی ملتان کے جلسہ عام میں شریک رہے لیکن وہ اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کی طرح عوام کو پی ڈی ایم کے جلسوں میں بھرپور شرکت کرنے کی تلقین بھی کر رہے ہیں یہ کھلا تضاد نہیں تو کیا ہے۔ایسے نازک حالات میں وفاقی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی ضد اور انا کے خول سے نکل کر ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے۔
اپوزیشن کے ساتھ جاری اپنی سیاسی لڑائی میں سیز فائر کا اعلان کرتی اپوزیشن کو راضی کرکے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے کرونا کی دوسری لہر کی شدت سے نمٹنے کے لئے ایک بحث کا آغاز کراتی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کو اپنا موقف پیش کرنے کا مکمل موقع فراہم کیا جاتا، دونوں طرف سے پارلیمانی روایات اور اقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سیاسی ہلڑ بازی اور بہتان تراشی سے گریز کرکے صرف کرونا وبا کی دوسری لہر سے کس طرح نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے اس سے متعلق سیر حاصل بحث کی جاتی۔
اور پھر مشترکہ بنیادوں پر ایک جامع حکمت عملی ترتیب دے کر اس پر عملدرآمد کے لئے یا تو این سی او سی میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹیرینز کو شامل کیا جاتا یا پھر حکومت اور اپوزیشن کی ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جاتی جو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کئے جانے والے فیصلوں پر عملدرآمد کا جائزہ لیتی۔ لیکن حالیہ حکومتی اقدامات سے لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم اپنی ناکامیوں سے سیکھنے کے بجائے اسی روایتی ڈگر پر گامزن ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کو چور اور بدعنوان قرار دے کر ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت نہ کرنا۔
اور ان کے ہر مطالبہ کو این آر اوسمجھ کر مسترد کرنے سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تبدیلی سرکار سیاسی معاملات کو بند گلی میں جانے سے روکنے کے لئے بالکل سنجیدہ نہیں، کرونا سے محفوظ رہنے کے لئے صرف اپنی طرف سے جاری کردہ پالیسیوں کو مستند اور نجات کا ضامن سمجھ کر اپوزیشن کو ہر حال میں ان پر عملدرآمد کرانے کے لیے دباؤ ڈالنے سے معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔تناؤ کی جو فضا پہلے سے قائم ہے اس میں مزید شدت پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ اپوزیشن بھی ہر حال میں اپنے طے شدہ جلسوں کے انعقاد کے لیے کمر بستہ ہے۔
اس سے قبل کرونا کے بڑھتے خطرات اور حکومت کی طرف سے اجازت نہ ملنے کے بعد بھی اپوزیشن نے متعدد کامیاب عوامی طاقت کے مظاہرے کیے ہیں اب اپوزیشن کے پاس کرنے کو صرف لاہور کا جلسہ باقی رہتا ہے اس آخری جلسے کی کامیابی کے لئے اپوزیشن اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی اور یقیناً صوبائی حکومت نہ صرف اس کی اجازت دے گی بلکہ اسے ناکام بنانے کے لئے روایتی حربوں کا استعمال کرے گی جو وہ گوجرانوالہ اور ملتان کے جلسوں کو ناکام بنانے کے لیے کر چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں کرونا کے نام پر اپوزیشن کی تحریک کو ناکام بنانے کے لئے جو گندی سیاست کر رہی ہیں۔
اس سے نہ اپوزیشن کی تحریک ختم ہوگی اور نہ ہی کرونا کی دوسری لہر کی تباہ کاریاں کم ہوں گی۔ ان ناعاقبت اندیش حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ طاقت اور زور زبردستی سے معاملات سلجھنے کے بجائے ہمیشہ بگڑتے ہیں، اپوزیشن کو کچلنے اور دیوار سے لگانے کی پالیسیوں کے نتائج گزشتہ پونے تین سالوں سے ناکامیوں کی صورت میں عوام کے سامنے عیاں ہیں۔
لیکن وزیر اعظم عمران خان کی آنکھوں میں تکبر، غرور اور انا کی سیاہ پٹیاں لگانے والی قوتیں جب تک آگے بڑھ کر خود ان کی آنکھوں سے پٹیاں نہیں ہٹائیں گی اس وقت تک ان کے پیر زمین پر نہیں پڑیں گے اور اسی طرح معروضی حالات سے بے خبر حکمرانی کے نشے میں مست فضاؤں کے چکر لگاتے رہیں گے اور عوام مہنگائی کے بے قابو جن اور کرونا کی عفریت سے تن تنہا مقابلہ کرتی رہے گی۔