|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2020

چانان ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن CDAکی جانب سے منعقدہ دو روزہ نوجوان امن میلہ Youth Peace Festivalکیلئے لاہور جانا ہوا۔ اس فیسٹیول میں ملک بھر سے تقریباً ڈھائی سو کے قریب نوجوانوں کی شرکت تھی جس میں ہم بلوچستان والوں کی تعداد 10کے قریب تھی جن میں کچھ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے جبکہ کچھ نوجوان بلوچستان کے مکران ڈویژن سے تھے۔ اس دوروزہ نیشنل پیس فیسٹیول میں انسانی حقوق، جمہوریت کی بالادستی، اظہار رائے کی آزادی، نواجوانوں میں ہم آہنگی کی فروغ سمیت بین المذاہب ہم آہنگی کی موضوعات پر سیاسی ، سماجی اور مذہبی شخصیات نے لب کشائی کی ۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والے حکومت اور اپوزیشن کے ارکان اسمبلی سمیت صوبہ پنجاب کے وزیربرائے انسانی حقوق نے بھی خطاب کیا۔ایک طالبعلم اور ٹورسٹ کے طورپر ہم کئی دفعہ لاہور جاچکے ہیں لیکن اس دفعہ جانے سے پہلے یہ طے کیا کہ وہاں کے لوگوں کی بلوچستان کے بارے میں پائے جانے والی رائے کو بھی سمجھ سکیں ۔ایک ہفتے میں وہاں کی لوگوں کے خیالات اور بلوچستان کے بارے میں تاثرات جاننے کی جب کوشش کی تو حیران رہ گیا۔ پنجاب کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی تین چار ایسی چیزیں جو میں نے محسوس کیں انتہائی حیران کن ہیں۔

کانفرنس کے پہلے دن جب ہرکسی کو خیالات کے اظہار کیلئے مائیک دی گئی تو لاہور کے کسی یونیورسٹی میں گریجویشن کے ایک طالبعلم نے کہا ۔جی میں باقی سب صوبوں میں گیا ہوں لیکن بلوچستان نہیں گیا ہوں کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے بلوچستان ٹھیک نہیں ہے اور وہاں کے لوگ نہ جانے کیسے ہیں ، اس نے ہماری جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے بلوچی بھائی اس حوالے سے کچھ کہیں۔ بحیثیت بلوچستان کے پڑھے لکھے طبقے کے، میں نے اس دوست کو نہایت سلیس الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا بھائی جان پہلے یہ جان لو کہ ہم بلوچی نہیں بلوچ بھائی ہیں ۔

جیسا کہ گزشتہ 73سالوں سے ہم پنجاب والوں کو سمجھانے کی کوشش میں ہیں کہ ہم کسی دوسرے سیارے کے مخلوق نہیں بلکہ اس زمین پر بسنے والے انسان ہیں ، جیسا کہ آپ پائوں پر چلتے ہیں اسی طرح ہمارے بھی دو پائوںہیں، جس طرح آپ منہ سے کھانا کھاتے ہیں اسی طرح ہم بھی کھانا منہ سے کھاتے ہیں، جس طرح آپ آنکھوں سے دیکھتے ہیں اسی طرح ہم بھی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ سو میں نے ایک لمبی چوڑی تقریر کرڈالی۔ اتنے میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک دوست خالد میر جذباتی کیفیت میں کھڑے ہوئے اور مائیک اٹھاکر جواب دینے کی ٹھان لی۔

میر صاحب نے کہا بھائیو، بہنو! اس وقت دو بلوچستان ہیں، ایک بلوچستان وہ جو یہاں آپ لوگوں کو ـ”مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے جبکہ ایک بلوچستان وہ ہے جہاں ہم رہتے ہیں۔ خالد میر کے چند الفاظ بلوچستان کے بارے میں وہاں کے لوگوں کی تاثرات ٹھیک کرنے کیلئے کافی تھے۔یوں ہمارے پاس بیٹھے ایک دوست کھڑے ہوئے اور سوال کیا کہ کانفرنس میں کوئی بھی بندہ اٹھ کر مجھے بلوچستان کے صرف پانچ شہروں یا جگہوں کا نام بتا دے۔حیرانگی کی بات اس وقت ہوئی جب بھرے ہال میں ایک بھی نوجوان نے بلوچستان کے پانچ شہروں کے نام بتانے کی جرات نہ کی۔

اب گلہ کریں تو کس سے؟ پنجاب میں یونیورسٹی 14اکتوبر 1882کو قیام عمل میں آئی جبکہ بلوچستان میں ستر کی دہائی میں ایک یونیورسٹی بنی ۔پنجاب والے مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں ہمیں (بلوچوں کو) جاہل اور ان پڑھ پڑھاتے ہیں لیکن وہاں کے نوجوانوں کو اپنے ہی ملک کے صوبے کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ وہاں کے طلباء کو بلوچستان کے بارے میں کچھ پڑھایا نہیں جاتا یا تو پھر وہ خود بلوچستان کو بحیثیت صوبہ تسلیم نہیں کرتے۔جب ہم کریم کمپنی کی گاڑی میں سفر کررہے تھے تو ڈرائیور نے پوچھا ، آپ لوگ بلوچی ہو؟ ہم سارے دوست ہنس پڑے جس پر ڈرائیو خود حیران رہ گیا۔

میں نے اپنے دوستوں کو کہا بھئی ہم چاہے جتنا بھی تبلیغ کریں انکے لیے ہم بلوچی بھائی ہی ہیں ۔ میرے ایک دوست نے اس سے پوچھا آپ بلوچستان کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ تو اس نے بالاتاخیر جواب دیتے ہوئے کہا ـ”جی میں نے سنا ہے وہاں کافی لوگ غائب ہیں ”میں نے سوال کیا ، سر آپ کے خیال سے غائب کرنے والا کون ہے ؟ ”جی یہ تو وہاں کے وڈیرے ہوتے ہیں ” سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہم اس شخص کی سادگی پر ہنسیں یا رئیں۔ ہم نے یہ سمجھ کر بات آگے نہیں بڑھائی کہ ہم ویسے بھی اپنے شہر میں بات نہیں کرسکتے کہ ہمارے لوگوں کو کون غائب کرتا ہے بھلا یہاں بڑے بھائیوں کے شہر میں آکر ان کو کیسے یہ بات بتائی جاسکتی ہے۔

ہم تقریباً ایک ہفتہ وہاں رہے، سب سے الگ اور قابل رحم بات اس وقت سنی جب ہم ہوٹل میں چیک آئوٹ کررہے تھے، ایسے میں کائونٹر پہ بیٹھی ایک خاتون نے ہم سے پوچھا ـ”آپ بلوچ کے رہنے والے ہو”ہمارے ایک دوست نے جواب دیتے ہوئے کہا جی ہم بلوچ میں رہتے ہیں اور بلوچی بھائی ہیں۔ پنجاب میں کچھ دن گزار کر ہم نے یہ محسوس کیا کہ جو بلوچستان حقیقت میں ہے جہاں بلوچ قوم رہتی ہے وہ اسکے بارے میں قطعاً معلومات نہیں رکھتے جبکہ وہ اس بلوچستان کے بارے میں جانتے ہیں جو ان کو مطالعہ پاکستان کے کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے جہاں بلوچی بھائی رہائش پذیر ہیں