|

وقتِ اشاعت :   December 7 – 2020

بلوچ سرزمین کی وحدانیت کو پارہ پارہ کرنے کی سازشوں کا آغاز انگریز سامراج کے اس خطے میں قدم جمانے کے بعد شروع ہوا ۔ 1876 میں برطانوی راج نے مرحلہ وار بلوچستان کو تین حصوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا تھا مقربی حصہ ایران کے حوالے کردیا گیا جو اس وقت سیستان بلوچستان کے نام منسوب ہے، مشرقی حصہ جو اب پاکستان کا حصہ ہے اسے بھی برٹش بلوچستان جو ڈیرہ جات، جیکب آباد (خان گڑھ) کوئٹہ، نصیر آباد اور پشتون علاقوں پرمشتمل تھا اور قلات اسٹیٹ کے نام سے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا، قلات اسٹیٹ کو چار الگ الگ خودمختار ریاستوں مکران۔

خاران، لسبیلہ اور قلات میں منقسم کرکے بلوچستان کی طاقت کا شیرازہ بکھیر دیا گیا تھا، جبکہ بلوچ سرزمین کا ایک حصہ 1896ء میں اینگلو۔افغان سرحدی کمیشن کے فیصلے کے تحت افغانستان کو دے دیا گیا تھا۔ بلوچستان کی بندر بانٹ کا سلسلہ جو برطانوی سامراج نے اپنے سیاسی اور انتظامی اہداف کو حاصل کرنے کے لئیے شروع کیا تھا وہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے ۔مغربی بلوچستان کے کئی علاقوں بندر عباس، کرمان، جاسک اور میناب میں فارس رجیم نے مقامی بلوچوں کو اقلیت میں بدل کر ان علاقوں کی جغرافیائی حیثیت بھی تبدیل کر دی ہے ۔

اب بھی وہ مزموم عزائم لئے سیستان بلوچستان صوبہ کو مزید چار حصوں میں تقسیم کرنے کی تیاری کر رہاہے۔ اسی طرح پاکستان بننے کے بعد مشرقی بلوچستان کے کئی اہم علاقوں کو دیگر صوبوں میں شامل کردیا گیا تھا اور اب مشرقی بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا نہ صرف اعلان کیا گیا ہے بلکہ بلوچستان کے ایک بڑے حصے کو انتظامی بنیادوں پر جنوبی بلوچستان کا نام دے کر اپنے اعلان پر عملی بنیادوں پر کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔انگریز سامراج کی تسلط، بلوچستان کی تقسیم کے خلاف اور اپنی حق حاکمیت کے حصول کے لئے بلوچ تاریخ مزاحمتوں سے لبریز ہے۔

ان مزاحمتوں کی بدولت بلوچ قومی سوال آج بین الاقوامی ایجنڈا کا ایک جز بن چکی ہے انگریز راج سے لے کر آج تک استعماری طاقتوں اور ان کے گماشتوں کے خلاف اپنی قومی بقاء اور مادر وطن کے تحفظ کے لئے کئی چھوٹی اور بڑی مزاحمتی تحریکیں بلوچستان کی مشرقی اور مغربی حصوں میں ہوتی رہی ہیں اور اب بھی جاری ہیں۔
اسی طرح کی ایک مزاحمتی تحریک کوہ سلیمان کے کوہساروں اور سبزہ زاروں سے اس وقت شروع ہوئی جب ان علاقوں کو بلوچ عوام کی خواہشوں اور امنگوں کے برعکس بلوچستان سے جبرا ًوا گزار کرکے پنجاب میں شامل کردیا گیا تھا۔

ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے بلوچ سپوتوں کی طرف سے اپنے مادر وطن بلوچستان میں دوبارہ شمولیت کے لئے شروع کی جانی والی تاریخی مزاحمت مختلف شکلوں میں آج بھی اسی شدت سے جاری ہے۔ 1880 میں انگریز راج نے کوہ سلیمان اور ان سے ملحقہ بلوچ علاقوں پر قبضہ کیا ان علاقوں کو فاٹا کی طرح براہ راست وائسرائے ہند کے ماتحت کردیا گیا تھا، 26 نومبر 1946 میں نواب جلال خان لغاری، نواب اکبر بگٹی، تمن دار مری اور دودا خان مری کی طرف سے انگریز سرکار کو ایک یادداشت پیش کیا گیا کہ ڈیرہ غازی خان ، راجن پور اور مری بگٹی علاقوں کو ریاست قلات میں شامل کیا جائے ۔

اسی طرح یکم مارچ 1949 کو اس وقت کے گورنر پنجاب سر فرانسس مودی کی سربراہی میں ایک وفد نے ڈیرہ غازی خان کا دورہ کیا اور بلوچی جرگہ سے ملاقات کی اس ملاقات میں ایک ہی سوال دہرایا گیا کہ آپ لوگ پنجاب میں شامل ہونا چاہتے ہو یا بلوچستان میں؟ اس وقت جرگہ میں شامل تمام سردار، وڈیرہ اور معتبر ین نے بلوچستان میں شامل ہونے کی حامی بھری اور ان علاقوں پر پنجاب کی قبضہ گیریت کے خلاف آواز بلند کی لیکن پنجاب کی بیوروکریسی نے شروع دن سے ان آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔

بلوچ قبائل کے خلاف پنجاب بیوروکریسی کی ریشہ دوانیاں اس حد تک بڑھ گئیں کہ ان علاقوں میں مقیم قیصر آنی، بزدار، لنڈ، کھوسہ، لغاری، گورشانی و مزاری سمیت دیگر بلوچ قبائل کے معتبر ین نے ان علاقوں کو دوبارہ بلوچستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کردیا ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ اگر انھیں بلوچستان میں کسی مخصوص وجہ سے شامل نہیں کیا جارہا تو کم از کم فاٹا کے علاقوں میں شامل کیا جائے کیوں کے جو سلوک پنجاب کی بیوروکریسی ان کے ساتھ روا رکھی ہے وہ سلوک تو انگریز حکمرانوں نے بھی ان کے ساتھ کبھی نہیں کیا تھا، انگریز استعمار کے ہتھکنڈوں کو اپنا کر اور اس میں مزید جبر۔

تعصب اور توسیع پسندانہ پہلوئوں کو ملا کر پنجاب بیوروکریسی نے پورے ملک میں لوٹ کھسوٹ اور استبداد کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا اور خاص طور پر جبری تسلط میں لیے جانے والے ان بلوچ علاقوں کے عوام پر زمین تنگ کردی تھی۔ محکمہ روینیو کے ذریعے زمینوں پر ٹیکس کلیکشن کے نام پر جب بلوچ قبائل کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں تو بزدار قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے سخت مزاحمت کی جو بعد میں ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی جسے کچلنے کے لئے سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کا آغاز کیا۔ سات دسمبر 1967 کو فورسز کی کاروائیوں سے کئی لوگ شہید ہوگئے اور بارہ سو کے قریب لوگوں کے خلاف مقدمات درج کر لئے گئے اور کئی لوگوں کو گرفتار کرکے پابند سلاسل گیا گیا ۔ ایوب دور کے خاتمے کے بعد یہ مقدمات ختم کردئے گئے تھے۔

سات دسمبر کی مزاحمت نے لازوال قربانیوں کے وہ انمٹ نقوش چھوڑے جو ڈیرہ جات کے بلوچ عوام کو اپنے مادر وطن بلوچستان میں دوبارہ شمولیت کے لیے ہمیشہ جھنجھوڑتارہے گا۔۔ ہفت دسمبر کے شہدا ء نے اپنے لہو سے قربانیوں کی جو شمعیں روشن کیں ان کے اجالوں کا سفر ہنوز جاری ہے، نیشنل عوامی پارٹی، ہفت دسمبر بلوچ موومنٹ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، بی این وائی ایم، پی وائی ایم، بلوچ توار، بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کی شکل میں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کی بلوچستان میں دوبارہ شمولیت کے لیے منظم انداز میں آوازیں اٹھاتی رہی ہیں۔

اور تحریکیں چلتی رہی ہیں جو آج بھی مختلف شکلوں میں جاری ہیں ، برسوں سے اپنے سینوں پر بلوچستان کا درد لئے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے غیور بلوچ عوام نے ان تحریکوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اور راجن پور کو بلوچستان میں شامل کرنے کے لئے آواز اٹھاتے آئے ہیں تحریکیں چلتی رہی ہیں وقت کے جبر کے ساتھ یہ آوازیں کچھ مدھم اور تحریکیں کمزور ضرور پڑ گئی ہیں لیکن ختم بالکل نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی یہاں کے مقامی لوگوں کی بلوچستان سے انسیت ،بلوچی زبان اور تہذیب و تمدن سے وابستگی ختم ہوئی ہے۔

جس طرح کراچی ، جیکب آباد (خان گڑھ) اور سندھ کے دیگر شہروں میں بسنے والے بلوچ آج بھی اپنے مادر وطن بلوچستان سے اپنی روحانی وابستگی کا اظہار اس وقت شدید احتجاج کے ذریعے کرتے ہیں جب وہ کرب اور اذیت کی شدت سے انھیں پکارتی ہے اور یہی صورتحال ہمیں ڈیرہ جات میں بھی نظر آتی ہے۔جب سے پنجاب کو تقسیم کرکے نئے صوبے بنانے کی آوازیں اٹھنا شروع ہوئی ہیں اس دن سے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو سرائیکی صوبہ میں شامل کرنے کی مذموم کوششوں کا آغاز بھی کردیا گیا ہے بلوچ قوم اور اس کی سیاسی قیادت نے ہمیشہ سرائیکی صوبے کے قیام کی تحریک کی کھل کرحمایت کی ہے۔

اور اب بھی کررہی ہے لیکن وہ بلوچ علاقے جو جبراً پنجاب میں شامل کئے گئے تھے اور وہاں آج بھی نوے فیصد بلوچ آباد ہیں انھیں سرائیکی صوبے میں شامل کرنے کے مطالبے کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کریں گے۔ یہ علاقے بلوچستان کے اٹوٹ انگ ہیں اور رہیں گے، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بلوچستان سے کئی عرصے تک جبراً دوری کے باعث پنجاب کے سرائیکی علاقوں کی ہمسائیگی کی وجہ سے سرائیکی زبان نے بلوچ کو شدید متاثر کیا ہے ،دریائے سندھ کے کنارے بسنے والے بلوچوں کی بڑی تعداد سرائیکی بولتی ہے۔

اس لیے بلوچ فخر سے اپنی مادری زبان بلوچی اور براہوئی کے علاوہ سرائیکی کو بھی اپنی زبان سمجھتے ہیں لیکن کیا صرف زبان کی وجہ سے کسی قوم کی تشخص اور اس کی جغرافیہ کو تبدیل کرنے کے مطالبات جائز ہیں۔ پنجاب کو تقسیم کرکے بہاول پور اور سرائیکی صوبہ ضرور بننے چاہئیں لیکن اس سے پہلے صوبوں کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ وقت کی اشد ضرورت ہے وگرنہ چھوٹے صوبوں کے درمیان جاری ان تنازعات کی وجہ سے پنجاب اپنی تسلط اور حکمرانی کو ہمیشہ طول دیتا رہے گا۔

One Response to “ہفت دسمبر کے شہدا اور بلوچستان کی وحدانیت۔”

  1. Mubashir Buzdar

    اگر اختر مینگل نے اگر پاپولر سیاست کرنی ہے تو “راجن جیکب ڈی جی خان “کو اپنا چھٹا نقطہ قرار دینا ہوگا

Comments are closed.