فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) میں مسلسل بڑھتی ہوئی کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے ماہی گیروں میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ اس تشویش اور بے چینی نے ماہی گیروں کو سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور کردیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں ماہی گیروں نے کراچی بندرگاہ کو ملک سے ملانے والی مین شاہراہ نیٹی جیٹی پل کو کئی گھنٹے بلاک کیے رکھا۔اس احتجاجی دھرنے میں تمام ماہی گیر جماعتوں نے حصہ لیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسی طرح کی لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) کے دو سابق چیئرمینز گزشتہ دو سال سے اب تک نیب کے کیس میں جیل میں بند ہیں۔
جبکہ فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) کے موجودہ چیئرمین عبدالبر اب تک کیوں آزاد ہیں؟ اور انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ مظاہرین نے نیب کے چیئرمین سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر فش ہاربر کے معاملات پر نیب کو تحقیقات کا حکم دیا جائے۔مظاہرین نے دھمکی دی کہ اگر فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) کے موجودہ چیئرمین عبدالبر کو فوری طور پر برطرف نہیں کیاگیا تو وہ اس ظلم و ستم کے خلاف اگلے جمعہ کو فش ہاربر پر دھرنا دیں گے۔ اور پھر وزیر اعلیٰ ہاؤس پر دھرنا بھی دیں گے۔ بھوک ہڑتال بھی کریں۔
اس سلسلے میں فشر مینز کوآپریٹیو سوسائٹی ایمپلائیز یونین نے اس کرپشن کے خلاف وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیر کوآپریٹیو جام اکرام کو سوسائٹی میں ہونے والے کرپشن اور اقرباپروری سے متعلق دستاویزات پرمشتمل ثبوت دیئے ہیں۔ یونین کے مطابق جب موجودہ چیئرمین آئے تھے۔ اس وقت سوسائٹی کے اکاؤنٹ میں 54 کروڑ روپے موجود تھے جسے انہوں نے ہڑپ کرلیا۔ اور اب سوسائٹی کی یہ حالت ہے کہ اس کے اکاؤنٹ میں تنخواہوں، ریٹائر ہونے والے ملازمین کی گریجویٹی اور ماہی گیروں کی ویلفیئر کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔
مظاہرین کا تعلق کراچی کے قدیم ماہی گیر بستیوں سے ہے۔ وہ سو فیصد پیپلز پارٹی کے ووٹر ہیں۔ موجودہ سوسائٹی کے چیئرمین عبدالبر کو دوسرے صوبے (پنجاب) سے لایاگیا۔ پیپلز پارٹی حکومت نے اس اقدام سے صوبائی خودمختاری کی خلاف ورزی کی۔ ایک جمہوری پارٹی کہلانے والی جماعت نے غیر جمہوری اقدام اٹھایا۔ جمہوریت پسندی کے لبادے میں ایک آمرانہ سوچ کے تحت ایک نان پروفیشنل شخص کو اتنا بڑا عہدہ سونپ دیاگیاجس کو فشریز کے الف ب کا پتہ تک نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی بنیادوں پر نوازنے کا حربہ تھا جس کے نتائج آج سامنے آچکے ہیں۔ سوسائٹی مالی بحران سے گزررہی ہے۔ تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ہیں۔
برٹش راج کے دور میں ہارون فیملی، جاموٹ برادری، میر بحر کمیونیٹی، سنگھور قبیلے سمیت دیگر ماہی گیر برادری سے تعلق رکھنے والے سرکردہ رہنماؤں نے ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کیلے ایک انجمن کے قیام کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ 1945 میں کھڈہ مارکیٹ لیاری میں ایک اجلاس کے دوران کیاگیا۔ اجلاس میں لیاری سے تعلق رکھنے والے سابق گورنر سندھ، محمود اے ہارون، میربحر کمیونیٹی اور جاموٹ برداری کے بزرگ رہنما حاجی ولی محمد جاموٹ، سنگھور قبیلے کے سرکردہ رہنما سیٹھ دیدگ عیسیٰ سنگھور اور دیگر معززین نے شرکت کی۔
اجلاس میں غیرسرکاری انجمن کا نام فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی رکھا گیا۔ محمود اے ہارون فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے بانی چیئرمین منتخب ہوگئے۔ جبکہ سیٹھ دیدگ عیسیٰ سنگھور، حاجی ولی محمد جاموٹ سمیت دیگر سات ڈائریکٹرز منتخب ہوگئے۔فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے جنرل باڈی کے فیصلے کی رْو سے ہر تین سال بعد سوسائٹی کے انتخابات لازمی قراردیئے گئے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ماہی گیروں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے فنڈز اکٹھا کیا جائے تاکہ اس فنڈز سے ماہی گیر علاقوں میں تعلیم اور صحت کی سہولت کی فراہمی کی جائے۔ اور ماہی گیری کے جدید آلات یعنی جال اور انجن بھی فراہم کی جائے تاکہ وہ معاشی طورپر مستحکم ہوسکیں۔ جس کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا جو کشتی یا لانچ مچھلی لائیگی۔ اس کی قیمت کا سوا چھ فیصد کمیشن سوسائٹی کے پاس جمع ہوگا۔
ہر ممبر سوسائٹی کا شیئر ہولڈر ہوگا۔ یعنی سوسائٹی کی ملکیت کا مالک اور قانونی دعویدار ہوگا۔ ملکیت کے دعوے کوباقاعدہ آئینی شکل دی گئی۔ جو اب بھی سوسائٹی کے قوانین میں موجود ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کی مزید تنظیم سازی کی گئی جس کے نتیجے میں سوسائٹی کراچی کے علاقے کھڈہ، کلری، ابراہیم حیدری، چشمہ گوٹھ، ریڑھی گوٹھ، لٹھ بستی، شمس پیر، بابا بھٹ، صالح آباد، ککا ولیج، سنگھور پاڑہ، شیر محمد ولیج ماری پور، ہاکس بے، لال بکھر اور مبارک ولیج سے نکل کر بلوچستان کے ضلع لسبیلہ اور تحصیل اورماڑہ کے علاقوں میں پھیل گئی۔
جن میں اللہ نہ گدور گوٹھ، موالی، گڈانی، لاکھڑا، سونمیانی ڈام، کنڈ ملیر اور اورماڑہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں سوسائٹی کو ضلع بدین اور ٹھٹھہ تک بھی منظم کیا گیا۔ اس طرح سوسائٹی سندھ اور بلوچستان کے ایک ہزار پچاس کلومیٹر طویل ساحلی پٹی تک پھیل گئی۔ اس طرح سوسائٹی ایک منافع بخش ادارہ بن گیا۔ مالی حوالے سے مستحکم ہونے کے بعد سوسائٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے یہ فیصلہ کیا کہ ماہی گیروں کے لئے کوئی جیٹی (بندرگاہ) نہیں ہے۔ نئی جیٹی تعمیر کی جائے کیونکہ اس زمانے میں ماہی گیر کیماڑی بندر استعمال کرتے تھے۔ کھارادر اور کھڈہ مارکیٹ میں مچھلی کی نیلامی کی جاتی تھی۔
ون یونٹ کے دور میں سوسائٹی کے بانی چیئرمین محمود اے ہارون نے صدر ایوب خان کو ماہی گیروں کے لئے ایک جیٹی بنانے کی درخواست دی اور کہا کہ منصوبے پر جو بھی لاگت آئیگی۔ وہ رقم سوسائٹی حکومت کو واپس کردے گی۔ اس شرط کی بنیاد پر ایوب خان نے ویسٹ وہارف کے مقام پر ایک فش ہاربر تعمیر کیا جس کا افتتاح خود صدر ایوب خان نے خود کیا۔صدر ایوب خان کی درخواست پر سوسائٹی کے تین سرکاری ڈائریکٹرز مقرر کئے گئے جن میں کراچی کمشنر سمیت دیگر بیس سے بائیس گریڈ کے بیورکریٹس شامل کئے گئے۔ اس کے لئے باقاعدہ سوسائٹی کے قوانین کو تبدیل کیا گیا۔
اس طرح سوسائٹی کے ڈائریکٹرز کی تعداد دس ہوگئی جن میں سات منتخب (عوامی) اور تین سرکاری ڈائریکٹرز شامل ہیں۔ اور منتخب ڈائریکٹرز کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے چیئرمین ہمیشہ منتخب نمائندوں میں سے ہوتا تھا۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا۔ سوسائٹی کی آمدنی بڑھتی گئی۔ مختلف اداوار میں سوسائٹی پر قبضہ کرنے کے لئے حربے تلاش کیے جانے لگے کہ کس طرح یہ ایک غیرسرکاری انجمن اور ماہی گیروں کی جائیداد کو قبضہ کیا جائے۔ بالآخر نوے کے دہائی میں حکومت نے ساز باز کرکے سرکاری ڈائریکٹروں کی تعداد تین سے آٹھ کردی اور عوامی منتخب ڈائریکٹروں کی تعداد کم ہوگئی۔
اس طرح سوسائٹی پر قبضہ کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور لوٹ کھسوٹ کا ایک بازار گرم ہوگیا۔ ماہی گیر سوسائٹی کے مالک ہونے کے باوجود سوسائٹی سے باہر ہوگئے حالانکہ فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) کی جنرل باڈی کو یہ قانونی اور آئینی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ سرکاری ڈائریکٹروں کو نکال باہر کرسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غربت و مفلسی کا شکار ماہی گیر سندھ حکومت اور فشریز مافیا کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ جن کے پیٹ میں روٹی نہیں، پاؤں میں چپل نہیں، رہنے کے لئے چھت نہیں اور زندہ رہنے کے لئے سمندری طوفانی لہروں کا مقابلہ کرنا ہے۔
لیکن اب کے بار پی پی کے نامزد چیئرمین کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی سے آئندہ آنے والے عام انتخابات میں پی پی کو بری طرح شکست ہوسکتی ہے۔ یہ ساحلی پٹی بدین سے لیکر گوادر تک پھیلی ہوئی ہے۔شاید بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کے اندر سیاسی کلچر کا خاتمہ ہوگیاہے اس کی جگہ غیر سیاسی لوگوں نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ وہ پی پی کو روایتی انداز میں چلارہے ہیں جس کے منفی اثرات پارٹی پر پڑ رہے ہیں۔