|

وقتِ اشاعت :   December 9 – 2020

حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا ملتان میں ہونے والا جلسہ حکومت کی مرہون منت یا اتفاقاً حکومتی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یادگار اور دلچسپ بن گیا تھا۔اگر حکومت آرام سے یہ جلسہ کرنے دیتی تو شاید یہ جلسہ گوجرنوالہ،کراچی،کوئٹہ اور پشاور میں ہونے والے جلسوں کی طرح ہو جاتا اور اتنی پذیرائی نہ ملتی۔اس جلسے کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں،ایک ہزار پولیس افراد کو تعینات کر کے اسٹیڈیم اور گھنٹہ گھر چوک کو سیل کر دیا گیا تھا،قاسم باغ کو تالے لگا کر بند کر دیا گیا تھا،موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی تھی۔

ملتان شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پرکنٹینرز کھڑے کر کے بند کر دیے گئے تھے۔ملتان جلسے سے پانچ روز قبل ڈیرہ غازی خان،بہاولپور،رحیم یار خان،راجن پور،لیہ میں پولیس نے کریک ڈاؤن لگا کر درجنوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا تھا۔قاسم باغ اسٹیڈیم پر دھاوا بولنے اور زبردستی قبضہ کرنے پر 80 نامزد افراد اور 1800 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی،نامزد ملزمان میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے چاروں بیٹے،جمیعت علمائے اسلام کے عبدالغفورحیدری،جاوید ہاشمی کے داماد زاہد بہار ہاشمی اور عبدالرحمن کانجو بھی شامل تھے۔

کریک ڈاؤن،پولیس گردی،پکڑ دھکڑ اور نامساعد حالات کے باوجود پی ڈی ایم نے گھنٹہ گھر چوک پر یہ جلسہ کر کے دکھایا اور اس جلسے کی کامیابی کا سہرا سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو جاتا ہے۔اس جلسے میں بلاول بھٹو کی جگہ شہید رانی بے نظیر بھٹو کی صاحب زاردی آصفہ بھٹو نے اپنی شاندار سیاسی انٹری دکھا کر اپنے بہتر مستقبل کی نوید سنائی اور حکومت کو خوب للکارا۔پی ڈی ایم کا اگلہ جلسہ 13 دسمبر کو لاہور کے مینار پاکستان میں ہونا ہے۔پی ڈی ایم نے یہ جلسہ ہر صورت میں کرنے کا اعلان کر دیا ہے کیونکہ پی ڈی ایم کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس جلسے پر ہے۔

پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے مطابق جس طرح ملتان والا جلسہ ہو کر رہا ہے، اس طرح لاہور جلسہ بھی ہر صورت ہو گا۔یہ جلسہ ن لیگ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔مریم نوز شریف نے عوامی رابطہ مہم کے لیے لاہور میں ریلیاں نکالیں اور زندہ دلان لاہور کو جوش دلوانے کی کوشش کی کہ ہر صورت میں اس جلسے کو کامیاب کروانا ہے۔دوسری طرف حکومت کے مطابق اس جلسے کو زبردستی روکنے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی کوئی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔جلسے میں سروس دینے والوں پر ایف آئی آر درج کی جائے گی۔حکومت کے مطابق اپوزیشن کورونا کی دوسری لہر کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود بھی انا کی تسکین کے لیے خطرناک گیم کھیل رہی ہے۔

جلسوں سے حکومتیں نہیں جایا کرتیں البتہ کورونا ضرور پھیلے گا۔ اگر حکومت نے رکاوٹیں نہ ڈالیں تو یہ جلسہ کامیاب نہیں ہو سکتا جتنا اسکی توقع کی جا رہی ہے کیونکہ اس وقت ن لیگ کے قائد نواز شریف جس بیانیے پر کام کر رہے ہیں اس پر ن لیگ کے لوگوں کو اندرونی طور پر کافی تحفظات ہیں اور ان میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اورشاید اسی بیانیے کی وجہ سے پی ڈی ایم کی کارکردگی حکومت کو ٹف ٹائم نہ دے سکی۔ن لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز نے چند روز قبل ن لیگ کے سوشل میڈیا ورکرز کنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔

اب تابعدار خان کی مزید تابعداری نہیں چلے گی۔اس کنوینشن میں میاں محمد نواز شریف نے سوشل میڈیا کے نوجوانوں سے کچھ سوالات اٹھائے۔کیا آئیں شکنوں کے خلاف آواز اٹھانا غداری ہے،کیا چوروں کو بے نقاب کرنا غداری ہے،کیا آزادی اظہار رائے کرنا بھی غداری ہے۔میاں محمد نواز شریف جو خود اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے پر کھیلتے رہے اور تین دفعہ ملک کے وزیراعظم بنے تب تک سب کچھ ٹھیک تھا اور ان کے ادوار میں کبھی کوئی آئیں شکنی نہیں ہوئی۔چار ہفتوں کی مہلت لے کر علاج کی غرض سے لندن میں جا کر بیٹھ گئے تب بھی انہیں آئین کی پاسداری یاد نہیں آئی۔

ماضی میں حکومتیں بنانے اور گرانے کے لیے آئی جے آئی میں کروڑوں روپے خرچ ہوتے رہے انہیں تب بھی قانون شکنی یاد نہ آئی۔تیسری بار خود کو وزیراعظم بنانے کے لیے قانون تبدیل کر دیا، تب بھی کچھ یاد نہ آیا۔اب جب کہیں سے ریلیف اور این آر او نہیں مل رہا تو میاں محمد نوز شریف صاحب ٹھیک باقی سب غلط ہو گئے یہ دوہرا معیار کیوں اور کس لیے۔بات چوروں کو بے نقاب کرنے کی ہے میاں نواز شریف صاحب خود پاکستانی عدالتوں سے مفرور ہیں اور اشتہاری قرار پا چکے ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ خود میاں صاحب کا عدالتوں کے ساتھ دھوکہ ہے جو غداری کے زمرے میں آتا ہے۔

آزادی رائے پر اٹھائے سوال کی بات کی جائے تو میاں محمد نواز شریف پاکستان کے سیکورٹی اور ملٹری اداروں کے اعلیٰ افسران کو ٹارگٹ کر رہے ہیں،عدلیہ کے ججز، فوج اور آئی ایس آئی کے اعلیٰ افسران کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔یہ ادارے ملکی سلامتی کا اہم ستون ہوتے ہیں انہیں آزادی اظہار رائے کی نام پر غدار کہنا ملکی اداروں کی توہین ہے۔اگر ایک نظر پی ڈی ایم کے مستقبل پر دوڑائی جائے تو صورت حال بالکل واضح ہے۔پی ڈی ایم میں مختلف جماعتیں استعفیٰ دینے پر رضا مند نہیں ہیں۔پاکستان پیپلزپارٹی نے ممبران اسمبلی سے اس معاملے پر ابھی تک کوئی مشاورتی اجلاس نہیں بلایا۔

دوسری طرف دیگر پارٹیوں کے پاس اتنی سیٹیں نہیں ہیں جس سے حکومت کو مستقبل میں کوئی خطرہ مول لینے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔آنے والے دن پی ڈی ایم کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہیں۔ان ہاؤس تبدیلی،مذکرات،لانگ مارچ یا استعفیٰ پی ڈی ایم کی قیادت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔پیپلزپارٹی کی قیادت پی ڈی ایم کے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے راضی اور دوسری طرف قومی اداروں کو مثبت اشارے دینے کی حامی ہے۔پیپلزپارٹی ان ہاؤس تبدیلی کی خواہاں ہے اور ن لیگ اس کی مخالف کھڑی ہے۔مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف اداروں کے ساتھ مفاہمت کے خواہاں ہیں ۔

جبکہ میاں محمد نواز شریف، فضل الرحمن اور مریم نواز شریف ایک کشتی میں سوار ہو کر موجودہ صورتحال میں مفاہمت کے خلاف نظر آتے ہیں اور لانگ مارچ کے حق میں ہیں جبکہ پیپلزپارٹی استعفوں کی مخالفت میں ہے۔اندورنی طور ابھی پی ڈی ایم متفقہ پالیسی بنانے میں بالکل ناکام دکھائی دیتی ہے اور اس ساری ناکامی کی وجہ میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ ہے۔