|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2020

صوبہ بلوچستان دیگر صوبوں میں چھوٹا صوبہ سمجھا جاتا ہے جو کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہاں کی خوبصورتی یہاں کے تفریحی مقامات تمام تر علاقائی و دیگر صوبوں سے آئے لوگوں کو متوجہ کرنے اور تفریح کرانے میں مشغول رہتا ہے۔

بلوچستان کے ساحلی علاقے (کوسٹل ایریاز) ہنگول، اورماڑہ، گوادر جیسے خوبصورت علاقے جہاں قدرت کی خوبصورتی خشکی و سمندر کو تولتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کوسٹل ہائی وے کی خوبصورتی بھی اپنی ایک پہچان رکھتا ہے جس کو دیکھنے دور دراز سے لوگ آتے ہیں۔ چونکہ گوادر مکران کا حصہ ہے اور مکران کو تقسیم کرنے کی سازشیں اب شاید رنگ لانا شروع ہو چکی ہیں۔ گزشتہ دو دنوں سے ایک خبر گردش ہے کہ گوادر کو باڑ میں بند کیا جارہا ہے جو کہ پیشوکان، جیونی کو بھی کور کرے گا، جناب سر اعلی جام کمال صاحب کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اس گوادر میں لگنے والے باڑ کو لے کر سیاست کر رہی ہے حالانکہ وہاں کی عوام کو ان باڑ کے لگنے سے شکایت ہے جو اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں ان کے سر سے چھت نہ چھنا جائے ان کو گھر سے بے گھر نہ کیا جائے ان کے زمینوں پر قبضہ نہ کیا جائے اگر باڑ لگانے کے خلاف بولنے والے سیاست کر رہے ہیں تو گوادر کی عوام کررہی ہے اور کرتی ہرے گی۔ گوادر بلوچستان کے مکران ڈویڑن کا مشہور ڈسٹرکٹ ہے جہاں سے سی پیک کے ثمرات آئے دنوں پاکستان کی زینت بنیں گے۔ گوادر جیسے شہر کو امن و امان کے لئے باڑ کی نہیں توجہ کی ضرورت ہے ترقی کے نام پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں جو صرف اور صرف چند مخصوص مقامات کو مدنظر رکھ کر کئے جارہے ہیں۔ آج بھی گوادر کے رہائشی جو صدیوں سے آباد ہیں ان کے گھر علاقے سڑکیں وہی ہیں جو پہلے تھیں۔ اگر ترقی ہوا تو صرف پورٹ پر ہوا اگر ترقیاتی کام ہوئے تو ان جگہوں پر ہوئے جہاں پروٹوکول والی گاڑیاں تیز رفتاری سے آر پار ہو سکیں۔ چونکہ باڑ تو سیاست کی جڑ ہے تو سوچتا ہوں گوادر باڑ لگنے کے بعد ایک الگ ریاست ہوگا یا صوبہ یا پھر گوادر جانے آنے والے مکران کے لوگ ٹکٹ کی جگہ ٹوکن پر ہونگے۔ ہوسکتا ہے گوادر کی انٹری مخصوص لوگوں کے لئے ہو یا تو چند لوگوں کے لیے۔ گوادر کو باڑ لگا کر گورنمنٹ ایک چھاونی بنانا چاہتی ہے جو کہ کاروباری عوام ماہیگروں و دیگر کے لئے نقصان کا باعث ہے۔ تربت بلوچستان میں عمران خان کے میگا پروجیکٹس میں باڑ بھی ایک پروجکٹ تھا جو وفاق پہنچ کر مشتہر کیا گیا۔