|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2020

وہ لاہور شہر کی گلیوں میں بھیک مانگتا تھا کسی نے کچھ مدد کی تو کسی نے دور دفع ہونے کو کہا لیکن اس کی معصومیت اس بات کی تمیز نہیں کر پاتی کہ اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں توکیوں نہیں۔اپنے ماں باپ کے لاڈ پیار سے بچپن میں ہی محروم ہوچکا تھا۔یہ غالباً 1890کا دورانیہ تھا جہاں حال ہی میں دوسری افغان اینگلو وار ختم ہوچکی تھی۔روس اور برطانیہ کے درمیانTHE GREAT GAME کی سیاسی جنگ چل رہی تھی۔لاہور شہر کے میوزیم(WONDER HOUSE)کے سامنے کھیلتے ہوئے اس کی نظر ایک تبتی بڈہسٹ پر پڑتی ہے۔

لاہور کا رہائشی محبوب علی جوکہ برطانوی حکومت کی خفیہ ادارے کے لیے کام کرتا تھا بچے کی معصومیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تبتی بزرگ کے ساتھ برطانوی حکومت کے لیے جاسوسی کی غرض سے امبالا شہر (ہندوستان) روانہ کرتا ہے اور یوں ایک معصوم بچہ انگریز حکومت کے لیے ‘دی گریٹ گیم” کا ایک جاسوس بن جاتا ہے۔یہ کہانی مشہور نوبل ایوارڈ یافتہ روڈیارڈ کپلنگ کے مشہور زمانہ ناول “Kim” کی ہے جو سن 1900 سے 1901 کے درمیان شائع کی گئی تھی۔ یقیناً بچوں میں اچھے اور برے کی تمیز نہ ہونے کی وجہ سے انہیں انسان دشمن عناصر کہیں پر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ میں ایسے بے شمار یتیم اور لاچار بچے شہر میں عوامی مقامات پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔یہ معصوم کبھی اللہ کے نام پر تو کبھی ہاتھ میں قلم تسبیح وغیرہ لیکر بھیک مانگتے ہیں۔ان بچوں کو مذہب کا نہ ہی اللہ کے نام پر مانگنے کا مقصد پتہ ہے۔ حال ہی میں سوشل ویلفیئر کی مدد سے ان بچوں کو ری ہیبلیٹیشن سینٹرز میں لے جانے کی ذمہ داری سونپی گئی تو جس سے بچنے کے لیے ان بچوں کے آقاؤ نے مختلف اشیاء بیچنے کے ذریعے خیرات مانگنے کی شکل تبدیل کروائی گئی۔جہاں دنیا ایک طرف چائلڈ لیبر کو روکنے کے بارے میں سنجیدہ ہے وہاں بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں مذکورہ مسئلے کو کسی ادارے نے سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔

اب تو پیشہ ورانہ آقاؤں نے ان بچوں کے ہاتھ میں کچھ قلم، ٹافیاں وغیرہ تھماکر ان کی گداگری تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ایسے معصوموں کا چیزیں بیچنا بھی شاید ایک طرح سے چائلڈ لیبر کی طرف انہیں دھکیلنا ہے۔پاکستان کے1973 آئین آرٹیکل 11(3) بیان کرتا ہے کہ کسی بھی بچے جس کی عمر 14 سال سے کم ہو فیکٹری وغیرہ کام کرنے کو سختی سے منع کرتا ہے جبکہ آٹھارویں ترمیم میں عمر کی حد 14 سے بڑھا کر16 سال رکھی گئی ہے۔اس ضمن میں سندھ کابینہ کی جانب سے ایک موثر اقدام لاگو کیا گیا تھا جس میں بچوں کی گدا گری کو ممنوع قرار دیا گیا جبکہ سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کو ہدات جاری کی گئی تھی کہ ٹریفک چوراہوں پر بھیک مانگنے والے بچوں کو اپنے ساتھ ری ہیبلیٹیشن سینٹرز لے جانے کی ہدایت بھی شامل تھی۔

بلوچستان حکومت نے اگرچہ گداگری اور چائلڈ سے متعلق کئی اقدامات اٹھائے ہیں لیکن قانونی طور پر ابھی گداگری کی لعنت کی روک تھام کے لیے کوئی موثر اقدام نظر نہیں آرہا۔ گدا گری سے نہ صرف بچوں کا استحصال ہورہا ہے بلکہ یہ کئی جرائم کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ صوبائی درالحکومت میں پیشہ ورانہ گداگر بچوں کو استعمال کررہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جہاں ایک طرف معصوم بچوں کی معصومیت کا قتل ہورہا ہے وہیں ان کو غیر قانونی کارروائیوں جیسے منشیات فروشی اور دہشت گردی کے لیے ملک اور انسانیت دشمن عناصر کی طرف سے باآسانی استعمال کرنے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

One Response to “معصومیت کا قتل”

Comments are closed.