|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2020

ملک کے سیاسی معاملات تیزی سے تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور استعفوں سے متعلق اپنے روڈ میپ کا اعلان کرکے ملکی سیاست میں ایک ہلچل پیدا کردی ہے جس کے بعد کئی مہینوں سے جاری سیاسی کشمکش اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہونے جارہی ہے جس سے تصادم کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لاہور جلسے میں پی ڈی ایم رہنماؤں کی مذاکرات سے گریزتقاریر سے لگ رہا ہے کہ ملکی سیاست ایک بند گلی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا لاہور جلسے سے خطاب میں یہ کہنا کہ مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے ۔

فون کرنا بند کرو اب ہم اسلام آباد آرہے ہیں، اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ان سے رابطہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن چونکہ یہ پی ڈی ایم کی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ اب جو بھی بات چیت ہوگی وہ پی ڈی ایم کے تحت ہوگی اور مذاکرات اس وقت ہوں گے جب حکومت استعفیٰ پر راضی ہوگی۔ ن لیگ کے بعد اب پیپلزپارٹی نے بھی مذاکرات کے لیے اپنے دروازے بند کردئیے ہیں۔ کچھ دن قبل بھی ایک خفیہ ادارے کے سربراہ نے وزیر اعلیٰ ہاؤس آکر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد شاہ سے ملاقات کی تھی۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ اس ملاقات میں وزیر اعلیٰ سندھ کے ذریعہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت سے مذاکرات اور ملاقات سے متعلق ایک اہم پیغام بھی بھیجا گیا تھا لیکن ذرائع بتاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے تن تنہا کسی سے بھی مذاکرات یا بات چیت سے انکار کر دیا تھا۔ لاہور جلسے کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے احتجاج کا پہلا مرحلہ بڑی حد تک کامیاب رہا۔ گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ، پشاور، ملتان اور لاہور میں ہونے والے احتجاجی جلسوں میں حکومت کی طرف سے بھرپور رکاوٹیں ڈالنے کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کرکے حکومتی بیانیہ کو مسترد کیا ہے۔

آل پارٹیز کانفرنس میں وفاقی حکومت اور مقتدر قوتوں کے خلاف سخت بیانیہ کی کوکھ سے جنم لینے والی پی ڈی ایم اور اس کی پالیسیوں کے خلاف حکومتی حلقے اور اس سے قربت رکھنے والے ناقدین سخت نالاں تھے۔ وہ شروع دن سے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو غیر فطری قرار دیتے رہے اور یہ تاویلیں پیش کرتے رہے کہ یہ صرف احتساب سے بچنے اور اپنی لوٹی ہوئی دولت کو تحفظ دینے کے لیے حکومت کے خلاف متحد ہیں، جس دن انھیں این آر او دیا جائے گا اسی دن وہ اپنا احتجاج ختم کریں گے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ ایک ساتھ آگے نہیں بڑھ سکیں گی، پیپلزپارٹی ہر گز استعفیٰ نہیں دے گی ، ن لیگ سے ش لیگ نکلے گی۔

دسمبر میں ان کے غباروں سے ہوا نکل جائے گی۔ لیکن اب تک یہ ساری تاویلیں اور پیش گوئیاں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں اور اپوزیشن کامیابی سے حکومت کے خلاف نہ صرف اپنے اہداف حاصل کر رہی ہے بلکہ حکومت کی بیڈ گورننس اور ناکام معاشی پالیسیوں کے اثرات کے مارے عوام کی ہمدردیاں بھی سمیٹنے میں کامیابی حاصل کررہی ہے۔لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کو اپنے آخری اہداف کے حصول تک حکومتی چیلنجز کے علاوہ کئی دیگر اہم چیلنجز کا بھی سامنا رہے گا چونکہ اپوزیشن کے بیانیہ کے مطابق عمران خان کی حکومت ایک جزوی ہدف ہے۔

اصل میں ان کو لانے والے اور ہمیشہ سے سیاسی اور انتخابی معاملات میں مداخلت کرنے والی مقتدر قوتیں ان کا اصل ہدف ہیں انھیں کسی بھی طرح آئین میں دی گئیں حدود تک محدود کرنا مقصود ہے اور یہ وہ سب سے بڑا چیلنج ہے جو اپوزیشن کو اس وقت درپیش ہے۔ چونکہ اس وقت مقتدرہ مکمل طور پر حکومت کی پشت پر کھڑی ہے جس کی وجہ سے حکومت کی خود اعتمادی اب تک غیر متزلزل ہے لیکن اپوزیشن کی ثابت قدمی، اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کا عزم اور قربانی دینے کا جذبہ اگر برقرار رہا تو بعید نہیں کہ نہ صرف حکومت کا زوال شروع ہو بلکہ مقتدرہ بھی اپنی آئینی حدود میں رہنے کو ملک کے عظیم ترمفاد کا ذریعہ سمجھنے لگے گی ۔

اور پھر یہ سویلین قیادت کی طرف سے پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی اور مؤثر کامیابی ہوگی، جس سے ملک میں انتخابی اصلاحات کے بعد ایک آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جاسکے گا جس کے ذریعہ لولی لنگڑی اور مشروط جمہوریت سے نجات حاصل کرکے ایک حقیقی عوامی جمہوریت کی طرف نئے سفر کا آغاز ہوسکے گا۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتوں کی احتجاجی تحریک کو شروع دن سے ہی ایک ایسے چیلنج کا سامنا رہا ہے جسے وہ آج تک نظرانداز کرتے آرہے ہیں وہ ہے کرونا وائرس کی وبا، وفاقی حکومت نے پی ڈی ایم کے جلسوں کو ناکام بنانے کے لئیے کرونا وائرس کے معاملے کو اپوزیشن کے خلاف ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر بھرپور طریقے سے استعمال کرتی رہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان تواتر کے ساتھ اپوزیشن کے جلسوں کی وجہ سے کرونا پھیلنے کے خطرات سے قوم کو آگاہ کرتے رہے ہیں کرونا ایکٹ کے تحت پابندیاں اور گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں لیکن ان کے باوجود اپوزیشن اپنے پلان کے مطابق تمام جلسے منعقد کرنے میں کامیاب رہی ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد ان جلسوں میں شرکت کرتی رہی ہے۔ حکومت اب بھی ملک میں کرونا کے بڑھتے کیسز کی وجہ اپوزیشن جماعتوں کے احتجاجی جلسوں کو قرار دے رہی ہے تاکہ آنے والے دنوں میں اپوزیشن کی لانگ مارچ میں عوام شرکت سے گریز کر یں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں کرونا کی دوسری لہر خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ مصدقہ کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے اموات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں کرونا سے زیادہ خطرناک موجودہ حکومت کو قرار دے رہی ہیں جسے جواز بنا کر اپوزیشن اپنے احتجاجی عمل کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔ گو کہ اپوزیشن کے بڑے جلسے اب ختم ہو چکے ہیں لیکن جنوری کے آخر میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور اس سے پہلے عوام کو راغب کرنے کے لئے احتجاجی ریلیوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ بھی اپوزیشن کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔

حکومت کو گرانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے آخری اور فیصلہ کن معرکہ استعفوں کا ہے یعنی قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ دیا جائے گا۔ پی ڈی ایم کے پلان کے مطابق اکتیس دسمبر تک تمام اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اپنے اپنے استعفی اپنی پارٹی قیادت کے پاس جمع کرائیں گے اور اس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ کس وقت یہ استعفے متعلقہ اسپیکرز کے پاس جمع کرائے جائیں۔ لاہور جلسہ عام سے خطاب میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ استعفیٰ لے کر ہم اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے۔

اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو گرانے اور اپنے آخری ہدف کو حاصل کرنے کے لئے یہ سب سے بڑا اور مؤثر حربہ ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ اپوزیشن کے لئیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے حکومت اور ناقدین اب بھی اس بات پر قائم ہیں کہ اپوزیشن استعفیٰ نہیں دے گی اور خاص طور پر پیپلزپارٹی سے متعلق یہ تاثر عام ہے کہ وہ استعفے نہیں دے گی کیوں کہ وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ سندھ میں حکومت کر رہی ہے اور سینیٹ کا وائس چیئرمین کا عہدہ بھی ان کے پاس ہے وہ کیسے یک مشت ان تمام اختیارات سے ہاتھ دھو بیٹھے گی ۔

اس لئے استعفے دینے کے وقت اپوزیشن تقسیم ہوگی اور اپنے مقاصد میں مکمل ناکام ہوجائے گی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ استعفے دینے سے متعلق پیپلزپارٹی کا مؤقف واضح ہوتا جارہا ہے۔ احتجاج ، لانگ مارچ، دھرنا اور استعفوں کے ذریعے حکومت کو گرانے کے اپوزیشن کے بیانیہ سے متعلق بیشتر کرنٹ افیئرز کے اینکرز اور تجزیہ نگار متفق نہیں ہیں جس کی وجہ سے اپوزیشن کو میڈیا کے ذریعہ اپنے اس بیانیہ کی تشہیر میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کچھ صحافی اور غیر صحافی اینکرز و تجزیہ نگار اس حد تک درست کہہ رہے ہیں کہ جمہوری عمل کو جاری رہنا چاہیے۔

پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے اپنے پانچ پانچ سال پورے کئے ہیں اس لیے پی ٹی آئی کو بھی اپنے پانچ سال مکمل کرنے کا موقع دینا چاہیے تاکہ جمہوری عمل کا سفر بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رہے۔ میں خود بھی اس فکر و فلسفہ کا داعی ہوں لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے اپوزیشن کا یہ بیانیہ اب کھل کر سامنے آگیا ہے کہ ان کا مقصد صرف حکومت گرانا نہیں بلکہ ہمارا اصل ہدف سیاسی اور انتخابی عمل میں مقتدرہ کی مداخلت کا مکمل خاتمہ ہے، جب تک فوج اور خفیہ اداروں کی مداخلت کا خاتمہ نہیں ہوگا اس وقت تک ہم سویلین بالادستی اور آئین کی حکمرانی قائم نہیں کرسکیں گے۔

اپوزیشن کا یہ دعویٰ ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں پری پول دھاندلی سے لے کر انتخابات کے دن آر ٹی ایس سسٹم کی ناکامی تک کے عمل میں مقتدر حلقے براہ راست ملوث رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے جیتنے والے امیدواروں کے نتائج کو روک کر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو زبردستی کامیاب کرایا گیا ہے، اس لیے یہ حکومت سلیکٹڈ ہے اسے گرانے کے بعد ایک صاف، شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کرایا جائے گا جس میں فوج اور خفیہ اداروں کا عمل دخل بالکل نہیں ہوگا، شفاف انتخابات کے بعد جو پارٹی جیتے گی اسے حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا جائے گا ۔

اپوزیشن کے اس بیانیہ میں کافی وزن ہے اگر ان اینکرز اور تجزیہ نگاروں کی بات مان لی جائے اور زہر کا پیالہ پی کر پی ٹی آئی کی حکومت کو پورے پانچ سال حکومت کرنے کا موقع دے دیا جائے تو ملکی معیشت کی درگت اور خارجہ پالیسی کی شرمناک ناکامی اپنی جگہ ،اس سے مقتدر قوتوں کی سیاست اور انتخابی عمل میں مسلسل مداخلت کو سند مل جائے گا اور ملک میں حقیقی جمہوریت اور سویلین بالادستی کا حصول خواب ہی رہے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی کوششیں پہلے بھی کی گئی تھیں، سیاسی عمل میں فوج اور خفیہ اداروں کی مداخلت کے خاتمے اور آئین کی بالادستی کی بنیاد پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے 2006 میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر اتفاق کیا تھا۔

لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد دونوں جماعتیں ان اہم معاملات پر چشم پوشی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں جس کی وجہ سے انہی کے دور اقتدار میں خفیہ اداروں کی سیاسی مداخلتوں کی اتنی داستانیں ہیں جن پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کیا اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق حاصل کر چکی ہیں۔ کیا وہ واقعی اپنی ساری کشتیاں جلا کر ایک فیصلہ کن معرکہ کی طرف گامزن ہیں؟ اس سے متعلق حتمی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہے لیکن اگر حالات کا تجزیہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ ان کے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں رہا گو کہ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ حکومت ہے۔

اور وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکمران جماعت ہے لیکن وفاقی حکومت کی اٹھارویں آئینی ترمیم، این ایف سی ایوارڈ ، جزائر پر کنٹرول اور گورنر راج کی طرف پیش قدمی نے پیپلزپارٹی کو ن لیگ کے جارحانہ بیانیہ کے ساتھ مجبوراً کھڑا کردیا ہے۔ پیپلزپارٹی یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن کے بعد وفاقی حکومت نے ان کے ساتھ کیا دو دو ہاتھ کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے اس لئے وہ ن لیگ اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کی طرح اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کا فیصلہ کرچکی ہے۔