صاحبزادہ صاحب کو ہم سے بچھڑے چار سال ہونے کو ہیںاور آج بھی ہمارے اکثر رسمی و غیر سمی ادبی نشستوں میں اُنا ذکر خیر جاری رہتا ہے کیوں نہ ہو اگر ایک شخص نصف صدی تک ایک دہتکار ی، محکوم اور نظر انداز زبان میں لکھے پڑھے سیکھے اور سکھائے تو اس کافیض تو ویسے بھی جاری رہتا ہ الور انکی تصنیفات اور تالیفات بک شیلف سے جھانکتی ہوئی ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہیں انہوں نے نصف صدی سے زائد اُن کواڑوں پر دستکیں دیں ہیں جو شاہد اب دروازوں کے بجائے کنکریٹ کے ٹھوس وجود میں ڈھل چکی ہیں لیکن وہ تو دستک دینے والوں میں سے تھے جو کواڑ کھل گئے۔
اورجنہوں نے تھوڑی بہت روشنی پائی اس روشنی کی فیض ہے جس کی بدولت آج زبان پشتو میں خصو صاً نثر کا تو تلا طو طا بول اُٹھا ہے، اب سوشل میڈیا۔ ٹو یٹر ، فیس بک ، سبسکر پشن اور ٹر ینڈز کے نقا ر خا نے میں کس طر ح اپنی گو یا ئی کو جلا بخشتا ہے یہ اور بات ہے۔لیکن یہ ما ننا پڑ ے گا کہ پس نو آ با دیا تی سما ج میں ریا ستی کنا روں پر آ با د زبا نیں ،کلچر ، آ رٹ ، تا ر یخ اور ادب روما نو ی داستا نوں کے ان کر داروں کی طر ح ہو گئیں ہیں جو مو جو دہ تیز تر ین مشینی دور میں اپنے وجو د کے سوال سے دوچا ر ہیں۔
صا حبزازہ صا حب اپنے زمان ومکا ن میں ایک زبا نی کلا می ، شفا ہی اور فو کلوری روایت سے جڑٰ ے ہو ئے سما ج کے وہ پہلے مبتلا شخص ہیں جنہوں نے دیوانی یا با قا عدہ شا عر ی کا دا غ ملا مت اپنے ما تھے پر سجا یا۔ روایتی اور قبا ئلی سماج دیوانی ، تحر یر ی یا جدید شا عر ی سے خدا واسطے کا بیر کیوں رکھتی ہے؟ یہ ایک ایسا معمہ ہے جسکے تا نے با نے سما جی تنظیم ، قبا ئلیت اور زبان سے جُڑ ی ہو ئی سا مرا جی تا ریخ کے پلٹنے سے ملتے ہیں۔لیکن یہ ایک مصد قہ حقیقت ہے کہ آ ج بھی پشتون قبا ئلی سما ج میں شا عر اپنے اس چنا خت کو حت الوسع چھپا نے کی کو شش کر تے ہیں جس کے سا تھ مخصوص سما جی روئے جو ڑ دئے گئے ہیں۔
جب پشتو شا عری روا یتی فو کلو ر سے جدید دیو انی شا عری کے قا لب میں ڈھل رہی تھی ،اس کیلئے ایک ایسے عبوری دور کی ضر ورت تھی جو تخلیق اور اظہا ر کے ان دو مختلف زرا ئیوں کو جو ڑ نے کیلئے درکا ر تھی۔ صا حبزادہ صا حب اور اُنکے عصر کے دیگر شعراء نے لکھے پڑ ھے حر وف کی قرا ئت اور فو کلو ری تخلیقا ت کے درمیا ن ایک ایسے واسطے کے طور پر کردار اداکرنا تھاجو ایک کو دوسرے پر فو قیت دئے بغیر ،اظہا ر اور تخلیق کے درمیان بیگا نگیت کے اس تا ثر کو کم کر سکیں جو عمومی طور پر ایک دیہا ت اور شہر کے درمیان حا ئل رہا ہے۔
صا حبزادہ صا حب نے نہ صر ف ڈنکے کی چوٹ پر پشتو میں شا عری کی بلکہ وہ اپنے عصر کے پنج زبان شا عر ہیں جنکے شا عری کے نمو نے ہمیں پشتو ،اردو، فا رسی، عر بی اور انگر یزی تک ملتے ہیں۔اُن کے علمی وا دبی کا وشوںکو پر و فیسر نیک محمد صا حب نے اپنے ایم فل کیلئے مو ضو ع تحقیق چُنا اور طو یل اور صبر آ زما مسا فت کے بعد، جب مقا لہ لکھا گیا۔ اور ابھی پینل کے سا منے ڈیفنس کا مر حلہ باقی تھا تو اس دوران میں اُنکے سپر وائیزر ڈاکٹر راج ولی شا ہ خٹک راہی ملک عدم ہو ئے اور اس بار گراں کو محض رسمی تور پر کا ندھا دینے کا اتفا ق راقم کو ہوا۔
اس تحقیقی مقا لے میں صا حبززادہ صا حب کی شخصیت ، نثری و شعری تخلیقا ت ، ترا جم ، خطو ط ، وغیر ہ کے سا تھ سا تھ انکے پشتو، فا رسی،اردو ،عر بی،انگر یزی اور میں شا عری کے نمو نے بھی پیش کئے تھے جو کہ نہ صر ف اسلو ب، اور بیان کی حوالے سے معتبر تھے بلکہ معیا ر کا دامن بھی نہیں چھوٹا تھا۔صا حبزادہ صا حب کو صر ف یہ انفراد یت حا صل نہیں ،بلکہ وہ چھہ مختلف مضا مین میں ایم اے کے ڈگر ی رکھتے تھے، صر ف ڈگر ی نہیں اُن مضا مین پر اتنی قدرت او دستر س رکھتے تھے کہ بندہ ششد ر رہ جا تا۔صاحبزادہ کی بذل ہسنجی اورانکی گفتگو میں مو جو د سچی ہے۔
سا ختگی ہمیں چند ایسے کھر ے پشتو نو ں کی یا د دلا تی ہیں جن کا ظا ہر اور با طن ایک جیسا ہو تا، جو بنیا دی گفتگو کے اداب و اطوار سے لے کر عقا ئد اور تہذ یب تک کے حوالے سے اپنا کو ئی ایسا منطق رکھتے جس پر وہ اپنے تہیں سو فیصد عمل بھی کر تے اور اس کا بر ملا اور بر جستہ اظہا ر بھی ۔جب با ت ذہن میںآئی تو یہ دیکھے بغیر کہ دیتے کہ آ گے وزیر کھڑا ہے یا فقیر، خصوصاً جب کو ئی شا عری یا لکھا ری ان سے ملنے یا مزاج پر سی کیلئے چلے جا تے تو اسے اس وقت حیرانی ہو تی کہ صا حبزادہ صا حب انکے کسی طبع شدہ مضمون یا کتا ب کے کسی حصے سے بات شروع کر دیتے اور پھر ان سے اس پر نہ صر ف استفسا ر کر تے بلکہ ریکا رڈ کی درستگی کیلئے ان کے مضمون یا تخلیق کی خبر بھی لیتے۔
صا حبزادہ حمید اﷲ صا حب پشین اور اس سے ملحقہ علا قوں میں با لخصو س اور افغا نستان ، خیبر پختو نخوا، کراچی اور کو ئٹہ میں علم و ادب کے ایک معتبر حوالے کے طور پر جا نے اور ما نے جا تے تھے ، انہوں نے علم ،دانش ، درس و تدریس کو اپنے زندگی کا مقصد بنا یا ۔مو من کی اس گم گشدہ میراث کو پا نے کیلئے اپنء زندگی لُٹا ئی۔بطور استا د ہزاروں شا گردوں کو علم کی روشنی سے منور کیا ۔ فا رسی ، عر بی، اردو اور انگر یزی زبا نیں سیکھیں ، سیکھا ئیں ، تحر یر اور شا عر ی کیلئے ان زبا نو ں کو بر وئے کا رلا یا۔ لیکن صا حبزادہ صا حب کی سب سے بڑ ی خو بی میری نظر میں یہی ہو سکتی ہے کہ انہوں اپنی ما دری زبان سے لکھنے اور پڑ ھنے کا آ غا ز کیا اور قر یبا پا نچ دھا ئیا ں پشتو لکھنے میں صر ف کئیں ۔