نصف صدی قبل رونما ہونے والا سقوط مشرقی پاکستان تاریخ اسلام کا بدترین سانحہ تھا جس پر بہت کچھ لکھاجاچکا ہے اورآئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔اس سانحے کے بہت سے پہلو تھے، کچھ مصنفین نے اسے احساس محرومی کا نتیجہ قرار دیا توبہت سے مبصرین نے اسے محض اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی سے گریز جبکہ دیگر نے اسے صرف پاکستان کی فوجی شکست سے تعبیر کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بقول قابلؔ اجمیری ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
سقوط مشرقی پاکستان اچانک رونما ہونے والا المیہ نہیں تھا بلکہ مندرجہ بالا وجوہات اور عالمی طاقتوں کی مداخلت کے علاوہ اس میں ہماری اپنی شعوری و لاشعوری کوتاہیوں اور لغزشوں کا بھی دخل تھا جن سے ہم اس سانحہ پر روشنی ڈالتے ہوئے دانستہ یا ناداستہ اغماض برت جاتے ہیں اوراپنی توجہ زیادہ تر ’’وٹنس ٹو سرنڈر‘‘ پرمرکوز رکھتے ہیں اور اس سانحے کے’’وٹنس ٹو بلنڈرز‘‘ بننے سے گریز کرتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں سانحہ مشرقی پاکستان کے چند پہلوئوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ قارئین کو اس میں زیربحث آنے والے بہت سے نکات سے اختلاف ہوسکتاہے لیکن اختلاف کے اظہار اور تنقید کو کشادہ دلی سے قبول کرکے مستقبل میں بہت سے سانحات کی پیش بند ی کی جاسکتی ہے اور ان سے بچا جا سکتا ہے۔
14اگست1947ء کودو بازوئو ں یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان جن کے درمیان پرایک ہزار میل طویل دشمن کی سرزمین حائل تھی، پر مشتمل ایک منفرد اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی تھی۔ مشرقی بازو آبادی کے لحاظ سے مغربی بازوسے بڑا تھا، دونوںبازوئوں کے درمیان آبادی میں توازن پیدا کرنے کیلئے 22نومبر 1954ء کواس وقت کے وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے ون یونٹ سکیم متعارف کروائی ۔ ون یونٹ سکیم دراصل گورنر جنرل ملک غلام محمد کی ذہنی اختراع تھی جبکہ وزیراعلیٰ ممتاز علی دولتانہ نے اسے تحریری شکل دی تھی۔
اس سکیم کے تحت ملک کے مغربی بازوکے تمام صوبوں اور ریاستوں کو ضم کرکے انہیں ایک انتظامی یونٹ میں تبدیل کیا جانا تھا تاکہ صوبائی حدبندیوں کو ختم کرکے قومی یکجہتی کو فروغ دیا جاسکے نیزدونوں بازوئوں میں آبادی کے اعتبار سے توازن پیدا کیا جا سکے اوران کے درمیان ایک ہزار میل کی دوری کی وجہ سے پیش آنے والے انتظامی مسائل ومشکلات کو کم کیا جاسکے۔وزیر اعظم محمد علی بوگرہ(جو مشرقی بنگال کے علاقے باریسال سے تعلق رکھتے تھے) کے مطابق ــ’’اب (ون یونٹ کے قیام کے بعد)ملک میں کوئی بنگالی نہیں رہے گا، کوئی پنجابی نہیں رہے گا۔
کوئی سندھی نہیں رہے گا، کوئی پٹھان نہیں رہے گا، کوئی بلوچ نہیں رہے گا، کوئی بہاولپوری نہیں رہے گااورکوئی خیرپوری گروپ نہیں ہوگا، ان گروپوں کے خاتمے سے پاکستان میں قومی یکجہتی کو استحکام ملے گا‘‘۔ 30ستمبر 1955ء کو قومی اسمبلی سے ون یونٹ بل کی منظوری کے بعد وزیراعظم بوگرہ کے جانشین وزیراعظم چوہدری محمد علی نے ون یونٹ سکیم نافذالعمل کردی اورانتظامی اصلاحات کے دعوے کے ساتھ نافذ کی جانے والی سکیم کا مقصد لسانی و نسلی امتیازات کا خاتمہ اور اخراجات میں کمی بتایا گیا۔
ون یونٹ سکیم کے تحت مغربی پاکستان بارہ انتظامی ڈویژنوں پر مشتمل تھا جبکہ لاہور کو اس کا صوبائی دارالحکومت قرار دیا گیا۔دوسری طرف مشرقی بنگال (بشمول سلہٹ اور اس کا پہاڑی سلسلہ) کو مشرقی پاکستان کا نام دے کر ڈھاکہ کو اس کا صوبائی دارالحکومت قرار دے دیاگیاجبکہ کراچی کی وفاقی دارالحکومت کی حیثیت برقرار رہی۔ چار صوبوں کی طرف سے ون یونٹ سکیم کی مخالفت کی گئی اور اس کے خلاف مزاحمت شروع ہوگئی ، بالخصوص مشرقی پاکستان میں ون یونٹ سکیم کوآبادی کے لحاظ سے ملک کے اس حصے کی اکثریت پر ضرب کے طور پر دیکھا گیا۔
اور نیشنل عوامی پارٹی نے ون یونٹ کی تحلیل اور علاقائی (regional)خودمختاری کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔اسی اثناء میں صدرسکندر مرزا جو کہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر تھے، نے 7اکتوبر1958ء کو ایک تحریری حکمنامے کے ذریعے 1956ء کے آئین کو منسوخ کرکے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا اور کمانڈرانچیف جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لاء مقرر کردیا۔یہ پاکستان میں پہلا ملک گیر مارشل لاء (اس سے پہلے6مارچ 1953ء کو گورنرجنرل غلام محمد نے قادیانی مسئلے پر لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کی سربراہی میں لاہور میں تین ماہ کیلئے جزوی مارشل لاء نافذ کیا تھا) تھا، تاہم دو ہفتے بعد 27اکتوبر 1958ء کوجنرل ایوب خان نے صدر سکندرمرزا کو معزول کرکے تمام انتظامی اختیارات خودسنبھال لیے ۔
شروع میںایوب حکومت نے ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے چند اقدامات کیے جس کی وجہ سے ملک کو اقتصادی استحکام ملا، پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائی پانی پرمناقشہ چل رہا تھا اور بھارت کی طرف سے اکثر آبی جارحیت کاخطرہ رہتا تھا، چنانچہ ایوب حکومت نے 19ستمبر 1960ء کو عالمی بینک کی ثالثی کے ذریعے بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے۔ معاہدے کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریائوں بیاس، راوی اور ستلج جن کا سالانہ بہائو 33 ملین ایکڑ فٹ تھا، کے پانی استعمال کی اجازت دی گئی جبکہ 80ملین ایکڑ فٹ سالانہ بہائو کے حامل تین مغربی دریائوں سندھ، چناب اور جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔
اس معاہدے کے تحت انڈس سسٹم کے کل پانی کا 16فیصد بھارت جبکہ باقی پانی پاکستان کے تصرف میں دینا طے پایا(بدقسمتی سے سیاست کی نظر ہوجانے کی وجہ سے اس معاہدے سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا جاسکا اور اسے تین دریا بھارت کو بیچ دینے سے تعبیر کیاگیا لیکن ناقدین آج تک اس مبینہ سودے کی قیمت بتانے سے قاصر ہیں۔ دوسری طرف بھارت نے اس سے بھرپور فوائد حاصل کیے اور ساتھ ہی پاکستان کو بنجربنانے کی سازشوں پر بھی عمل پیرا ہے)۔اسی طرح 2مارچ 1963ء کوایوب حکومت نے چین کے ساتھ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر سرحدی معاہدہ کرکے پاک چین دوستی کی بنیاد رکھی ۔
اور پاکستان کیلئے دوررس اقتصادی و سٹریٹیجک فوائد حاصل کیے جن میں حال ہی میں شروع کیاجانے والا سی پیک پروگرام بھی شامل ہے۔ ایوب حکومت نے مختلف اقدامات اٹھاکر ملک کو تیزی سے صنعتی ترقی کی راہ پر بھی ڈال دیا اور پاکستان کا شمار اس وقت کے ایشیائی ٹائیگرز میں ہونے لگا اور کوریا اور ملائیشیا جیسے ممالک اس کے روڈمیپ کو اپنا کر صنعتی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوئے۔(جاری ہے)